جمہوری ملک میں جمہوریت کا فقدان

ہفتہ 30 مئی 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں بجائے اس کے کہ کوئی ایک شخص لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے اپنے طور پر کرے لوگوں کو وہ تمام اہم فیصلے خود کرنے کا حق ہوتا ہے جو فیصلے ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ہر شخص کے نقطہ نظر پہ عمل کرنا تو نا ممکن ہے لیکن ہر شخص کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور کثرت رائے کی بنیاد پہ فیصلہ کیا جاتا ہے اب اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہمارے ملک میں کبھی بھی جمہوری اصولوں پر حقیقی معنوں میں عمل نہیں کیا گیا جس کی بہت ساری وجوہات ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں پاکستان شروع سے ہی ایک مضبوط و مستحکم جمہوریت کی تلاش میں رہا ہے لیکن ابھی تک عملی طور پر کامیاب نہیں ہو سکا۔


1947 سے لے کر اب تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی 5 سال کی مدّت پوری نہیں کر پایا بلکہ اس سے پہلے ہی اسے غدّار یا نا اہل قرار دے دیا گیا یا پھر نظریہ ضرورت کے تحت ہٹا دیا گیا اس کی ایک بڑی وجہ غیر جمہوری طاقتوں کی سیاست میں مداخلت تھی اور ان غیر جمہوری طاقتوں سے ہر صاحب عقل شخص با خوبی واقف ہے پہلے تو پس پردہ ان کا سیاست میں عمل دخل تھا لیکن اب یہ غیر جمہوری طاقتیں واضح طور پر سیاست میں دخل انداز ہو رہی ہیں۔

(جاری ہے)

آئین پاکستان کو جنرل ایوب نے 1958 اور جنرل یحییٰ نے 1962 میں منسوخ کر دیا جبکہ جنرل ضیاء نے 1977 میں اور جنرل پرویز مشرف نے 1999 اور 2007 میں آئین پاکستان کو معلق رکھا یا معطل کر دیا یوں پاکستان میں جمہوریت ان غیر جمہوری طاقتوں کا نشانہ بنتی رہی جنرل پرویز مشرف کو ابھی کچھ دنوں پہلے غدّار بھی ڈکلئیر کیا گیا لیکن وہ کوئی ممتاز قادری تو تھے نہیں کہ ان کے کیس کا فیصلہ جلد از جلد ہو جاتا اور انکو سزا دی جاتی۔

ایک مضبوط و مستحکم جمہوریت کے لئے جمہوری اداروں کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیئے لیکن پاکستان کے جمہوری ادارے مضبوط نہیں کیونکہ آج بھی تاجر آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں اور معیشت پہ پریس کانفرنس اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہوتی ہے اگر ہم آئینی لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان کی عدلیہ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے ادارے کا کام لوگوں کو انصاف کی فراہمی اور آئین کے محافظ ہونے کے ناطے کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی درستگی تھا لیکن وہ نام نہاد ڈیم بنا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ وہ وزیر صحت کا عہدہ بھی سنبھالے ہوئے تھے اسی طرح شہباز گِل اور فواد چوہدری جیسے لوگ اپنا عہدہ سنبھالنے کی بجائے دوسروں کی وازارتوں میں عمل دخل کے عادی ہیں۔

جاگیردارانہ نظام بھی جمہوریت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے پاکستان کی سیاست ہمیشہ چند جاگیردار خاندانوں کے گرد منڈلاتی رہی ہے اور کبھی بھی کسی مڈل کلاس یا نچلے طبقے کے لوگوں کو موقع نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی آواز بلند کریں بلکہ ہمیشہ ان کی آواز کو دبایا جاتا رہا امریکہ جیسے ملکوں میں مضبوط و مستحکم جمہوریت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں باراک حسین اوباما جیسے مڈل کلاس کے لوگوں کو بھی صدارتی الیکشن میں قسمت آزمانے کا موقع دیا گیا۔

جمہوریت میں فری اینڈ فیئر الیکشنز ہونا لازمی ہیں لیکن ہمارے ملک میں تو الیکشن سے پہلے ہی اقتدار میں آنے والی پارٹی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اور اپوزیشن کے وہ لیڈرز جن سے اس پارٹی کو شکست کا خطرہ ہوتا ہے ان پہ مختلف الزامات لگا کے اور ان کے بارے میں مختلف من گھڑت کہانیاں بنا کے ان کو حراست میں لے لیا جاتا ہے اس کے علاوہ پاکستان میں زیادہ اثر و رسوخ والے سیاستدان ملک میں غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں سے ووٹ خرید لیتے ہیں۔

اگر ہم پارٹی کے اندر کی جمہوریت کی بات کریں تو پارٹی کے اندر بھی جمہوریت نہیں ہے کیونکہ ایک ہی خاندان کے افراد تا حیات پارٹی کے لیڈرز ہوتے ہیں جیسا کہ نواز شریف بغیر کوئی الیکشن کروائے پارٹی کے صدر بنے رہے حالانکہ ہونا تو یوں چاہئے کہ سوشل سٹیٹس دیکھے بغیر ایک مڈل کلاس پارٹی ممبر کو بھی جاگیردار کے خلاف پارٹی الیکشن میں حصّہ لینے کا حق ہونا چاہئے اور اگر وہ مڈل کلاس کا آدمی الیکشن جیت جاتا ہے تو اسی کو پارٹی کا صدر ہونا چاہئے۔

جہاں تک بات ہماری بیوروکریسی کی ہے تو ہماری بیوروکریسی ملک سے وفاداری کی بجائے سیاستدانوں کی وفادار ہے اور ہمیشہ اپنا اور سیاستدانوں کا باہمی فائدہ مدِ نظر رکھتے ہوئے کام کرتی ہے اس کے علاوہ ہماری مذہبی رہنما بھی کافی حد تک جمہوریت پہ اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں جیسے کچھ علماء نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ جمہوریت اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے لیکن شاید انہوں نے جان بوجھ کر اس بات کو پس پردہ رکھا کہ ہمارے چاروں خلفاء راشدین کا انتخاب جمہوری طریقہ کار سے ہی تو کیا گیا تھا۔

 
اور جہاں تک بات عوام کی ہے تو عوام کو ووٹ ڈالنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لوگ اکثر ووٹ ڈالنے نہیں جاتے کیوں کہ وہ سمجھتے سبھی لیڈرز ہی کرپٹ ہیں اور جو پارٹی بھی اقتدار میں آئے انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں کیونکہ مقصد تو ہر پارٹی کا ملک کو لوٹنا ہی ہے یہ سب اس لئے ہے کیونکہ لوگوں میں سیاسی شعور نہیں ہے اور انہیں اپنی جمہوری طاقت کا اندازہ نہیں ہے اگر ہم 2013 کے الیکشن کی بات کریں تو الیکشن ٹرن آوٹ 52% کے قریب تھا مطلب یہ کہ پاکستان کی آدھی عوام کے ووٹ ڈالے بغیر نئی حکومت کا انتخاب ہو گیا لیکن اب پاکستان کی جمہوریت کی حالت اب ویسی نہیں جو 2008 سے پہلے تھی 2008 کے بعد جمہوری نظام قدرے بہتر ہے اور اب تو 10 کی بجائے 12 سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے لیکن ملک میں مارشل لاء یا ایمرجنسی کا نفاذ نہیں ہوا ۔

 
لیکن ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ عمران خان کی حکومت لوگوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے میں کافی اہم کردار ادا کر رہی ہے اور لوگوں کو سیاسی طور پر بیدار کر رہی ہے کہ کیسے وہ ان وراثتی سیاستدانوں اور جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں کیوں کہ جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں حقیقی طاقت لوگوں کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے بشرطیکہ لوگ اپنی اس طاقت سے آگاہ ہوں اور اس کا آئینی و قانونی استعمال جانتے ہوں اگر پاکستان کے لوگ اپنی اس طاقت کی آئینی اہمیت کو پہچان جائیں تب ہی وہ ان غیر جمہوری، وراثتی اور جاگیردار طاقتوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی اور اپنے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :