ستّر سالہ گند اور خالص دودھ

پیر 24 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

وزیر اعظم عمران خان کے دس سال سے پرانے ایک فین،بغیر فل اسٹاپ اور کامہ لگائے، نان اسٹاپ گفتگو میں حکومتِ عمرانیہ کے کارنامے گنوا رہے تھے،ان کے لیکچر کا حاصل خلاصہ یہ تھا کہ ستّر سالوں کا گند محض اٹھارہ ماہ میں صاف کرنے کی توقع رکھنے والے احمق ہیں۔ عمران خان کو بھی پانچ سال پورے کرنے کا موقع دینا چاہیئے۔ گفتگو کے اختتام پر انہوں نے موجود حاضرین کو بتایا کہ”ایک دودھ والے کو خدا کا خوف آیا تو اس نے خالص دودھ بیچنا شروع کر دیا۔

تیسرے دن سارا محلہ اکھٹا ہو گیا اور دودھ والے سے شکایت کی کہ اس نے دودھ میں کون سا کیمیکل ملانا شروع کر دیا ہے،ہمیں تو الٹیاں اور پیچس شروع ہو گئے ہیں۔ عمران خان کی حکومت وہی خالص دودھ ہے جس کی ہمیں عادت نہیں“
جہاں تک”ستّر سالوں کے گند“ کی بات ہے، ان میں سے زرداری اور نواز حکومت کے پانچ پانچ سال نکال کر بقیہ”ساٹھ سالوں کا گند“ جنہوں نے بکھیر رکھا ہے وہ تو معصوم بن کر ایک جانب کھڑے ہیں اور اس بے بنیاد بیانیئے کو عام کر کے عوام اور سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں،جبکہ جنرل مشرف، جنرل ضیاء، جنرل ایوب خان اور دیگر طالع آزما جنہوں نے بلواسطہ یا بلا واسطہ ملک پر سالوں حکمرانی کی،ان کے ادوارِ حکومت کی تلخ حقیقتوں کے ذکر کو کمال صفائی سے ”ستّر سالہ گند“ کی کتاب کے صفحات سے دھندلا کرنے یا مٹانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یہاں یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ملک کی تاریخ میں صرف ایسی دو جمہوری حکومتیں ہی ہیں جنہوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ ان میں ایک نواز شریف اپنی تیسری حکومت میں از خود وزیرِا عظم کی پانچ سال مدّت پوری نہیں کر سکے اور دوسری زرداری حکومت میں بھی ایک عدالتی حکم پر سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اپنی مدّتِ وزارتِ عظمی پوری کیئے بغیر گھر چلے گئے۔

 
اس ضمن میں عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے سے پہلے یہ تلخ حقیقت جان لینا بھی اشد ضروری ہے کہ ملکِ خداداد میں ”گند“ ڈالنے کی شروعات قائدِ اعظم کی ایمبولنس کو خراب کرنے اور محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دینے کے زمانے سے شروع ہوئی تھی۔ 
اب اصل موضوع کی جانب آتے ہیں،یہ فرمائش کہ موجودہ حکومتِ عمرانیہ جس کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ یہ از خود غیر جمہوری قوتوں کی پیداوار ہے،اسے اپنے پانچ سال پورے کا موقع ملنا چاہیئے، بلکل بجا ہے۔

اس بات کے باوجود کہ زمانہ گواہ ہے کہ اس حکومت کا وجود کیسے عمل میں آیا۔ 
اس حکومت کے پہلے قومی اسمبلی اجلاس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے ٹھوس تحفظات کے با وجود اس کا خیر مقدم کیا اور سب نے عمران خان کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا،جو ریکارڈ پر موجود ہے لیکن شائد اپوزیشن کی اسی نرمی اور رواداری کا نا جائز فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں بعد ہی اپوزیشن راہنماوں کے خلاف بدترین انتقامی کاروائیاں شروع کر دی گئیں حالانکہ مولانا فضل الرحمان نے تو ابتداء میں ہی اپوزیشن کو اجتماعی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مشورہ دے دیا تھا،جسے درست سمجھتے ہوئے بھی ملک میں لولی لنگڑی ہی سہی لیکن جمہوری سسٹم کو چلانے پر اکتفا کیا گیا۔

نواز شریف اور آصف زرداری نے سیاسی انتقام کا نشانہ بننے کے باوجود بھی ملک میں سیاسی عمل کا جاری رکھنے کا عزم بار بار ظاہر کیا اور کسی بھی ایسے عمل کا حصہ بننے سے دور رہے جس سے جمہوری نظام کو زرا برابر بھی خطرہ ہو۔ 
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بار ہا عمران خان کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھایا لیکن خان صاحب کی جانب سے کسی مثبت ردِ عمل کے بجائے الٹا ان کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی کاروائیاں مذید سخت کر دی گئیں،ان کی جائیداد تک کو حکومتی قبضے میں لے لیا گیا (جبکہ ان کا بیٹا حمزہ شہباز آج بھی جیل میں ہے)۔

نیب جیل سے پروڈکشن آرڈر پر آئے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے بھی اپنے ہاتھ اٹھا کر حکومت کو دعا دی کہ یہ اپنے پانچ سال پورے کرے۔ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ دھرنے میں بھر پور طریقے سے ''عدم شرکت'' کر کے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس امر کو ثابت بھی کیا کہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہیئے اور ا س باعث اپنے مذکورہ مشترکہ سیاسی دوست کی کھلی ناراضگی اور عوامی تنقید بھی مول لی لیکن پھر وقت نے ثابت کیا کہ مذکورہ بڑی سیاسی جما عتوں کا فیصلہ درست تھا۔

تاہم اگر یہ جماعتیں چاہتیں تو حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتی تھیں۔ لہذا یہ کہنا کہ اپوزیشن عمران خان کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دینا چاہتی سراسر غلط ثابت ہوتا ہے۔
 نواز شریف اور آصف زرداری کا آج بھی یہی موقف ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اپنی مدّت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیئے اور انہیں کسی طور بھی سیاسی شہید نہیں بننے دینا چاہیئے۔

اس ضمن میں دونوں مذکورہ سیاسی راہنماوں نے اپنی اپنی پارٹی اراکین کو بھی کسی حد تک مایوس کیا ہے وگرنہ اگر چند آذاد ارکان کو ملا کر ''ن'' لیگ اور پیپلز پارٹی ہی مل کر اپنا مشترکہ پارلیمانی لیڈر مقرر کر دیں تو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان آج بھی با آسانی گھر جا سکتے ہیں،ان کی حکومت تو ویسے ہی صرف چار پانچ ارکان کی زائد اکثریت کے ساتھ کھڑی ہے۔

اور اسی سے ملتی جلتی صورتِ حال پنجاب اسمبلی میں بھی ہے۔
 دو دن قبل ایک مرتبہ پھر نوا ز شریف نے صاف طور پر واضع کیا ہے کہ انہیں کسی قومی حکومت وغیرہ کا شوق نہیں، وہ کسی ڈیل وغیرہ کے چکر میں نہیں آئیں گے،اور ہر ممکن عمران خان کی حکومت کی مدّت مکمل کروائیں گے تا کہ عمران خان کو لانے والے اور ان کے پی ٹی آئی کے ووٹر اور سپورٹر اچھی طرح سے عمران خان کی ''اصلیت'' اور ''صلاحیت'' جان سکیں اور خود عمران خان بھی کل اس بات کا رونا نہ رو سکیں کہ انہیں حکومت کرنے کا پورا موقع نہیں دیا گیا۔

گویا ان کے نزدیک عمران کے لیئے یہی سزا کافی ہے کہ ان کی حکومت کو چلنے دیا جائے۔ اب اگر عمران خان اپنی پے در پے ناکامیاں اور نالائقیاں منظرِ عام پر آنے کے بعد خود اپنی حکومت کے خاتمے پر تلے ہوئے ہیں تو اس میں کسی اور کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ 
رہی بات خالص دودھ پی کر الٹیاں اور پیچس کرنے کی تو عرض ہے کہ”تبدیلی“ دیکھنے کے جن خواہشمندوں نے عمران خان کو خالص دودھ حاصل کرنے کے چکر میں اپنے ووٹ دیئے،لمبی امیدیں باندھیں اور جو صاحبان خان صاحب کو اقتدار میں لائے ہیں، پیچس اور الٹیوں کا تو وہ از خود خود اب بری طرح شکار ہیں۔

بے تحاشا مہنگائی، انتہاء کی بے روزگاری، مہنگی بجلی و گیس اور شدید کاروباری مندے کے باعث اس قدر لاغر ہو چکے ہیں کہ ایک جانب وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر حکومت کو بدعائیں دے رہے ہیں،تو دوسری جانب خود حکومتی اور اتحادی اراکین کھلے عام اپنی اس تکلیف کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ 
اگر حکومت کی جانب سے خالص دودھ کی شکل میں عوام کو سستی بجلی،گیس، سستی اشیائے خورد و نوش اور روزگار فراہم کیا جاتا تو عمران خان کو یقینا کڑی تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن اب اگر ان پر میڈیا اور عوامی حلقوں میں تنقید کی رہی ہے تو یہ امر فطری ہے ناکہ یہ بھی اپوزیشن کا کیا دھرا یا کوئی سازش ہے۔

اگر فیصل آباد کے تاجر حکومتی پالیسیوں کے باعث شدید کاروباری مندی کے باعث سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہیں یا جماعتِ اسلامی مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے جا رہی ہے تو کیا یہ بھی اپوزیشن کی کوئی سازش ہے؟
حقیقتِ حال یہ ہے کہ ملک میں جاری معاشی بدحالی کے باعث اپنے مختلف کاروبار ٹھپ، مندے کا شکار اور اپنی ہی لائی ہوئی حکومت کی بڑھتی ہوئی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے از خود پیچس اور الٹیوں مین مبتلا سہولت کار اب بار بار لندن میں مقیم نواز شریف سے مفاہمت کی دوائی مانگ رہے ہیں لیکن لگتا ہے میاں صاحب یہ چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ عمران خان کے شیدائیوں اور انہیں لانے والوں کو لگی الٹیاں اور پیچس جاری رہنا چاہیں تا کہ اس مرتبہ سب کا پیٹ مکمل طور پر صاف اور ہمیشہ کے لیئے اس بیماری کا خاتمہ ہو سکے۔

ستّر سالہ گند کی صفائی کے لیئے بھی ایسا کرنا بھی ضروری ہی نہیں اب ناگزیر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :