تاریخی اعتبار سے میرے آبائی شہر

جمعرات 8 جولائی 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

گوجرخان  کا نام مغلیہ دور حکومت میں اس علاقے میں بڑے پیمانے پر گجر قوم کی آبادکاری کے بعد " گوجرخان" رکھا کیا۔ یہ شہر سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت کے زیرِ حکمرانی بھی رہاہے۔یہاں پر سکھ اور ہندو آبادی کافی تعداد میں موجود تھی ، جن میں سے اکثریت نے اسلام قبول کرلیا ، اور باقی ماندہ غیرمسلم اقلیت قیام پاکستان کے وقت ہندوستان ہجرت کرگئے ۔

گوجرخان کو شہیدوں کی سرزمین بھی کہاجاتاہے ،  نشان حیدر کا اعزاز پانے والے کیپٹن راجہ محمد سرور شہید اور سوار محمد حسین شہید کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔  سابق وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف ،  سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی ، کرکٹر محمد عامر ،اور برطانوی نژاد پاکستانی باکسر عامر خان کا آبائی علاقہ گوجرخان ہی ہے۔

(جاری ہے)


گوجرخان اور اس کے گردونواح میں کچھ آثارِ قدیمہ بھی موجود ہیں ، جوکہ خطہ پوٹھوہار کا اہم تاریخی ورثہ ہیں ۔

ان میں قلعہ سنگھنی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔  سنگھنی قلعہ  گوجرخان سے 25 کلومیٹر مغرب میں "سوئی چیمیاں " میں واقع ہے۔ یہ قلعہ قیدیوں کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اسے مغلوں نے تعمیر کروایا تھا اور بعد میں اس پر کشمیر کے ڈوگروں اور سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
قلعے کے اندر حضرت عبدالحکیم رحمتہ اللہ کا مزار مبارک بھی موجود ہے۔

جب آپ عرب سے براستہ ایران تبلیغ اسلام کےلیے​ہندوستان تشریف لائے تواس وقت یہ علاقہ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے زیرِ تسلط تھا۔
گوجرخان ، ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے ۔ گوجرخان کو خطہ پوٹھوہار کا قلب بھی کہا جاتاہے۔ یہاں کے رہائشیوں کی مادری زبان " پوٹھوہاری" ہے ۔ گوجرخان نسبتاًایک عام سا ، چھوٹا اور ترقی پذیر شہر سمجھا جاتاہے ۔

البتہ حالیہ برسوں کے دوران شہر کے خدوخال میں کافی بہتری آئی ہے ۔ شہر کے انفراسٹرکچر ، اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سہولیات بہتر ہوئی ہیں ، جس میں نجی شعبے کا کردار خاصا اہمیت کا حامل ہے۔تاہم میری ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ گوجرخان شہر سے منسلک دیہی علاقوں کو بھی مثالی ترقی کا موقع ملے ، اور وہاں بھی بچوں کےلیے نئے اسکول اور صحت کے بنیادی مراکز قائم ہوں ۔

گوجرخان پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہے ، جس میں 33 یونین کونسلیں شامل ہیں ۔ اگر ان آبادیوں میں یکساں طورپرتعلیم اور صحت کی مثالی سہولیات مہیا کردی جائیں تو اس میں شک نہیں کہ گوجرخان کے دیہات ملک بھر کیلئے " ماڈل گاؤں" کے طورپر دیکھے جائیں گے۔ اس کےلیے حکومتی سرپرستی کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات کوبھی اپنے حصے کا کردار ضرور نبھانا چاہئے۔ گوجرخان شہر اور اس ملحقہ دیہات کا موازنہ اگر ملک کے دیگرپسماندہ علاقوں سے کیاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گوجرخان شہر اب خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکاہے ۔

البتہ ترقی کے سفر کی یہ محض شروعات ہیں ، ہمیں اپنی  ترجیحات​ میں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ میری یہ خواہش ہے کہ گوجرخان کو ضلع کا درجہ ملے ۔گوجرخان شہر اور ملحقہ دیہات کی کل آبادی کم و بیش آٹھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے ۔ لہذٰا گوجرخان میں ایک شاندار یونیورسٹی کے قیام کی اشد ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں گوجرخان کیلئے عوامی نمائندوں کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کےباعث رہائشی علاقوں کی صفائی ستھرائی ، کھیل کے میدانوں اور پارکوں کےقیام، پینے کے صاف پانی، سڑکوں کی تعمیر ومرمت  ، بجلی اور گیس کی سہولیات کی منصفانہ فراہمی میں رکاوٹیں درپیش رہی ہیں ، اور گوجرخان بھی انہی مسائل سے دوچار رہاہے، لہذٰا ان معاملات پر خاطرخواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :