موسم بدل رہے ہیں؟

منگل 13 اکتوبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

قومی سیاست میں جس کشمکش کی ابتداء اگست دو ہزار چودہ میں جناب عمران خان کے لانگ مارچ سے ہوئی تھی کوشش بسیار کے باوجود وہ ابھی تک وہ تھم نہیں سکی بلکہ اب تو اسی جدلیات کی بپھری ہوئی لہروں نے پورے نظام کا محاصرہ کر لیا ہے، لگتا ہے اس جنگ کو شروع کرنے والے عمران خان کے سوا کسی اور کا ایثار ہمارے سیاسی ماحول کو نارملائز نہیں کر پائے گا لیکن الجھن یہ ہے کہ جمہوریت اور سیاسی اقتدار کی علامت ہونے کے باوجود فیصلہ سازی کے عمل پہ وزیراعظم کی گرفت ابھی تک مضبوط نہیں ہو پائی،اس لئے اپوزیشن کی پیش قدمی کو ریاستی قوت کے ذریعے روکنے یا پھر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو انگیج رکھنے کے لئے مفاہمت کی بساط بچھانے کا اختیار ان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا،چند دن قبل انصاف لائر فورم کے وکلاء سے ان کا خطاب اسی نفسیاتی آشوب کا مظہر تھا،جس میں خان صاحب نے تازہ سیاسی کشمکش میں فریق بننے کی بجائے ایک کمنٹیٹر کے طرح حالات کی ستم ظریفی پہ اپنا تبصرہ پیش کرنے کے سوا اصلاح احوال کی خاطر کوئی قابل عمل تجویز پیش نہیں کی۔

(جاری ہے)

اسی طرح حال ہی میں لاہور میں اپوزیشن رہمناوں کے خلاف درج ہونے والے غداری مقدمات کی سکیم سے بھی وزیراعظم نے جلدی سے خود کو الگ کر لیا،اس شعوری لاتعلقی میں اس تھکا دینے والی کشمکش کے فریقین کے لئے کچھ خاص پیغام بھی پنہاں تھا۔بہرحال،یہ نہایت پیچیدہ اور پُرخطر سیاسی پیش دستی تھی جس نے ہماری سیاست میں پرسپشن اور حقیقت کے درمیان خط امیتاز کھیچ دیا،گویا اب عوام اور ریاست کے درمیان حائل وہ مصنوعی سیاسی پردہ بھی تحلیل ہو رہا ہے جس نے ہماری نشنل سیکورٹی ڈاکٹرائن کا بھرم رکھا ہوا تھا۔

ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ہمارا ادارہ جاتی ڈھانچہ اب زیادہ دیر تک اس رسہ کشی کا بوجھ سہار نہیں پائے گا چنانچہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو موجودہ سیاسی مبارزت کو بہت جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچانا پڑے گا،اس تناظر میں اگلے تین ماہ بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔شاید ہمیں الٹے پاوٴں اسی بندوبست کی طرف واپس پلٹنا پڑے، جس کی اساس سنہ دوہزار دس میں اٹھارویں ترمیم کے پیکج پہ رکھی گئی تھی۔

حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ پہلے جس تبدیلی کی پیش قدمی کا مدّ تھا اب اسی تغیر کا جزّر شروع ہونے والا ہے۔جس کی تازہ مثال سابق وزیراعظم نواز شریف کی ویڈیو لنک کی تقریروں کو جواز بنا کے لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں درج کرائے گئے غداری مقدمہ کا بے بسی کے ساتھ غیر موثر ہو جانا ہے۔اسی رجعت قہقہری نے اپوزیشن جماعتوں کی لیڈر شپ اور کارکنوں کے حوصلے مزید بلند کر دیئے ہیں،یہ بالکل ویسا ہی مخمصہ ہے جیسا عمران خان کے دھرنا کے دوران مسلم لیگی حکومت کو درپیش تھا،جب وہ پُرتشدد کاروائیوں میں ملوث پی ٹی آئی کے لیڈرز اور کارکنوں کے خلاف دہشتگردی کیی دفعات کے تحت مقدمات درج کرانے کے باوجود انہیں گرفتار کرنے میں بے بس نظر آتی تھی اور خاص طور پہ اسلام آباد میں اس وقت کی پولیس اور انتظامیہ ریاستی طاقت کے ذریعے بلوائیوں کو روکنے سے اِسی طرح ہچکچاتی تھی،جس طرح آج پنجاب کی،سول بیوروکریسی اور پولیس،اپوزیشن جماعتوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں نظر آتی ہے۔

اب چونکہ موسم بدل رہا ہے اس لئے کسی غیر معمولی تبدیلی کی آمد سے قبل ہی انتظامی شاخوں پہ چہچہانے والے پرندوں کی ڈاریں اپنی نئی منزلوں کا تعین کرنے لگی ہیں،حالات اس نہج پہ پہنچ گئے ہیں کہ پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو کورٹ مارشل کی دھمکیاں بھی”راہ راست“ پہ نہیں لا سکیں۔
دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ابھی اپنی صفوں کو درست کرنے میں سرگرداں دیکھائی دیتی ہے،تنظیمی ڈھانچہ کی تکمیل کے علاوہ اس تحریک کے اغراض و مقاصد کا تعین ہونا ابھی باقی ہے،اس بات پہ تو ساری اپوزیشن جماعتیں متفق ہوں گی کہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجا جائے لیکن اس کے لئے سیاسی تحریک کا طریقہ کار اور مابعد کی صورت گری پہ اتفاق رائے ابھی ممکن نہیں ہو سکا۔

بظاہر اس تحریک کی قیادت نواز لیگ نے ٹیک اوور کر لی اور نوازشریف اپنی سوچ کے مطابق تحریک کے اہداف کا تعین کرنے میں بیباک دیکھائی دیتے ہیں،وقت اور حالات کے تقاضوں کا درست ادارک رکھنے والے مولانا فضل الرحمن نے تو خود کو نوازشریف کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اپنے لئے واضح راہ عمل کا تعین کر لیا لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت ابھی گومگو کی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے،موجودہ سسٹم کی بینفشری ہونے کے ناطے پیپلزپارٹی اصولی طور پہ تو اس بندوبست کا دوام چاہتی تھی اور وہ موجودہ سسٹم کے اندر کسی ممکنہ تبدیلی کی راہیں تلاش کرنے کی حامی تو ہے مگر مقتدرہ کے ساتھ کسی تصادم میں سرکھپانے سے بچنا چاہتی ہے۔

پی پی پی کی کہنہ مشق قیادت یہ بھی جانتی ہے کہ اس تحریک کا مرکز ثقل پنجاب بنا تو پی ڈی ایم کی کامیاب کا سارا پھل نواز لیگ کی جھولی میں گرے گا لیکن جمہوری شناخت رکھنے والی یہ بوڑھی جماعت مقتدرہ کے خلاف اٹھنے والی اس لہر سے خود کو جدا بھی نہیں رکھ سکتی۔بہرحال،دونوں صورتوں میں اس کے لئے سیاسی خسارہ موجود رہے گا،اس لئے پیپلزپارٹی کی قیادت جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت حال سے دو چار ہے۔

اسی طرح اے این پی کی بھی پی ڈی ایم میں شرکت محض علامتی رہ گئی ہے،اس جماعت کی اصل سوچ کی عکاسی ایمل ولی خان کے بیانات سے ہوتی ہے جس نے واضح طور پہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں سیاسی جدوجہد کرنے سے انکار کر دیا۔امر واقعہ یہ ہے کہ عوامی نشنل پارٹی پچھلے ڈھائی سالوں سے بلوچستان میں قائم جام کمال حکومت کا حصہ ہونے کے علاوہ مرکزی صدر اسفندیارکے بیٹے ایمل ولی خان نے بھی اپنی آنکھوں میں خیبر پختون خوا میں حصول اقتدار کے خواب سجا رکھے ہیں اس لئے وہ کسی ایسی کشمکش کا حصہ نہیں بنیں گے جو انکی آرزوں کے قتل پہ منتج ہو،انہیں بجا طور پہ خدشہ لاحق ہے کہ پی ڈی ایم کی کامیابی کی صورت میں خیبر پختون خوا کا اقتدار اعلی جے یو آئی کا مقدر بن سکتا ہے لیکن اپنی ہم خیال جماعت،پیپلزپارٹی،کو ریسکیو کرنے کی خاطر اسے پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں شرکت بھی کرنا پڑتی ہے،جہاں ساتوں چھوٹی جماعتیں نواز لیگ اور جے یو آئی کے فلسفہ سیاست کی حمایت کرکے بلاول بھٹو زرداری کو تنہا کر دیتی ہیں۔

علی ہذالقیاس،اس غیر روایتی کشمکش کے دوران اس بات کا امکان بہرحال موجود رہے گا،اگر نواز لیگ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ حتمی تصادم کی طرف بڑھی تو پی پی پی اور عوامی نشنل پارٹی، پی ڈی ایم سے اپنی راہیں الگ کر سکتی ہیں۔
افسوس کے ہماری قیادت پُرامن اصلاحات کے اس تسلسل کا دوام تو یقینی نہ بنا سکی جس کی وہ وکالت کرتی رہی لیکن بلآخر غیر لچکدار رویہ کو متوازن بنانے کی خاطر ایسی سیاسی مزاحمت پہ آمادہ ہو گئی جو اس مملکت کو عمیق خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔

بہرحال،موجودہ سیاسی تحریک نے جہاں اس عہد کے بطن میں پنہاں اسرار و رموز کو بے حجاب کیا وہاں یہی کشمکش مذہبی انتہا پسندی کے رجحانات کو ریگولیٹ کرکے ہمارے لئے خیر کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور اگر ملکی سیاست پر مقتدرہ کا اثر و رسوخ کم ہوا تو جنوبی ایشیا کی پوری تزویری پوزیشن تبدیل ہو جائے گی۔پاکستان اس میجر پالیسی شفٹ میں زیادہ وقت نہیں لے گا جو ہمیں دائمی تنازعات سے نجات دلا سکتی ہے اور اگر دریں اثناء مقتدرہ خود کو ریاست کی سالمیت کا ضامن ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی تو آنے والے دنوں میں اسے معاشی بقاء کی خاطر سیکیورٹی کی اپنی جدوجہد کو احتیاط سے متوازن کرنا پڑے گا۔

ہوسکتا ہے کہ فوجی قیادت کو خود سے یہ پوچھنا پڑے کہ کیا دفاع میں اس کی سرمایہ کاری نے موٴثر طریقے سے اس کی حفاظت کی ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :