اقتدار کی سیاست اور آئیننی نظام

بدھ 6 مئی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

ایک بار پھر سیاسی جماعتیں اُس اٹھارویں آئینی ترمیم پہ نظرثانی کیلئے ریاست کو سہولت فراہم کرنے کیلئے پَر تول رہی ہیں جسے دس سال قبل پورے سیاسی شکوہ کے ساتھ منظور کرایا گیا تھا اور اس کی تدوین میں پارلیمانی جماعتوں کے علاوہ مقتدرہ اور جوڈیشری سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت یقنی بنائی گئی،اگرچہ اٹھارویں ترمیم پہ کام کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مسٹر رضا ربانی فخریہ انداز میں صوبائی خود مختاری کی طرف منظم پیشقدمی قرار دیکر اسے مرکز گریز تحریکوں کی شدت کم کرنے کا مجرب نسخہ سمجھتے رہے لیکن یہ تجربہ بُری طرح ناکام ہو گیا اور عملاً یہی آئینی ترمیم علیحدگی پسندی کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کے علاوہ خود ترمیم کی محرک پیپلزپارٹی کا پنجاب،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں صفایا کرنے کا سبب بنی۔

(جاری ہے)

پیپلزپارٹی کو امید تھی کہ صوبوں کو وسیع تر خود مختاری کے علاوہ قدرتی ومعدنیاتی وسائل پہ تصرف کا پورا حق ملنے اور پشتون قوم پرست تنظیموں کی دلجوئی کیلئے این ڈبلیو ایف پی کا نام خیبر پختون خوا رکھ کے پٹھانوں کو نسلی شناخت دینے کے بدلے پیپلزپارٹی کو پختون سماج میں بھر پور پذیرائی ملے گی مگر افسوس کہ نتائج اسکے برعکس رونما ہوئے۔امر واقعہ یہ ہے کہ قبائلی پٹی سمیت خیبر پختون خوا کے پشتون علاقوں میں پیپلزپارٹی کبھی مقبول جماعت نہیں رہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں دینی جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کی جڑیں خاصی گہری ہیں البتہ ہندکو،سرائیکی اورچترالی سمیت دیگر زبانیں بولنے والی مرکز پسند آبادیوں میں پیپلزپارٹی کیلئے تھوڑی بہت حمایت موجود تھی لیکن سابق صدر زرداری نے قوم پرستوں کی خوشنودی کیلئے جب این ڈبلیو ایف کوخیبر پختون خوا کا لبادہ پہنایا تو اس حساس سرحدی صوبہ کی غیر پشتونوں پہ مشتمل بہت بڑی آبادی پی پی پی سے ناراض ہو گئی،صوبہ کے نام کی تبدیلی کے خلاف ہزارہ ڈویژن میں تحریک بھڑک اٹھی جسے طاقت کے بلبوتے کچلنے کی خاطر اے این پی کی مخلوط حکومت نے پُرامن مظاہرین پہ فائرنگ کرا کے کم و بیش چودہ افراد کو شہید کر ا دیا، یہی اٹھارویں ترمیم کا پہلی رونمائی تھی جس نے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ بیگناہ شہریوں کی جان لیکر نفرتوں کی ایسی مستقل لکیر کھینچ دی،جو اس بدنصب قوم کی مزید تقسیم کا ذریعہ بن گئی،بدقسمتی سے یہی خونی سانحہ آج تک اے این پی اور پی پی پی کا تعاقب کر رہا ہے۔

چنانچہ سنہ دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو صوبہ خیبر پختون خوا سے قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہ مل سکی بلکہ اسی پیش دستی کے مہلک اثرات پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی کی مقبولیت کو گزند پہنچانے کا وسیلہ بنے اور جنوبی پنجاب کے وہ مغموم لوگ جو الگ صوبہ کے قیام کیلئے پیپلزپارٹی سے امید لگائے بیٹھے تھے،مایوس ہو کے تحریک انصاف کی گود میں جا بیٹھے،اب بھی لوگ اٹھارویں ترمیم کو سرائیکی وسیب کے استحصال کی ایسی حتمی دستاویز تصور کر کے پیپلزپارٹی سے منہ موڑ رہے ہیں،جس نے ان کیلئے الگ صوبہ حاصل کرنے کے امکانات کو بعید تر کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی صوبہ کے قیام کی اتنی مخالفت وسطی پنجاب والے نہیں کرتے جتنی سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتیں کر رہی ہیں۔تقدیرکی جبریت دیکھئے کہ صوبائی خود مختاری کا ناقوس بجانے کے باوجود بھی پیپلزپارٹی سندھی قوم پرستوں کے دل جیت سکی نہ صوبہ میں انتظامی اصلاحات متعارف کرانے کے قابل ہوئی کیونکہ قوم پرست جماعتیں دراصل سندھی عوام کی فلاح کی طلبگار نہیں بلکہ فقط علیحدگی کی نقیب ہیں، اسلئے پختونوں،بلوچوں اور سندھیوں کو جتنی چاہوں خود مختاری یا مرعات دے دو وہ علیحدگی سے کم کسی بات پہ قناعت نہیں کر پائیں گے۔

ان مسائل سے بھی بڑھ کر اسی اٹھارویں ترمیم نے ملک کے پیچیدہ سیاسی امور اور غیر محدود معاشی وسائل پہ مرکز کی اتھارٹی کو محدودکر کے وفاق کیلئے کئی ناقابل بیان مسائل پیدا کر دیئے،چنانچہ مرکزی اتھارٹی کو سندھ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں مرکزگریز عوامل سے نمٹنے اور تینوں صوبوں کے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کی خاطر ایپکس کمیٹیوں کا سہارا لینا پڑا جو بجائے خود وفاقی و صوبائی حکومتوں کیلئے الجھن بن گئی ہیں۔

بہرحال! اس وقت کرونا وباء کے ہنگام کے پیچھے جاری سیاسی جوڑ توڑ میں سیاستدان اور مقتدرہ دونوں انہی خود پیدا کردہ مسائل سے نجات پانے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں اورہمیں امید ہے کہ بلآخر ان متضاد قوتوں کی جامع کنسلٹیشن کی کوکھ سے تقسیم اختیارات کا کوئی نیا عمرانی معاہدہ نمودار ہوگا۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کرپشن کے مقدمات سے نجات اورنیب کی بساط لپٹنے کی شرط پہ اٹھارویں ترمیم میں چند مناسب اصلاحات پہ راضی ہو جائیں گی۔

راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کا کہنا ہے کہ جس وقت پس چلمن حلقے لندن میں خفیہ مذاکرات کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے قانون سازی کی خاطر پارلیمنٹ میں نواز لیگ کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف تھے،اس وقت بھی دراصل بات چیت کا محور اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات پہ قابو پانا تھا۔اس سے قبل بھی رائے عامہ کی نبض چیک کرنے کیلئے گاہے بگاہے اٹھارویں ترمیم کی بساط لپٹنے کی خبریں لیک ہوتی رہیں جس پہ چاروں صوبوں کے عوام کی طرف سے کبھی کوئی ردعمل نہیں آیا تاہم اس ترمیم کی بینفشریز ملک گیر اور علاقائی قوم پرست جماعتوں کا لب و لہجہ کچھ ترش ضرور ہو جاتا تھاچنانچہ اب اٹھارویں ترمیم میں اصلاحات کی بات کھول کے سامنے رکھ دی جائے گی،قوم پرست جماعتیں اصلاحات کو ایشو بنا کے اپنی دم توڑتی سیاست میں کچھ جان تو ڈال سکتی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں قانون سازی کے دوران ان کا کردار معدوم رہے گا۔

اس ترمیم کی بساط لپٹنے کا ممکنہ طور پہ سب سے زیادہ فائدہ نواز لیگ اٹھائے گی،مسلم لیگ نے اس ایشو پہ فقط بات چیت کی حامی بھر کے نوازشریف،مریم نواز اور خاقان عباسی سمیت اپنے تمام اسیروں کو چھڑا لیا اور اب پارلیمنٹ میں بل کی حمایت کر کے نوازشریف کی نااہلی ختم کرانے کے علاوہ مریم نواز کیلئے وزرات اعظمی کے منصب تک پہنچنے کی راہ بھی ہموار بنا لی جائے گی۔

پیپلزپارٹی کا مخمصہ بھی یہی ہے کہ وہ کرپشن کے سیاسی اور غیرسیاسی مقدمات سے گلو خلاصی کے علاوہ بلاول بھٹو کو وزارت اعظمی کے منصب تک پہنچانے کی خاطر ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ان ساری لن ترانیوں سے قطع نظر ریاست کی اتھارٹی کو زیادہ مضبوط بنانے والے منصوبہ بندیوں اوراس آئینی ترامیم کی جدوجہد سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ جماعتی سیاست کے تمام فوائد ریاستی مقتدرہ یا پھر پارٹی کی مخصوص اہیرارکی کے حصہ میں آتے ہیں۔

افسوس کہ جماعتی سیاست نے عوام کومسحور کر کے ایک میکانکی اور قسمت پرستانہ فلسفہ حیات کا غلام بنا دیا چنانچہ عام لوگوں نے بچوں جیسے بھروسہ کے ساتھ خود کو سیاسی و مذہبی جماعتوں کے حوالے کر دیا،وہ اپنی فلاح کے لئے جستجو کرنے،سوچنے،بولنے،حتی کہ اپنے نفع نقصان بارے خود فیصلہ لینے کے حق سے بھی رضاکارانہ طور پہ دستبرار ہو چکے ہیں،لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ہی انکی آئندہ نسلوں کے مستقبل بارے سوچیں گی،ان کے سیاسی ،سماجی اور بنیادی حقوق کی بات کریں گی اور ان کے نفع و ضرر کا فیصلہ بھی پارٹیاں کریں گی۔

اس قدر مہیب ذہنی جمود دراصل پارٹی پالیٹکس کے مضمرات کا عکس ہے،جب تک عوام پارٹی وابستگیوں کی قید سے جان نہیں چھڑا لیتے اس وقت تک یہاں سماجی فلاح اور سیاسی ارتقاء کے امکانات منجمد رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :