سیاستدان اسٹبلشمنٹ شریکِ جرم۔ سیاستدان معافی مانگیں‎

جمعہ 18 دسمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

دیر آئے درست آئے لیکن جمہوریت مخالف اور ملکی سیاست میں بار بار اور بے جا ٹانگیں اڑانے والی قوتوں کو قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرنے سے پہلے جمہوریت اور سول بالادستی کا نعرہ بلند کرنے والے سیاستدانوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے سابقہ کردار پر قوم سے معافی مانگیں ۔ ڈیکٹیٹر جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہنے، اس کی کابینہ میں وزیر بننے اور پہلے سول مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر ہونے ، خفیہ ایجنسیوں کی بنائی ہوئی نو ستاروں والی آئی جے آئی کے زریعے اقتدار میں آنے، اشٹبلشمنٹ یافتہ ایم ایم اے کے زریعے کے پی کے میں حکومت کرنے، جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث، جنرل جیلانی، جنرل پرویز مشرف، جنرل کیانی اور اب موجودہ ڈاکٹرائین سرکار کے سہارے اقتدار تک پہنچنے والے لیڈران اگر قوم سے اپنے سابقہ کردار پر معافی مانگ کر اور مستقبل میں غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ ساز باز کر کے اقتدار میں نہ آنے کا وعدہ کریں تو جہاں ان کے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا تو دوسری جانب ایک عام شہری آئندہ انہیں ماضی میں ڈیکٹیٹروں اور اشٹبلشمنٹ کے سہارے اقتدار میں آنے کا طعنہ نہیں دے سکے گا ۔

(جاری ہے)


قومی لیڈران اگر اپنے سابقہ متنازعہ کردار کے ساتھ جمہوریت کا یوں ہی راگ الاپتے رہے جیسے اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے جلسوں صبح شام میں الاپ رہے ہیں تو ایک عام شہری سیاستدانوں کے بارے میں یہی سوچنے پر مجبور ہو گا کہ جیسے بلی سو چوہے کھا کر حج پر چلی اور یہ کہ اسے یعنی پبلک کو بدستور جمہوریت اور سول بالا دستی کے نام پر ابھی بھی چکر پر چکر دیئے جا رہے ہیں ۔

ماضی میں غیر سیاسی قوتوں کے زیرِ سایہ سیاست بازی کرنے والے لیڈران اگر اپنے سابقہ سیاسی گناہوں ، غلطیوں اور بلنڈرز کے طعنے سننے سے دور رہنا چاہتے ہیں تو پی ڈی ایم کے جلسوں یا پبلک میں جا کر قوم سے معافی مانگیں ،اپنی سابقہ سیاسی غلطیوں اور آمروں کا ساتھ دینے کا برملا اعتراف کریں اور پھر قوم کی آواز بننے کا دعوی کریں ۔ کوئی وجہ نہیں کہ عوام انہیں معاف نہ کریں ۔

عوام کا ایک بڑا اور سنجیدہ طبقہ اب یہ بھی محسوس کرنے لگا ہے کہ فروری میں سینیٹ الیکشن کے بعد ملک میں ون پارٹی سسٹم،صدارتی نظام قائم ہوتا اور پھر اپنا سیاسی مستقبل کمزور یا تاریک دیکھتے ہوئے پی ڈی ایم میں شامل سیاستدانوں کے پیٹ میں سول بالا دستی اور جمہوریت کے مروڑ اٹھ رہے ہیں ،گویا مذکورہ سیاستدانوں کا عوام کا درد نہیں بلکہ اپنا سیاسی نظام چوپٹ ہوتے اور اپنا سیاسی بسترا بوریا گول ہوتے دیکھ کر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے صرف اپنے زاتی مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑی جا رہی ہے ۔


اس حقیقت اور المیہ سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کے اور موجودہ سیاستدانوں کی آپس کی سیاسی چپقلش کے باعث ملک کو قومی سیاست، ملکی نظام، جمہوریت اور خود سیاستدانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا،جس کا فائدہ براہِ راست غیر جمہوری قوتوں اور عناصر نے اٹھایا اور انہوں نے اپنا نظام اور سسٹم مضبوط کیا ۔ سیاستدانوں کے آپس کے جھگڑوں کے باعث ہی اسٹبلشمنٹ کی یہ خوش بختی رہی کہ اسے ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی مہرہ دستیاب رہا اور یوں غیر جمہوری عناصر کی سازشیں کامیاب ہوتی رہیں ۔

گویا سیاستدانوں نے ہی ان غیر سیاسی عناصر کے ہاتھ مضبوط کئے،لیکن تاریخ بھی گواہ ہے جب بھی سیاستدان آپس میں متحد ہوئے اشٹبلشمنٹ کو منہ کی کھانی پڑی ۔ مثلاً جب سابق وزیرِا عظم نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کے دوران بے نظیر بھٹو شہید سے چارٹرڈ آف ڈیمکوریسی سائن کیا تو مکے دکھانے والے ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کو پھر پیچھے ہٹنا پڑا ۔
اسی طرح ماضی میں ، تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی نے اُس دور یعنی سّتر اور اسّی کی دہائی میں غیر سیاسی قوتوں کے خلاف سیاستدانوں کا اتحاد قائم کرنے کی روایت قائم کی جب اس وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں سیاست کو ختم کر نے میں کوئی کثر نہ چھوڑی تھی ۔

گو کہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایم آر ڈی ڈیکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کو اقتدار سے اتارنے میں ناکام رہا، لیکن ملک میں غیر سیاسی مداخلت کے خلاف ایک ستارہ ثابت ہوا اور ڈیکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے آمریت کے خلاف ایک محاذ کے طور پر قائم رہا ۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ایم آر ڈی میں شامل سیاسی جماعتوں کے جمہوریت پسند لیڈران عوام کو ماموں بنا کر اپنی اپنی بولی لگوا کر جنرل ضیاء الحق کی آمریت والے دورِ حکومت میں خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔


پھر ملک پر ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کا دورِ آمریت نازل ہوا، ق لیگ جیسی سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں جن کے لیڈروں نے ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر قوم کو جمہوریت کے گیت سناسنا کر بے وقوف بنایا اور اب ملک میں وہ حکومت قائم ہے جس کا سربراہ اشٹبلشمنٹ کے کٹھ پتلی وزیرِ اعظم کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے لیکن راگ جمہوریت الاپتا ہے ۔


آج اگر ملک کی تمام دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ مکافاتِ عمل کا شکار ہو رہی ہیں ۔ یہ دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ ن بھی ماضی میں اشٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ رہی ہیں ۔ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے موجودہ’’ حالات‘‘ کو دیکھتے ہوئے اشٹبلشمنٹ کے سہارے اقتدار میں آنے والے وزیرِ اعظم عمران خان کو مستقبل میں خود کو مکافاتِ عمل کا شکار ہونے سے بچنے کی تدبیریں کرنی چاہیں ۔

مکافاتِ عمل کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو گی کہ جب اشٹبلشمنٹ کے خاص نمائندے سابق صدر غلام اسحاق خان نے انیس سو تیرانوے میں اشٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا اور خود اقتدار پر قبضہ کیا تھا لیکن غلام اسحق خان کو بھی بعد میں صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے ۔ درِ حقیقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل کاکڑ نے دونوں کے اقتدار کا خاتمہ کیا تھا ۔

اداروں کے پیارے اور ان کی محبت کے مارے اپوزیشن لیڈر اپنے بیٹے سمیت جیلوں میں قید ہیں ،سابق صدر زرداری سینیٹ کے سابقہ الیکشن میں حکومتِ عمرانیہ کا ساتھ دینے اور اس سے پہلے ڈاکٹر عارف علوی کے صدارتی انتخاب کے دوران قومی اسمبلی سے واک آءوٹ کر کے حکومت کو راستہ دینے کے باوجود پابندِ سلاسل ہیں ۔ خان صاحب کو یاد رکھنا چاہیئے کہ مصنوعی طریقوں سے اقتدار میں آنے اور غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے کا بل آخر انجام ایسا ہی ہوتا ہے ۔

بات آگے نکل گئی ۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اگر وقتِ حاضر کی سیاسی قوتیں جن میں اکثریت اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم میں شامل ہیں ، عوام کی عدالت میں ایک مرتبہ جا کر اپنی سابقہ غلطیوں اور سیاسی گناہوں اور اشٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنے مشترکہ سیاسی گناہوں اور پاپوں کی معافی مانگیں تو نہ صرف ان کے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا، ان کے سابقہ سیاسی گناہوں کا ازالہ ہو گا، عوام کی عدالت میں یہ برملا اعتراف کرنے سے سیاسی قوتیں سرخرو ہوں گی اور ان کے دامن پر ایک عرصہ سے اشٹبلشمنٹ کی ایجنٹی کرنے کا لگا بدنما دھبہ اور داغ ہمیشہ کے لیئے دھل سکے گا،بصورتِ دیگر ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں ، بلخصوص پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے لیڈران پر ماضی میں چور دروازے کے زریعے اور اشٹبلشمنٹ سے ساز باز کر کے اقتدار میں آنے کا طعنہ ان کا پیچھا کرتا رہے گا ۔


ستّر سالوں سے جمہوریت کے نام پر سیاستدانوں کے پیچھے نعرے لگاتی پبلک اب سیاسی لیڈروں سے رومانس کرنے اوران کے کردار کا فرق سمجھنے میں باشعور ہو چکی ہے ۔ بیان کردہ حقائق کڑوے اور تلخ ضرور ہیں مگر انہیں کھلے دل سے تسلیم کر کے ہی مستقبل میں سیاست کرنے میں سیاستدانوں کی باعزت کامیابی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :