قرارداد لاہور سے یوم پاکستان تک

منگل 30 مارچ 2021

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

22 تا 24 مارچ 1940 کو منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس نے اسلامیان ہندوستان کا رخ ان کی منزل کی جانب کردیا۔ جب سے یہ سالانہ اجلاس منعقد ہوا اس ہندوستان کی سیاسی فضا آل انڈیا مسلم لیگ کے موافق نہیں تھی۔ 1937 کے انتخابات میں کسی ایک صوبہ میں بھی وہ جیت نہ سکی اور نتیجہ میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں جن کے اقدامات میں مسلمانوں میں احساس محرومی پیدا کردیا۔

ان حالات میں قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے بہتر فیصلہ کیا اور مستقبل کی پالیسی طے کرنے کے لئے یہ سالانہ جلسہ منعقد کیا۔ اس اجلاس سے چند دن قبل لاہور میں ہونے والے ایک افسوسناک واقعہ نے فضا بہت سوگوار بنا دی اور لوگوں میں غم و غصہ تھا۔ 19 مارچ کو علامہ عنائیت اللہ مشرقی کی قیادت میں خاکسار تحریک کی جلوس کو طاقت سے روکنا چاہا اور پولیس کی فائرنگ سے 35 افراد شہید ہوگئے۔

(جاری ہے)

اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی حکومت وزیر اعلی سر سکندر حیات کی سربراہی میں کام کررہی تھی۔ قائد اعظم جب اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلے زخمی خاکساروں سے ملاقات کی اور ہمدردی کا اظہار کیا، جس سے ماحول بہت بہتر ہوگیا۔ اس تاریخی قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا اور حکومت پر واضح کیا گیا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔شیر بنگال مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی، یوپی سے بیگم مولانا محمد علی جوہر، بہار سے نواب اسماعیل، یوپی سے مولانا عبدالحمامد بدایونی اور بمبئی سے اسماعیل ابراہیم چندریگر نے کی۔


اس قرار داد جن علاقوں کی بات کی گئی اس میں مسلم اکثریتی ریاست جموں کشمیر شامل نہیں ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ اس وقت ہندوستان آئینی طور پر دو نظام رکھنا تھا۔ جو علاقے براہ انگریز حکومت کے ماتحت تھے وہ برٹش انڈیا کہلاتے تھے۔ یہ ہندوستان کے صوبے تھے جہاں انتخابات ہوتے تھے اور وہاں آل انڈیا مسلم لیگ۔ کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتیں قائم تھیں۔

ہندوستان کے دیگر علاقے دیسی ریاستیں یا انڈین انڈیا کہلاتے تھے جہاں انگریز حکومت براہ راست نہ تھی بلکہ وراثتی حکمران حاکم تھے۔ یہ 565 قریب ریاستیں تھیں جن میں جموں کشمیر، حیدرآباد، بہاولپور، قلات، جوناگڑھ وغیرہ شامل ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد برٹش انڈیا کے حوالے سے تھی اسی لئے اس میں جموں کشمیر، حیدرآباد یا دیگر شامل نہ تھے۔


اس قرارداد کا مسودہ ممدوٹ ہاوس لاہور میں لکھا گیا اور اسے تحریر کرنے والوں میں پنجاب کے وزیر اعلی سر سکندر حیات، قائد اعظم، نواب اسماعیل اور ملک برکت علی شامل تھے۔ اس قرار داد میں پاکستان کا لفظ بھی شامل نہ تھا لیکن جونہی یہ قرارداد پاس ہوئی ہندو پریس نے واویلا شروع کردیا کہ یہ تو چوہدری رحمت علی کی تجویز کردہ اسکیم ہے اور آل انڈیا مسلم نے اسی کو اپنا لیا ہے۔

چوہدری رحمت علی نے 1933 میں اسلامیان ہندوستان کے لئے الگ ملک کا مطالبہ کیا تھا جس کا نام انہوں نے پاکستان تجویز کیا تھا۔ چوہدری رحمت علی مارچ 1940 کے اجلاس میں شرکت کے لئے برطانیہ سے کراچی پہنچے لیکن ان کے لاہور داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی اور انہیں اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا۔ بہرحال جب ہندو پریس نے قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کہا تو قائد اعظم نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نئی مملکت کا نام پاکستان قبول کرلیا اور اس طرح اس کا نام قرار داد پاکستان پڑ گیا۔


1941 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اس قرار داد کو اپنے منشور میں شامل کیا لیکن ابھی ان حدود کا واضح طور پر تعین نہ ہوسکا جو پاکستان پر مشتمل ہوں گے۔ اس کا فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں ہونے والے 7 اپریل 1946 کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس میں قرار داد لاہور میں ترمیم کی گئی اور ایک نئی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چودھری خلیق الزماں اور ابو الحسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔

اس قرارداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کیے جانے والے علاقوں کی نشان دہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان۔ مسلم لیگ کے دلی کنونشن میں 23 مارچ 1940 کی قرارداد کے مطابق دو مملکتوں کی بجائے ایک ملک پاکستان کا مطالبہ کیا گیا۔ اس موقع پر بنگال کے راہنما ابوالہاشم نے اس قرارداد کی بہت مخالفت کی اور کہا کہ یہ قرارداد 23 مارچ کی قرارداد لاہور سے بالکل مختلف ہے اور وہ مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔ بہرحال اکثریت نے یہ ترمیم منظور کرلی لیکن آنے والے حالات نے یہ ثابت کیا کہ اگر 23 مارچ کی قرارداد میں ترمیم نہ ہوتی تو سانحہ مشرقی بھی نہ ہوتا۔
یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان بننے کے 11 سال بعد تک 23 مارچ کا دن یوم پاکستان کی حیثیت سے نہیں منایا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کی زندگی میں یہ دن 23 مارچ 1948 کو آیا لیکن اس روز کوئی تقریب منعقد نہ ہوئی۔ پہلی بار یہ دن 23 مارچ 1956 کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا گیا جو پاکستان کا پہلا آئین بننے کی وجہ سے منایا گیا اور اگلے 3 سال یہ یوم جمہوریہ کے طور پر ہی منایا جاتا رہا لیکن 1958 کے مارشل لا کے بعد جب آئین پامال کرنے جمہوریت کو ختم کیا گیا تو مارشل لاء حکومت کو دوام بخشنے کے لئے جنرل ایوب خان نے یہ دن یوم پاکستان کے طور پر منانا شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ قرار داد لاہور کا یہ سفر بہت دلچسپ اور چشم کشا ہے لیکن یہ اسلامیان ہندوستان کی قائد اعظم کی قیادت پر اعتماد اور اپنی منزل کے حصول کے لئے جدوجہد سے عبارت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :