ٹرمپ کی اسرائیل کو تسلیم کروانے کی مہم اور امریکا میں صدارتی انتخابات

منگل 1 ستمبر 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹرمپ کو اقتدار میں لانے کے لئے اسرائیل نے ہر طرح سے ٹرمپ کی حمایت کی تاکہ ٹرمپ اقتدار میں آئے اور بدلے میں ان کے گریٹر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنے میں ان کی مدد کرے اور یہی وجہ تھی کہ اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھا اور یہ بھی کہا کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا اور میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم میں منتقل کرنے کے احکامات دیتا ہوں اور صرف یہی نہیں امریکی صدر نے گولان کی چوٹیوں پر اسرائیلی خودمختاری کو بھی تسلیم کیا جن پر اسرائیل نے 1967ء میں قبضہ کیا تھا لیکن عالمی سطح پر یہ علاقہ متنازعہ تھا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق یہ قبضہ غیر قانونی تھا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس اقدام پر مقبوضہ گولان کی چوٹیوں پر یہودی آباد کاروں کو بسانے کے لیے ایک نئی بستی کا نام اپنے سب سے اہم اتحادی کے نام پر 'ٹرمپ ہائٹس' رکھا
2020ء کے شروعاتی دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نام نہاد امن منصوبے کا اعلان بھی کیا جسے بعض مبصرین نے 'ڈیل آف دا سینچری' یعنی اس صدی کا سب سے بڑا معاہدہ قرار دیا کیونکہ ان مبصرین کے نزدیک اس میں دنیا کے طویل ترین تنازعہ کا حل موجود تھا لیکن فلسطینی یہ بات بھانپ چکے تھے کہ یہ امن منصوبہ دراصل ایک سازش ہے فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'یروشلم برائے فروخت نہیں ہے ہمارے حقوق برائے فروخت نہیں ہے اور نہ ہی سودے کے لئے ہیں اور آپ کا یہ منصوبہ اور سازش منظور نہیں ہو گی'
گزشتہ دنوں میں اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان امن معاہدہ ہو چکا ہے اور فلسطین کاز پر کمپرومائز کرنے پر یو اے ای کو دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مسلمانوں میں اس معاہدے کو لے کر شدید غم و غصہ ہے اس معاہدہ کے بعد  متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے ایک وفاقی حکم نامے کے تحت 1972ء میں بنائے جانے والے اسرائیل کے بائیکاٹ کے قانون کا بھی خاتمہ کر دیا ہے جس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط کرنا ہے جس کے بدلے میں اسرائیل غرب اردن میں فلسطینیوں کی مزید اراضی پر قبضہ نہیں کرے گا مصر اور اردن کے بعد یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے والا تیسرا عرب ملک بن گیا ہے
اسرائیل کو توقع تھی کہ اس کے بعد عمان اور بحرین بھی اس کے ساتھ امن معاہدہ کر لیں گے لیکن ہوا کچھ اس کے برعکس اور بحرین نے تمام تر دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے جبکہ عمان کے مفتی اعظم احمد خلیلی نے ایک فتویٰ دیا ہے جس میں اسرائیل کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ 'فلسطین اور مسجد اقصی اور اس کے اردگرد کی ساری زمین کو آزاد کروانا امت مسلمہ پر ایک مقدس فرض ہے اور ایک ایسا قرض ہے جس کو ادا کرنا ان پر لازم ہے اور اگر آج حالات ایسے ہیں کہ ان ممالک کے لئے یہ کرنا مشکل ہے یا لڑنا ناممکن ہے تو پھر بھی کسی بھی حالت میں اس پر سودے بازی نہیں کی جا سکتی' اس  فتوے کے بعد یوسف بن علوی جنہیں سلطان قابوس کے بعد نیا آنے والا سلطان خیال کیا جا رہا تھا کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے کیونکہ انہوں نے اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو ویلکم کیا تھا تو اس لیے عمان میں بھی شدید دباؤ ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے
اب امریکا دیگر مسلم ممالک پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں اور ان ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب سرِ فہرست ہیں سعودی عرب اور چند دیگر مسلم ممالک یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے کیونکہ پاکستان ان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ میں واحد رکاوٹ ہے اور اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو پھر اس مسئلہ پر ان پر سوال اٹھانے والا کوئی نہیں ہو گا اور یکے بعد دیگرے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اور ویسے بھی محمد بن سلمان کے ٹرمپ اور اس کے داماد کے ساتھ کافی گہرے تعلقات ہیں جبکہ ترکی تو پہلے سے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے
وزیراعظم عمران خان نے بڑا واضح بیان دیا ہے کہ میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کروں گا اور مزید یہ بھی کہا ہے کہ اگر میں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گا تو اس بیان کے بعد اسرائیل کو پاکستان کے تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں
جبکہ اسرائیل کا اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہے اور بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے کیونکہ بھارت چاہتا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے خوف سے انڈیا کو طاقتور اور جدید ترین ہتھیار دیتا رہے اور بھارت کی اسرائیل کے ساتھ دوستی بھی محض اس لیے ہے کہ دونوں سمجھتے ہیں پاکستان ہمارا مشترکہ دشمن ہے پس اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ پاکستان ہے کیوں کہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے اور اس ملک میں جہاد کا کنسپٹ بھی ہے جو اسے اور طاقتور بناتا ہے
اب امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے کیونکہ اسرائیل اتنا طاقتور تو ہے کہ وہ اکیلا سعودی عرب، اردن، لیبیا، یا پھر شام وغیرہ کے ساتھ لڑ سکتا ہے لیکن مسلم اتحاد کے ساتھ لڑنے کی اس میں سکت نہیں اس لیے وہ مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات بنا رہا ہے تاکہ لڑنا پڑے تو کسی ایک ملک کے ساتھ لڑنا پڑے اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ٹرمپ اپنی اس اسرائیل بچاؤ مہم میں کس حد کامیاب ہوتا ہے کیونکہ امریکہ میں صدارتی الیکشن بھی قریب تر ہیں اور ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کے لیے تو کچھ خاص کیا نہیں تو اب وہ چاہتا ہے کہ میں اسرائیل کو بچا کر اس کی سپورٹ سے اپنی کرسی کو بچاؤں جو کہ بظاہر تو نا ممکن لگ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :