عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کی بے بسی

جمعرات 6 اگست 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

اگر اس تاثر کو درست مان لیا جائے کہ موجودہ حکومت عالمی اسٹبلشمنٹ کی مرضی ومنشاء کے تحت وجود میں آئی ہے تو پھر یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کی ستّر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی اسٹبلشمنٹ کو کسی حد تک ناکامی یا سبکی کا سامنا ہے اور اس کی وجہ سامراج کی اپنی کوئی ناقص حکمتِ عملی نہیں بلکہ پاکستان کے پیدا شدہ دگرگوں معاشی حالات ہیں جس باعث مقامی اور عالمی اسٹبلشمنٹ بے بس دکھائی دے رہی ہے ۔

یہ بات تو اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ سابقہ حکومت اور نواز شریف چین کے نزدیک ہونے، امریکہ سے دور ہونے اور سی پیک شروع کرنے کے باعث ہی زیرِ عتاب آئے اور عالمی اسٹبلشمنٹ کے انتقام کا نشانہ بنے ۔
امریکہ کو خطہ میں اپنے مفادات اور بلخصوص افغانستان میں اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیئے پاکستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت درکار تھی، پاکستانی عوام میں پاپولر نواز حکومت اس کے معیار پر قطی طور پر پورا نہیں اتر رہی تھی ۔

(جاری ہے)

ملک میں دہشت گردی کا ہوتا خاتمہ ،معاشی طور پر مضبوط ہوتا ملک اور پاکستان کے ایران، افغانستان، روس اور بھارت سے بڑھتے خوشگوار مراسم کسی طور بھی عالمی اسٹبلشمنٹ بلخصوص عالمی مالیاتی اداروں اور تنظیموں کو منظور نہیں تھے ۔ قصہ مختصر کہ نواز حکومت کا خاتمہ ہوا اور عالمی سامراج کے ایجنڈوں کی تکمیل کے لیئے ان کی حمایت یافتہ حکومتِ عمرانیہ کا قیام عمل میں آ گیا، جس کا وزیرِ اعظم منصوبے کے تحت عمران خان کو بنایا گیا ۔

امریکہ یاترا میں بھی ٹرمپ صاحب نے عمران خان کی جہاں تعریفوں کے پل باندھے، انہیں تھپکی دی وہاں یہ اقرار بھی کیا کہ نواز حکومت کے ہوتے ہوئے امریکہ کے مفادات کو زک پہنچتی رہی ۔ امریکی صدر نے کھلے عام واضح کر دیا کہ حکومتِ عمرانیہ کے ہوتے ہوئے ان کے مفادات با احسن طریقے سے پورے ہوتے رہیں گے ۔
اب اسے عالمی اسٹبلشمنٹ اور ان کے گھوڑوں کا برا وقت ہی سمجھئے کہ عمران خان کے حلف اٹھاتے ہی ملک مالی بحران کی لپیٹ میں آ گیا ۔

حکمرانوں سے ایسے ایسے شگوفے اور بے وقوفیاں سر زرد ہونے لگیں کہ آئے روز ان کا کوئی نہ کوئی کارنامہ میڈیا کی زینت بننے لگا،اپنے ہی کیئے گئے بلند آہنگ دعووں پر یو ٹرن لینے اور بدترین گورنس کے باعث جہاں عمران خان اور ان کی حکومت کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنے لگا وہاں تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث عوام نے ایک سال بعد ہی حکومت پر مکمل طور پر عدم اعتماد کر دیا،جی ڈی پی پانچ اشاریہ چھہ سے گر کر دو اشاریہ دو پر آ گئی ۔


میڈیا سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے کئی سخت حامی بھی بلبلا اٹھے اور کھل کر ان کی بد انتظامی اور ناقص پالیسیوں پر تنقید کرنا شروع کر دی ۔ تمام اہم اداروں کے ایک صفحے پر ہونے کے باوجود بھی عمران خان حکومت چلانے میں ناکام نظر آئے بلکہ ایک موقع پر تو دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے اپنے سہولت کاروں کو مطلع بھی کر دیا کہ ان میں نظامِ حکومت چلانے کی مزید سکت نہیں لیکن عمران خان کو کسی بھی طور حکومت چلانے کو کہا گیا اس ضمن میں اس کی ہر حوالے سے بھر پور معاونت اور مدد کی گئی حتی کے اس حکومت کے ابتدائی ایام میں بیرونِ ممالک سرکاری دوروں میں عمران خان کے ساتھ آرمی چیف بھی بنفسِ نفیس موجود ہوتے تھے ۔


پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے ممالک مثلاً متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب وغیرہ سے حکومت کو کسی طور بھی معاشی ناکامی سے بچانے کے لیئے پیسے ادھار لیئے گئے،وہاں کے حکمرانوں کو اسلام آباد بلا کر آو بھگت بھی کی گئی جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف کے نمائندے کو ملک کے اسٹیٹ بنک کا گورنر اور ایک صاحب کو خزانے کا مشیر لگا دیا گیا کہ شائد حکومت ان کی کاریگری اور لائقی کے باعث ملک شدید مالی بحران سے باہر نکل آئے اور حکمران عوام میں اپنا اعتماد بحال کر سکیں لیکن سہولت کاروں کی جانب سے اس حکومت کو دھکے لگانے کی ساری مشق کا نتیجہ ابھی تک صفر نکلا ہے اور نظر یہ آ رہا ہے کہ جو وجوہات اور منصوبہ جات عالمی اداروں کو کھٹک رہے تھے اور ان کے مفادات کی راہ میں رکاوٹ تھے، اب مقامی اسٹبلشمنت کو اپنے سر وائیول کے لیئے انہی منصوبوں کی جانب رجوع کرنا پڑ رہا ہے گویا جتھے دی کھوتی اتھے آن کھلوتی ۔


سی پیک میں سابق جنرل عاصم باوجوہ کی بطور انتظامی سربراہ تقرری اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کالم کے آغاز میں عرض کی گئی بات بھی یہاں درست ثابت ہو رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اگر عالمی اسٹبلشمنٹ کو ناکامی یا سبکی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس کی وجہ اس کی ناقص حکمتِ عملی نہیں بلکہ پاکستان کے پیدا شدہ معاشی حالات ہیں
اب یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی اسٹبلشمنٹ کے وہ ایجنڈے پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں جن کی تکمیل کے لیئے حکومت ِ عمرانیہ کو اس ملک پر مسلط کیا گیا ہے؟اس سوال کا جواب دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔

خاکسار کے خیال میں مقبوضہ کشمیر کو باضابطہ طور پر بھارت کے حوالے کر دینے اور ملک کے معاشی مسائل کا حل صرف سی پیک ہی میں دیکھنے کے بعدمقامی اسٹبلشمنٹ نے دوبارہ وضو کر لیا ہے کیونکہ عالمی اسٹبلشمنٹ کا اگلا ہدف پاکستان کا دفاعی بجٹ اور جوہری پروگرام ہے جس میں غالباً خود مقامی اسٹبلشمنٹ کی اپنی موت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :