” شرط الفت عجیب ہے“

ہفتہ 10 اپریل 2021

Ahmed Khan

احمد خان

گزرے چند ما ہ سے آسماں سے باتیں کرتی گرانی کے ہاتھوں ہر طبقہ عاجز آچکا اچھے دنوں کی آس میں چپ سادھے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا صبر گویا جواب دے چکا راج مزدواپنی سانسوں کو بحال رکھنے کے لیے ہاتھ پا ؤں بھی چلا رہے ہیں اور زباں سے فر یا د بھی کر تے پا ئے جاتے ہیں سرکار کے زیر سایہ کا م کا ج کر نے والے بھی حکومت کی الم غلم پالیسیوں کی وجہ سے نیم جاں ہیں لگے چند ماہ سے سرکار سے جڑے ملا زمین اپنی ماہانہ اجرت میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بڑھوتری کے لیے با قاعدہ سڑ کوں پر ہیں احتجاج کا دائرہ اسلام آباد سے ہو تا ہوا اب صوبوں کے صدر شہر و ں تک جا پہنچا اس سارے معاملے میں چو نکہ سندھ نے کسی حد تک اپنے ملازمین کی اشک شوئی کا ساماں سالا نہ میزانیہ میں کر دیا تھا سو کراچی کی دیواروں پر سکوں بال کھو لے سو رہا ہے لا ہور پشاور اور کو ئٹہ اس وقت صوبائی حکومتوں کے ملا زمین کے نر غے میں ہیں گرانی کے ستائے ملازمین کا پارہ ساتویں آسماں چھو رہا ہے زمینی حقائق کے مطابق وفاق اور صوبائی حکومتوں سے تنگ ملازمین اور بوڑھے پنشنر اب مارو یا مر جاؤ کی حد کو پہنچ چکے ، شنید ہے کہ پنجاب کے ہزاروں میں تنخواہیں لینے والے لا ہور پر چڑ ھا ئی کے لیے پھر سے پر تولے بیٹھے ہیں ، کو ئٹہ ان سطور تک ملازمین کے گھیر ے میں ہے لگے کئی دنوں سے بلو چستان کے ملا زمین کو ئٹہ میں تنخواہوں میں چند فیصد بڑ ھوتری کے لیے دھر نا دیے بیٹھے ہیں جام صاحب مگر اپنے سایہ عاطفت میں کام کر نے والے مصیبت کے ماروں کے معاملے سے خود کو بے نیاز اپنی وزارت اعلی کا لطف لے رہے ہیں ،ہو نا تو یہ چاہیے کہ صوبے کا ” ما ئی باپ “ ہو نے کے ناطے جام صاحب اپنے ماتحتوں کے زخموں پر مر ہم رکھنے کا ساماں کرتے جام صاحب مگر اپنے جا ئز حقوق کے لیے دھر نا دینے والوں کو سیاسی جماعت کے دھرنے سے تشبیح دے رہے ہیں ،مو صوف جام بھی ہیں اور پھر ” صاحب کمال “ بھی لیکن سیدھے سادے معاملے میں ”کمال “ دکھا رہے ہیں، حضور ان ملا زمین کے پاس جا ئیں ان سے مذاکرات کر یں ان کے جائز مطالبات پورے کر یں اور ان کی دعائیں لیں ، ایسا ہی قضیہ پنجاب میں برپا ہے عثمان بزدار جناب خان کے کہے بنا کو ئی امر سر انجام نہیں دیتے ، پنجاب کے ملا زمین کے مطالبات کے قصے میں مگر بزدار حکومت بھی مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے ، کے پی کے میں بھی کم وپیش پنجاب اور بلو چستان والا قصہ چل سوچل ہے ، ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ مرکز کے واضح احکامات کے باوجود صوبے کیوں مرکز کے احکامات سے سر تابی کر رہے ہیں ، اس سارے قضیے پر عمیق نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کہ مرکز نے دراصل اپنے سر سے ” بلا “ ٹالنے کی تد بیر اپنا ئی قصہ کچھ یوں ہے کہ مر کز نے اسلام آباد کے احتجاج سے جاں خلاصی کے لیے صوبوں کے نام چند سطر ی سندیسہ جاری کر کے احتجاج کر نے والوں کو اسلام آباد سے چلتا کیا دوسری جانب مرکز نے اندر خانے صوبوں کوملا زمین کی تنخواہیں نہ بڑھا نے کے احکامات جاری کر دئیے باخبر حلقوں کے مطابق تینوں صوبوں میں مرکز کی تابع فرمان حکومتیں مرکز کے احکامات کو کیسے ردی کی ٹوکری میں ڈال سکتی تھیں دراصل اندر خانے مرکز کی ” ہلا شیری “ کی وجہ سے تینوں صوبے اکڑ پن کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں مرکز کی ” کرم فرما ئی “ کی وجہ سے بزدار جام اور محمود خان حکومتیں کسی کو خاطر میں نہیں لا رہیں ، بہا نہ یہ گڑھا جا رہا ہے کہ سرکار کا خزانہ اضافے کا بوجھ برداشت کر نے سے قاصر ہے چلیے اسی نکتہ آفریں کے پس منظر میں درد سر بننے والے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں ایک چوکیدار ایک نائب قاصد ایک کلرک ایک استاد کی تنخواہ میں اضافہ اگر سرکار کا خزانہ برداشت نہیں کر سکتا سوال پھر یہ ہے کہ یہی خزانہ صدر اور وزیر اعظم کے عالی شان جہازوں کی تزہین ومرمت کے لیے 35کروڑ کا بوجھ کیسے اٹھا رہا ہے سرکار کا یہی خزانہ گو رنر کے پی کے کے لیے کروڑوں کی گاڑیاں خرید نے کے لیے کہاں سے پیسہ دے رہا ہے ، طرفہ تما شا ملاحظہ کیجیے جب غرباء اورلا چاروں کی باری آتی ہے تو خزانہ خالی ہو تا ہے اور طبقہ امراء کی آسائشوں اور عشرتوں کے لیے خزانہ لبالب بھرا ہوتا ہے ،حضور کہاں گئے عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر نے کے وعدے کہاں گئے دو نہیں ایک پاکستان کے دعوے ، عام آدمی کے ساتھ وہی سابق حکمرانوں والا سلوک چل سو چل ہے کل بھی روکھی سوکھی غریب کا مقدر تھی آج بھی غریب کے نصیب میں فقط دھکے ہیں ، کل بھی نجی اور سرکاری ملا زمین ” کالے حالات “ کے ہاتھوں دل گر فتہ تھے آج بھی ساہوکار اور سرکار کے ملا زمین سرکار کے ہاتھوں رسوا ہو رہے ہیں ، سچ تو ہے کہ صرف ” علی بابا “ بدلا ہے نظام بھی وہی نظام کے ستم بھی وہی چہرے بھی وہی حالات بھی وہی ان چہر وں کے اعمال بھی وہی ، کل کلاں تک سابق حکمراں اقتدار کے نشے میں مست عام انسانوں کو کیڑے مکو ڑے سمجھ کر ان کا تمسخر اڑا یا کرتے تھے آج انصاف کے نام لیوا عام آدمی کی مجبوریوں کو پاؤں تلے روند رہے ہیں ، چلیے سابق ہو نے والے تو ” کھٹور دل “ تھے عام آدمی کے بھلے کے نعرے لگا نے والے تحریک انصاف کے احباب اقتدار میں آکر سنگ دل کیوں اور کیسے ہو گئے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :