خواتین پر تشدد ۔۔آخر کب تک ؟

بدھ 4 دسمبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

خواتین پر تشدد اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لئے دنیاکے تمام مہذب ممالک میں قانون سازی کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود حقائق انتہائی تشویش ناک ہیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا کی ہر تیسری خاتون زندگی میں تشدد کا شکار ہوتی ہے۔یواین ویمن کے اعداد وشمار چونکا دینے والے ہیں پوری دنیا میں 35 فیصدخواتین جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں ۔

اسی رپورٹ کے مطابق 2017 میں 87 ہزار خواتین کو قتل کیا گیا جن میں 50 ہزار سے زیادہ خواتین کو خاندان کے لوگوں نے قتل کیا ۔ہیومن ٹریفکنگ کا شکار ہونے والوں میں 49 فیصد تعداد خواتین کی ہیں جن کی اکثریت کو جنسی تشدد و سیکس ورکرکے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق 650 ملین خواتین کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے قبل کمسنی میں کردی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

یورپین یونین کی رپورٹ کے مطابق ہر دس میں سے ایک لڑکی سائبر ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے ۔ایمنیسٹی انٹرنیشنل بیان کرتی ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد آجکل ”انسانی حقوق کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے “۔دی کونسل آف یورپ نامی تنظیم کے اندازے کے مطابق یورپ میں چار سے ایک عورت اپنی زندگی میں گھریلو تشدد سے متاثر ہوتی ہے ۔انڈیا ٹوڈے انٹرنیشنل رسالے کے مطابق انڈیا میں زنابالجبر اتنا عام ہے کہ عورتیں ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہیں انہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ زنا بالجبر کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔

پاکستان میں بھی 25 نومبرکو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور منایا گیا، مختلف سیمینارز ،تقریبات ہوئیں مگر یہ محض گفتند،نشستد،برخاستند ۔اسی طرح 25 نومبر سے 10 دسمبر تک”صنف پر مبنی تشدد کے خلاف ایکٹیوازم کے 16 دن “ مہم چلائی جارہی ہے ۔اس سال مہم کا سلوگن ہے ’Genration Equality stands against Rape“ہے ۔اس کا بنیادی مقصد خواتین پر ہونے والے ذہنی وجسمانی تشدد،جنسی تشدداورگھریلوتشددپر موثر قانون سازی اور موجود قوانین کے اطلاق کی ضرورت پر زور دیاجائے گا ۔

آج بھی جبری شادی ،جسمانی تشدد،21 ویں صدی میں بھی جہیز کے مسائل ،کام کی جگہ پرہراسمنٹ ،غرض کہ گھر سے معاشرے تک بہت سی خواتین کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے بعد سائبر ہراسمنٹ و بلیک میلنگ میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔پوری دنیا بین الاقوامی معاہدوں میں تشدد سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کے مسائل سے نمٹنے کے لئے بنیادی اصولوں پر اتفاق کرچکی ہیں ۔

جنرل اسمبلی کی قرار داد 34/180خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن 1979 اور بچوں کے حقوق کا کنونشن 1989 انسانی حقوق پر مبنی فریم ورک مہیا کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ جنرل اسمبلی کی قرارداد 48/104 خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمہ کا اعلامیہ 1993 اور بیجنگ ڈیکلیریشن اینڈپلیٹ فارم فار ایکشن 1995 کے ساتھ ساتھ جنرل اسمبلی اور انسانی حقوق کونسل کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے ریاستوں کو کون کون سے اقدامات کرنے چاہئے تفصیل سے بتایا گیا ہے ۔

مگر بدقسمتی سے تمام ریاستوں نے دستخط تو کئے ہیں اور دکھاوے کے لئے کچھ قوانین بھی بنائے ہیں مگر عملی اقدامات کی صورتحال اس کے برعکس ہے ۔اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں بھی اس ایشو کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے ۔ sdgs کے گول نمبر 5 کے مطابق صنفی امتیاز کاخاتمہ اور برابری کی بنیاد پر مواقع پائیدار ترقی کے بنیادی اصول ہیں ۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین تشدد و استحصال کا شکار ہیں ۔

پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پرمشتمل ہے لیکن اس کے باوجود یہ طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے ۔جارج ٹاؤن انسٹیوٹ کے انڈیکس کے مطابق خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ بدترین ممالک میں ہوتا ہے ۔اس انڈیکس میں شام ،افغانستان اور یمن پاکستان سے پیچھے ہیں ۔ورلڈ اکنامک فورم کی ”گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018 کے مطابق پاکستان 149 ممالک کی فہرست میں 148 ویں درجے پر ہے ،صرف یمن کا نمبر149 واں ہے۔

گو کہ اس رپورٹ پر انسانی حقوق کی وزیر شیری مزاری نے تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر عالمی اداروں کی رپورٹس میں صنفی امتیاز و خواتین پر تشدد کے اعداد و شمار لمحہ فکریہ ہیں ۔پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پرقتل ودیگر مظالم کے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں مگربہت کم واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2018 کے دوران پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدداور غیر قانونی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق 620 خواتین اغوا کی گئیں اور ہزاروں واقعات بوجوہ رپورٹ ہی نہیں ہوئے ۔اسی طرح خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات اور گھریلو تشدد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو عموما شوہر یا قریبی عزیزوں کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 51 فیصد خواتین سائبر ورلڈ میں ہراساں ہونے کی وجہ سے ذہنی دباوٴکاشکار رہتی ہیں ۔

30 نومبر کو وومن ججز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالحسن نے بھی کہاتھا کہ خواتین اور بچے آن لائین ہراسگی کا شکار ہورہے ہیں ،ہراسمنٹ کا شکار خواتین کسی کوبتانے کی بجائے خاموش رہنا اور خودکشی کو ترجیح دیتی ہیں اس لئے خواتین کو سائبر کرائمز اور ان کے خلاف قوانین سے آگاہ کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔پاکستان میں عورتوں پر تشدد کی روک تھام کے لئے چند سالوں میں قوانین سازی کے حوالے سے صورتحال میں بہتری آئی ہے ۔

چند اہم قوانین میں ”کریمنل لاترمیمی ایکٹ 2016 میں ریپ کے متعلق سخت قوانین منظور کئیے گے اور کریمنل لا ترمیمی ایکٹ 2016 غیرت کے نام پر قتل کے متعلقہ قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں ۔پنجاب حکومت خواتین پر گھریلو تشدد ،تیزاب گردی اور انہیں غیرت کے نام پر قتل کئے جانے کے واقعات کے خلاف تحفظ نسواں جیسے بل بھی منظور کرواچکی ہے ۔اسی طرح سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2014 ،بلوچسستان گھریلو تشدد ایکٹ 2014 ، سندھ پروٹیکشن آف ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ 2013 موجود ہیں ۔

اس کے علاوہ 2006 ویمن پروٹیکشن ایکٹ ،کام کی جگہ پر ہراسمنٹ روکنے کا ایکٹ 2010 اور ایسڈ کنٹرول اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2011 بھی موجود ہے ۔کیا تشدد صرف قانون سازی سے ختم ہوجائے گا ؟ ان قوانین کے باوجود تشدد کے واقعات میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں ہورہا ہے یہ اہم سوال ہے ۔اصل مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے اور آگاہی کا نہ ہوناہے ۔

اسی طرح سالانہ ایک ہزار سے زائد بچیوں کے اغوا ہونے کے واقعات ہوئے ہیں ۔دیکھنا ہوگا کہ ایسے جرائم کی شرح کا موجودہ سماجی ڈھانچے اور رجحانات سے کیا تعلق ہے ؟ ان جرائم کے ارتکاب کے بڑے اسباب غربت ،بے روزگاری ،سماجی طور پر عزت اور غیرت کا تصور ،نوکریوں کے حوالے سے معاشرتی پابندیاں ،عدم مساوات ،زبردستی کی شادیاں ،انصاف کے نظام میں پائی جانے والی خامیاں ،انفرادی اخلاقی سطح پر خوداحتسابی کی کمی ،معاشرے میں موجود گھٹن اور محرومی کے احساس کو بھی جرائم کے اسباب کی فہرست سے خارج نہیں کیا جاسکتا ۔

26 نومبر کو گورنر ہاؤس لاہور میں یو این ویمن اور پنجاب حکومت کی جانب سے خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے ایک تقریب میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہاکہ موجودہ حکومت خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے ایسے اقدامات اٹھارہی ہے کہ ان واقعات میں بہت کمی آئی ہے گورنر پنجاب وحکومتی ترجمانوں کے دعوے اپنی جگہ مگر حقیقت بلکل اس کے برعکس ہے ۔اسی طرح ایک اور اہم مسئلہ دیہاتوں میں کام کرنے والی خواتین کے معاشی و سماجی استحصال کا بھی ہے ۔

پاکستان میں دیہاتی خواتین کی جائزہ رپورٹ 2018 کے مطابق 73 فیصد دیہاتی خواتین 12 ہزار سے بھی کم میں پورا مہینہ کام کرتی ہیں ۔ 82 فیصد دیہاتی خواتین کاشتکاری کرتی ہیں ،غلہ اگاتی ہیں اور52 فیصدجانوروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں مگر ان خواتین کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے اور یہ بہت کم اجرت کی وجہ سے ُبری زندگی گزارتی ہیں۔
اب ضرورت یہ ہے کہ ہمیں کئی پہلوؤں اور مختلف سطحوں پر کام کرنا ہوگا ۔

جس میں خواتین پر تشدد کے خلاف سخت قانون سازی ،اس پر عملدرآمد،فرسودہ رسم ورواج کاخاتمہ ،شادی میں مرضی کا حق،جہیزجیسی لعنت کا خاتمہ ،خواتین کومعاشی طور پر خودمختار بنانا،فیصلہ سازی میں خواتین کے کردار کوبڑھانا،سیاسی عمل میں انہیں شامل کرنا اور سب سے بڑھ کر آگاہی کے عمل کا موثر ہونا بھی انتہائی ضروری ہے ۔قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ جامع اور موثر اقدامات کے لئے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ انفراسٹرکچر کوبہتر بنائے تاکہ صنف کی بنیاد پر تشدد کے خلاف رائج انسانی حقوق کے قومی وعالمی نظام کے تحت اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرسکے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :