’’مائنس ون فارمولا اور حقائق‘‘‎

پیر 11 مئی 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

نواز شریف،مریم نواز اور شہباز شریف آج بھی قومی سیاست اور تبصرہ خانوں میں زیرِ بحث ہیں ۔ آج بھی کسی بھی ٹاک شو یا یا سیاسی تبصرے میں مذکوہ شخصیات کے ذکر نام لیئے اسے ادھورا سمجھا جاتا ہے ۔ مسلم لیگ’’ ن‘‘ کے اندر مختلف نظریئے وغیرہ پیدا کرنے کی کوششیں اور مائنس ون اور پلس ون کے چکر میں قومی اور سرکاری حساب دان،آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب خود اپنی مائنس، پلس کی آزمائش میں مبتلا اور اپنی فیس سیونگ کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں ۔


 خاکسار پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ،جمیعت علمائے اسلام(ف) عوامی نیشنل پارٹی ، پی ٹی آئی، یا ان جیسی دیگر سیاسی جماعتیں ہوں ، پاکستانی سیاست میں سے’’ شخصیات‘‘ کے عنصر کو مائنس یا باہر نہیں نکالا جا سکتا ۔

(جاری ہے)

کیس کواچھا لگے یا برا،لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں اندر شخصیات کی بالا دستی موجود ہے ۔

اب آپ اسے شخصیت پرستی یا شخصی غلامی جو بھی نام دیں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے لیکن کسی کو اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں البتہ اس ملک میں اگر جمہوری عمل کو مسلسل چلنے دیا جاتا،عوامی حکومتوں کا اٹھا کر باہر نہیں پھینکا جاتا اور بار بار مارشل لاء نہیں لگتے تو پھر یقینا دنیا کے دیگر جمہوری ممالک کی طرح ملکِ خداداد میں بھی موروثی سیاست کا خاتمہ کسی حد تک ختم ہو چکا ہوتا ۔

گویا ہم کہ سکتے ہیں کہ اس ملک سے موروثی سیاست کو ختم نہ کرنے کا سہرا بھی اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کو ہی جاتا ہے ۔
جن سیاسی دانش وروں کے نذدیک شاہد خاقان عباسی نے وزارتِ عظمی چلا کر دکھائی اور شہباز شریف نے پنجاب میں بہترین عملی کارکردگی کے زریعے اپنا لوہا منوایا لہذا انہیں اس بنیاد پر مسلم لیگ ن میں نواز شریف کو مائنس کر کے پلس کیا جا سکتا ہے تو عرض ہے کہ ان دونوں شخصیات نے نواز شریف کے نام پر ہی ووٹ لے کر اپنی کارکردگی دکھائی تھی ۔

یہ نواز شریف کا ہی سیاسی ویثرن تھا کہ،شاہد خاقان عباسی کو وزارتِ عظمیٰ اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزراتِ اعلی چلانے کی ذمہ داری تین مرتبہ شہباز شریف کو دی گئی ۔ نواز شریف ہی کے فیصلے سے ملی تھی ۔ اب تو عام ووٹر کی طرح ن لیگ کا ووٹر زیادہ با شعور ہو چکا ہے،آپ لاکھ جمع تفریق کر لیں ،مائیس پلس کر لیں ،زمینی حقائق نہیں بدلیں گے ۔

ایسا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ کروڑوں ووٹروں کے نمائندے کو جھوٹے مقدمات میں اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جائے اسے پھانسی ،جلا وطن یا مار دیا جائے اور پھر انہیں کروڑوں ووٹروں سے توقع کی جائے کہ وہ اب اپنی جماعت میں اسٹبلشمنٹ کی جانب سے لائے گئے کسی امیدوار کو اپنا لیڈر اور مہاتماء تصور کرنے لگیں ۔ ایسے خیالات رکھنے والنے سیاسی انجینئروں کو اپنی عقل کو ہاتھ نہیں بلکہ زور کا مکا مارنے کی اشد ضرورت ہے ۔


عوامی مسلم لیگ،آل پاکستان مسلم لیگ،کنونشنل لیگ،مسلم لیگ ق وغیرہ وغیرہ بنا کر ایسا تجربہ بار ہا کا جا چکا ہے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سیاسی جماعتیں جنہیں موروثی سیاست اور شخصیت پرستی کا نام دے کر طعنے دیئے گئے، بار بار نئی طاقت کے ساتھ ابھر کر منظرِ عام پر آتی رہیں ہیں ۔
سنہ 1970 میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب کو غدار قرار دے کر مائنس ون کرنے کی کوشش میں آدھا ملک، مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے، بھارت کے قبضے سے نوّے ہزار پاکستانی قیدی لانے والے بھٹو شہید کو مائنس ون کر کے ایم کیو ایم کی بنیاد ڈالی گئی،جس کے ثمرات،کئی برسوں تک بھگتے گئے،اکبر بگٹی کو شہید کر کے مائنس کیا گیا،نتیجہ کے طور پر آج تک بلوچستان میں اسٹبلشمنٹ کے خلاف نفرت کم نہیں کی جا سکی بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے ۔


 ریاضی یا الجبراء کے سیاسی انجینئروں کو اس بابت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اگر وہ نیت نیتی سے ملک میں موَوروثی سیاست کے خاتمے یا کسی کو مائنس کرنے کے خواہشمند ہیں تو ملک میں آذادانہ اور منصفانہ انتخابات اور جمہوری عمل کو مسلسل چلتے رہنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لیئے اقدامت اٹھائیں ،لیکن ایسا ممکن نہیں ۔
ایسا کرنے سے جہاں خود ان کی اپنی ستّر سالہ حاکمیت خطرے میں پڑے گی وہاں عالمی سامراجی مفادات کو بھی ٹھیس پہنچنے کے امکانات واضع ہو ں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :