عمران خان کے ساتھ کون کھڑا ہے؟

اتوار 16 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

دو روز قبل وزیرِا عظم عمران خان نے قوم کو پھر یہ باور کروایا کہ”فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے“ آج ان کے دستِ راست وفاقی وزیر شیخ رشید نے بھی ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ”عمران خان کہیں نہیں جا رہے سیکورٹی ادارے ان کے ساتھ ہیں“۔ مذکورہ دونوں راہنماوں کے بیانات کسی کے لیئے یہ ہی حیران کن ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی نئی بات پنہاں ہے،حقیقتِ حال یہ ہے کہ کون نہیں جانتا کہ ان کی حکومت کو کیسے اورکس طرح لایا گیا،کس طرح اتحادی ملا کر انہیں اسمبلی میں سادہ اکثریت اکثریت دلوائی گئی اور پھر کس طرح تا حال انہیں اپنے لانے والوں کی حمایت اور تائید حاصل ہے۔

عمران خان کو فوج یا سیکورٹی اداروں کی حمایت اور مدد حاصل نہ ہوتی تو وہ آج بھی کنٹینر پر بانسری بجا رہے ہوتے۔

(جاری ہے)

فوج ساتھ نہ کھڑی نہ ہوتی تو نیازی صاحب اور ان کے وزیروں میں تو ایک دن کے لیئے بھی حکومت کو چلانے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں تھی۔ اگر آج عمران خان ایوانِ وزیرِ اعظم میں بیٹھے ہیں تو بقول شیخ رشید سیکورٹی اداروں کی مدد کے طفیل ہی بیٹھے ہیں، بلکل درست بات ہے۔

پاکستان اور ملک سے باہر انہیں سلیکڈڈ یا کٹھ پتلی وزیرِ اعظم اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے۔
شیخ رشید اکثر اپنے انٹر ویوز میں بہت فخریہ انداز میں کہتے ہیں کے جنرل ایوب کے دورِ آمریت میں انہوں نے بارہ سال کی عمر میں جیل کاٹی اسی طرح عمران خان بھی بتاتے ہیں کہ پرویز مشرف نے انہیں جیل بھیجا تھا،لیکن حیرانگی ہوتی ہے جب بدقسمتی سے خود کو جمہوریت پسند کہنے والوں کے منہ سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ''فوج اور سکیورٹی ادارے ہمارے ساتھ ہیں''،جبکہ انہیں یہ کہنا چاہیئے کہ ملک کے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے ووٹوں کی بدولت آج وہ حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں نا کہ انہیں اپنے ووٹروں اور سپوٹروں کو بار بار یہ تاثر دینے کی ضرورت ہے کہ اگر سیاست کرنی ہے تو ووٹ کی ضرورت نہیں بلکہ بوٹ کی ضرورت ہوتی ہے،اور وزیرِا عظم بننے کے لیئے جمہوری طریقے اپنانے کے بجائے غیر جمہوری طاقتوں کے ساتھ ساز باز کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

عمران خان اور شیخ رشید کو اب کھل کر اپنے ووٹروں اور سپوٹروں کو کہ دینا چاہیئے کہ انہیں اب آئندہ ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کیونکہ اسی باعث وزراتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان عمران خان صرف اسی امر کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں کہ بس ان کا ایک ماتحت اداراہ ان کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ خود کو جمہوری کہنے والا ملک کا وزیرِاعظم یہ کہتا ہے کہ”فوج کو پتہ ہے کہ میں محنت کررہا ہوں“ گویا اپنی”کارکردگی“ ملک کے عوام یا اپنے ووٹروں اور سپوٹروں کے سامنے رکھنے کے بجائے اپنے ہی ماتحت ادارے کے سامنے رکھ کر یا اس کے سامنے اپنی جوابدہی پیش کر کے اپنے ووٹروں کی اس سے بڑی توہین جو وہ کر رہے ہیں اور کیا ہو گی؟ دوسری جانب اس صورت ِ حال کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کے سیکورٹی ادارے اس بابت تا حال خاموش ہیں،ابھی تک عسکری ترجمان کی جانب سے واضع نہیں کیا گیا کہ فوج عمران خان کے ساتھ ہے،حکومت کے ساتھ ہے یا پھر ملک کے ساتھ ہے،کیونکہ ملک کے طول و عرض میں اب یہ عام تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ فوج ہی عمران خان کو لائی ہے اور ابھی تک اسی کے ساتھ ہے اور اس کی حکومت کے ہر عمل میں خواہ وہ غلط ہو یا صحیح جیسے مثلاً بے روزگاری،مہنگائی یا غربت۔

۔۔ اس میں برابر کی شریک ہے۔ جبکہ صحیح یا مثبت عمل تو فی الحال کوئی نظر نہیں آ رہا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کسی پان فروش، مکئی کے دانے بیچنے والے یا پھیری لگانے والے سے لے کر اسکول یا یونیورسٹی کے طالبِ علم، عام دکاندار یا کسی بھی سرکاری ملازم سے یہ پوچھ کے دیکھ لیں کہ ملک کون چلا رہا ہے تو جواب آپکو جو ملے گا آپ بھی سوچ میں پڑھ جائیں گے۔

 مذکورہ صورتِ حال جہاں ملک اور قوم کے لیئے تکلیف دہ ہے وہاں بیرونی دنیا میں بھی ملک کا مجموعی تاثر منفی جا رہا ہے،جبکہ حکومت کے ایسے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے باعث ملکی سلامتی کی ضامن فوج کی اپنی ساکھ علیحدہ طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ گویا ملک کے ایک اہم ادارے کو جان بوجھ کر متنازعہ بنانے کے مذموم عمل میں مجرمانہ خاموشی جو بذاتِ خود تشوشناک ہے نا قابلِ فہم ہے۔

آئے روز اس طرح مذکورہ نوعیت کے بیانات کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے فوری طور پر ردِ عمل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیرِاعظم اور ان کے وزاء کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے واضع کیا جائے کہ ملک کی فوج غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہے اور اس کا تعلق سیاست بازی سے نہیں بلکہ صرف ملک کے دفاع سے ہے۔ فوج بحثیت ادارہ کسی ایک شخصیت کا نام یا کسی فردِ واحد کی جاگیر نہیں کہ جس کے ذاتی مفادات اور پسند کی خاطر ملک اور قوم کے ٹیکسوں سے چلنے والے واحد منظم ادارے کو اس فرد کے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیئے استعمال کیا جائے۔

حقیقتِ حال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جس قدر فوج کو متنازع بنانے کی کوششیں اس حکومت کے دور میں ہوئیں ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔جناب ِ عمران خان کا مذکورہ بیان تصویر کا صرف ایک رخ ہے،آیئے تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔ دو ہزار چار میں عمران خان کا بیانیہ کچھ اس طرح تھا کہ”اسٹبلشمنٹ چاہے تو کتا بھی وزیر اعظم بن سکتا ہے“ موصوف جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے لاتعداد ایسے انٹرویوز دیئے جن میں اسی فوج کے خلاف ہرزاہ سرائی کی گئی جس کے پیچھے آج وہ پناہ لینے کے دعوے اور اسکی تعریفیں کر رہے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کو کئی انٹرویوز میں موصوف نے کھل کر اسی فوج پر کڑی تنقید کی،یہ تمام انٹرویوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں،کئی انٹرویوز میں تو خان صاحب اس حد تک بھی چلے گئے جیسے ان کا تعلق پاکستان نہیں بلکہ کسی دشمن ملک ہو۔ 
وہ فرماتے رہے ہیں کہ فوج اپنے منظورِ نظر سیاستدانوں کو اقتدار میں لا کر مفادات حاصل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر فرمودات اور ارشادات تو مجھ جیسا ادنی اور ناچیز بھی یہاں قلمبند کرنے سے قاصر ہے۔

لیکن گزرتے وقت یا اقتدار کی لالچ میں عمران خان یہ بھول بیٹھے کہ وہ خود ٹریپ ہو چکے ہیں اور اب جب انہیں اس بات کا پوری طرح احساس ہو گیا ہے کہ انہیں ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کر بعد پھینکنے کا وقت قریب آ رہا ہے تو وہ ایسے بیانات دے کر کہ”فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے“ یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گویا ان کی حکومتی ناکامیوں میں فوج بھی برابر کی شریک ہے یا بالفاظِ دیگر وہ فوج کو مبینہ طور پر بلیک میل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تا کہ حکومتی ناکامیوں اور رسوائیوں کے حوالے سے از خود بری از ذمہ ہو سکیں۔

اس صورتِ حال کا محبِ وطن حلقوں کو نوٹس لینے کی اشد ضرورت ہے کہ پانی کہیں سر کے اوپر سے نہ گزر جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر فوج بھی ساتھ کھڑی ہے،نیب بھی ساتھ ہے اور خفیہ ادارے بھی گویا سارے کھلاڑی ماشا اللہ ایک صفحے پر جمع ہیں تو پھر یہ آئے روز کا رونا اور یہ باور کروانا کہ”فوج ہمارے ساتھ ہے“،آخر اس واویلے اور راگنی کا مقصد کیا ہے۔

آج فرمایا ہے کہ”مجھے اتفاق ہے کہ سارا قصور میڈیا کا ہے جو مائیک غریب آدمی کے پاس لے جاتا ہے۔ اگر میڈیا بکا ہوا نہ ہوتا تو مائیک غریب سے دور رکھتا اور سب اچھا دکھاتا۔ یہ سب ایک پلان کے تحت ہو رہا ہے“ گویا میڈیا اب اپنے کیمرے اور مائیک صرف امیروں کے پاس لے کر جائے جو سب اچھا کہیں اور عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائیں جنہیں عمران خان اپنے ٹی وی پر دیکھ کر خوش ہوتے رہیں۔

حالانکہ یہ وہی مائیک اور کیمرے ہیں جنہیں بائیس سال تک استعمال کرتے ہوئے آج وہ ایوانِ وزیرِ اعظم میں تقریرں جھاڑ رہے ہیں،چونکہ اب میڈیا بھی ان کے خلاف ہو گیا ہے تو انہیں یہ بھی چاہیئے کہ اس میڈیا کے خلاف بھی آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنے کا اعلان کریں اور اسے پھانسی دیں۔
ایک جانب وزیراعظم عمران خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ”چینی اور آٹے کا بحران ہماری کوتاہی سے پیدا ہوا“ لیکن مذکورہ بحران پیدا کرنے والے اپنے دوستوں اور پی ٹی آئی کے انوسٹرز کے خلاف کاروائی کرنے سے گھبراتے ہیں اور قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے چکر میں شریف خاندان کے کاروباری دفاتر پر نیب کے چھاپے ڈلواتے ہیں تو دوسری جانب قوم کو گھبرانے سے منع کر کے اب خود ان کی اپنی گھبراہٹ کا عالم اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ کہتے ہیں ”فوج میرے کے ساتھ کھڑی ہے“۔

 
اسی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر اپنی سیاست کا جنازہ نکالنے کے بعد ایک ایک کر کے تمام دروازے بند کر کے عمران خان جس روش پر چل نکلے ہیں وہ یاد رکھیں، کل جب وہ اپوزیشن میں ہوں گے تو ان کے ساتھ ہونے والے کسی بھی سلوک کے نتیجے میں پورے ملک سے ان کے حق میں ایک آواز بھی نہیں اٹھے گی،انہوں نے جس بے رحمی سے اپنے ہاتھوں اپنی سیاست کا گلہ کاٹا ہے اور اپنی سیاست سے اخلاقیات، روداری اور برداشت کا خاتمہ کیا ہے اسے دیکھ کر نواز شریف کا وہ کہا یاد آتا ہے کہ”عمران خان کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں یہ بار بار اپنے پاوں پر کلہاڑی مار کر اپنی سیاست ختم کرے گا اس لیئے اسے کھل کر کھلنے دو“
آخر میں خان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ فوج اسی وقت تک ساتھ کھڑی رہتی ہے جب گھوڑا بھی اپنی کارکردگی دکھائے جبکہ خان صاحب میدانِ سیاست اور کاروبارِ حکومت چلانے میں اب تک ناکام ترین گھوڑے ثابت ہوئے ہیں ان کا مذکورہ بیانیہ کہ ''فوج ان کے ساتھ ہے''، خود ان کی شکست کا واضع اعتراف کر رہا ہے اور حقیقتِ حال یہ ہے آج عمران خان کے ساتھ کوئی طاقتور ادارہ کھڑا نظر نہیں آ رہا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :