’’حکمرانوں کے اعتراف اور ڈوبتی تبدیلی‘‘‎

پیر 10 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ’’ غریب کا احساس نہیں کرسکتے تو ہ میں حکومت میں رہنے کا حق نہیں ‘‘،لیکن ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ’’ عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی میں کمی کیلئے ہر حد تک جائیں گے‘‘،لیکن یہ انہوں نے قوم کو نہیں بتایا کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے لگائی گئی حدود اور قیود سے کس طرح تجاوز کریں گے ؟ٴ۔

اس لیئے نوٹ رکھیئے کہ ان کا یہ اعلان کہ وہ ’’ بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کی خاطر مختلف اقدامات کا اعلان کریں گے‘‘ عملدرآمد کے بغیرمحض ایک اعلان ثابت ہو گا ۔ بلکہ اندیشہ تو اس بات کا ہے کہ کہیں ان کے اعلان کے بعد بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کے بجائے اضافہ نہ ہو جائے ۔
 پہلے تو کوئی انہیں بتائے کہ پاکستان کے عوام نے اسے حکومت میں رہنے کا حق تو کجا اسے حکومت میں آنے کا ہی حق نہیں دیا تھا ۔

(جاری ہے)

الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں پری پول رگنگ ، ووٹ چوری کر کے اور آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھا کر سہولت کاروں نے جس طرح طریقے سے اسے وزیرِا عظم ہاوس میں پہنچایا ہے اس حقیقت سے دنیا واقف ہے،اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستان کے وزیرِا عظم کو ایک کٹھ پتلی وزیرِا عظم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
ترقی کرتے اور خوشحال ہوتے ملک ِ پاکستان کے عوام کو دو وقت کی روٹی کا محتاج کرنے کے بعد نہ جانے کس حقیقت پسند انسان نے کپتان کو اب یہ حقیقت بتائی ہے کہ اگر غریب کا احساس نہیں کرسکتے تو حکومت میں رہنے کا حق بھی نہیں ۔

پاکستان کے غریبوں کی غربت کا اعتراف خود حکومتی عہدیداروں اور مختلف سرکاری ادارے اعدادوشمار کے ساتھ کئی ماہ سے ہی نہیں کر رہے بلکہ معاشیات سے متعلق بین القوامی ادارے بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت،مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے میں اپنی رپورٹس میں اس افسوسناک صورتِ حال کا اظہار بھی مسلسل کر رہے ہیں ۔ اب اگر اٹھارہ ماہ گزرنے کے بعد عمران خان کو اس امر یعنی ملک میں غریب کا احساس ہو بھی گیا ہے تو بھی اب ان کے بس کی بات نہیں کہ فوری طور پر ملک کے غریبوں کو کسی قسم کا کوئی ریلیف دیا جائے ۔


 ایک منظم منصوبے کے تحت ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کی غرض سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ریکارڈ قرضے لینے کے بعد ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ان کی حکومت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق اشیاء ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرے ۔ قرضہ دینے والے مذکورہ اداروں کی اپنے قرضوں کی سود سمیت وصولی کی بنیاد بھی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے ۔

لہذا یہ ادارے کیونکر چاہیں گے کہ مہنگائی کم ہونے کے باعث ان کے قرضوں کے اقساط میں رکاوٹ پیدا ہو ۔ جتنی مہنگائی ہو گی،اتنا ہی زیادہ جی ایس ٹی وصول ہو گا جو سیدھا قرضوں کی واپسی میں مدد گار ہو گا ۔ گویا حالات اب اس نہج پر پہنچا دیئے گئے ہیں ملک کی تمام تر جمع پونجی اب براہِ راست قرضوں کی قسطوں کی صورت میں ایک جانب باہر جا رہی ہے اور باقی ماندہ رقم غیر ترقیاتی اور حکومتی اخراجات کی مد میں خرچ ہو رہی ہے ۔


 دوسری جانب صورتِ حال کچھ یوں بنی ہے کہ اب خان صاحب غریبوں کا احساس کرنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ حکومت کے پاس ترقیاتی فنڈز اور عوام کو سبسڈی کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں ہے،اگر حکومت کسی حد تک عوام کو وقتی طور پر لالی پاپ دینے کے چکر میں اشیائے خودر د نوش کی قیمتیں کم کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو یاد رکھیئے گا دوسری جانب بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں مذید اضافہ کر دیا جائے گا ۔

سابق وزیرِ خزانہ اسحق ڈار نے اسی بنیاد پر کہا ہے کہ ملک کی معیشت کو دوبارہ پڑری پر لانے میں دس سال کا عرصہ درکار ہو گا،یعنی جو بھاری قرضے لیئے گئے ہیں انہیں بھی اتارنا ہو گا،حکومتی و دفاعی نظام کے اخراجات بھی پورے کرنے ہوں گے اورکسی حد تک عوام کو بھی ریلیف دینا ہو گا ۔ ایک عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کرنٹ یا بجٹ خسارہ کتنا کم ہوا ہے یا برآمداد اوردرآمدات میں کتنا اضافہ یا کمی واقع ہوئی ہے، آئی ایف کے قرضے کی قسط کتنی اور کب ادا کرنی ہے ۔

وغیرہ وغیرہ ۔
حکومت کے معیشت دانوں کے محض الفاظ کا گورکھ دہندہ اور غلط اعداد و شمار اس وقت تک کار آمد نہیں ہو سکتے جب تک ایک عام آدمی کو روز مرہ کی اشیائے ضرویہ مناسب پیسوں میں نہ مل سکیں اور اسکے بجلی اور گیس کے بلوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے ۔ صرف اس پر نقطے پر ناچنا کہ زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر سترہ ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکے ہیں تو پھر سوال وہی ہے کہ عوام پھر مسلسل مہنگائی کی چکی میں کیوں پستی چلی جا رہی ہے؟، اور غربت میں اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے؟ لیکن اس سوال کے جواب میں نواز شریف اور مریم نواز پر لعن طعن شروع کر دی جاتی ہے ۔


زرِ مبادلہ کے ،مذکورہ ذخائر کا اگر کسی کو فائدہ ہو بھی رہا ہے تو انہی عالمی مالیاتی اداروں کو ہو رہا ہے جو ہمیں بھاری سود پر قرضے دے رہے ہیں ۔ جبکہ معاشی ماہرین پہلے ہی حکومت کو خبردار کر چکے ہیں کہ کہ اگر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ملک سیاسی و سماجی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے گویا تباہ شدہ معیشت اپنے ساتھ دیگر اور مسائل بھی لیئے ہمارے سروں پر کھڑی ہے ۔

ظاہر ہے جب بے روزگاری میں اضافہ ہوگا، سرمایہ کاری میں کمی آئے گی، مہنگائی بڑھے گی اور بھوک میں اضا فہ ہو گا تو کئی سماجی مسائل خود بخود جنم لیں گے ۔ جب صرف ایک سال میں پینتالیس لاکھ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہوں ،چالیس لاکھ بے روزگار ہو چکے ہوں ،جی ڈی پی میں افزائش کی شرح دو اشاریہ دو فیصد سے کم رہنے کی توقع ہو اور مہنگائی کی سرح بیس فیصد تک پہنچ چکی ہو تو پھر کون حکومتی ترجمانوں یا وزیرِ اعظم کی عوام کو مہنگائی کم ہونے کی تفل تسلیوں پر یقین کرے گا ۔


 ملک کو بدترین معاشی بحران میں دھکیلنے میں ، جس کی نشان دہی اب عالمی ادارے بھی کر رہے ہیں کے بعد بھی کون بے وقوف ہے جو عمران خان کے ایسے دعووں پر یقین کرے گا؟ کیونکہ عالمی بینک نے بھی خدشہ ظاہر کر دیا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہو سکتی ہے اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح خطے کے دیگر ممالک میں افغانستان اور سری لنکا کے بعد سب سے کم رہنے کی توقع ہے بلکہ میں بے روز گاری کی شرح بھی سات اشاریہ پانچ تک جانے کی توقع ہے ۔


 یہ وہ حقائق ہیں جن کے مطابق عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی میں کمی کیلئے ہر حد تک جانے کے عمران خان کے دعوے ممکن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ۔ وزیرِا عظم عمران خان بغضِ نواز میں نواز شریف حکومت کے دور کی پانچ اعشاریہ نو فیصد جی ڈی پی کو دو اعشاریہ تین فیصد پر لاکر اب کہ رہے ہیں کہ غریب کا احساس نہیں کرسکتے تو ہمیں حکومت میں رہنے کا حق نہیں ۔


اور تو اور آج ان کے دستِ راست اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک بار پھر ملک میں مہنگائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، اب کام کرنے کا وقت ہے‘‘گویا موصوف وزیر صاحب یہ’’ اعتراف‘‘ بھی کر بیٹھے ہیں کہ اٹھارہ ماہ میں وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کر سکے اور اب عوام کی چیخیں نکلنے کی آوازیں ان تک پہنچ رہی ہیں تو انہیں کام کرنے کا وقت بھی یاد آ گیا ہے ۔


مذکورہ صورتِ حال سے عمران خان اور ان کے وزیروں کی اپنے کام میں سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ آخر میں عرض ہے، جیسا کہ خاکسار اپنے حالیہ کالموں میں تواتر سے لکھتا آیا ہے کہ دو ہزار بیس پاکستان میں الیکشن کا سال ہے اور مارچ میں عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گا ۔
 آج معروف کالم نگار اور سینئر صحافی جناب سہیل وڑاءچ نے اپنے کالم میں میرے تجزیئے پر اپنی مہر ثبت کرتے ہوئے اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ مارچ کے بعد عمران خان کی حکومت کی چھٹی ہو جائے گی اور اس حوالے سے تمام منصوبہ بندی کر لی گئی ہے‘‘ ۔ دعا ہے کہ اس ملک کے غریب عوام کو پاکستان کی موجودہ’’تبدیلی‘‘ سے جلد چھٹکارا نصیب ہو ۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :