دھواں!!!

ہفتہ 30 اکتوبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

تادم تحریر کالعدم تحریک لبیک پاکستان کا لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ لانگ مارچ اس لیے کیا جا رہا کیونکہ حکومت نے نہ تو ان کے مطالبات مانے اور نہ ہی پچھلے معاہدوں کی پاسداری کی ہے۔ لانگ مارچ کو روکنے کی کوشش میں مصروف پولیس اور مظاہرین میں ہونے والی جھڑپوں میں دونوں طرف سے پرتشدد کاروائیوں کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں ۔

  تشدد کے واقعات میں کئ لوگوں کی جانیں گئیں جوکہ افسوسناک ہے، مذہبی تنظیموں سے اپیل ہےکہ وہ پرامن رہیں ، صبروتحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں ، تاکہ ان کے خلاف منفی تاثر پیدا نہ ہو اور انہیں کالعدم قرار دینے کی نوبت نہ آئے ۔ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی اس طرح کے لانگ مارچ یا دھرنوں کی یہ چھٹی کوشش ہے۔

(جاری ہے)

اگر اس تمام تر کشیدہ صورتحال کے پس منظر کو دیکھاجائے تو اس برس اپریل میں جب TLP کے دھرنے کو ختم کروانے کے لیے وزارتِ مذہبی امور نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے پر راضی ہوئے تھے تو اس معاہدے پر یورپی یونین نےکڑی تنقید کی تھی۔ فرانس نے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا تھا جس پر پاکستان میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے نے زور پکڑا تھا۔

اس کے بعد یورپی پارلیمنٹ نے اپنی ایک قرارداد میں پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یورپی یونین کے رکن ممالک اور ان کے نمائندوں کا احترام کرنے اور پاکستان میں مقیم یورپی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے غیر مبہم عزم کا اظہار کرے بصورت دیگر پاکستان کو " جی ایس پی پلس اسٹیٹس" سے محروم کرنے کا عندیہ بھی دیاگیاتھا۔  دوسری جانب ٹی ایل پی نے جب اپنے مطالبات کے حق میں نئے سرے سے احتجاجی تحریک کو منظم کرناچاہا، تو ان کے رہنماء​ سعد حسین رضوی کو امن عامہ میں نقص ڈالنے کے الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا۔

جس کا پس منظر دراصل یہ تھا کہ حکومت کو  جون 2021میں فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کےلیے فرانس کے تعاون کی ضرورت تھی ، جوکہ تعاون حاصل نہ ہوسکا اور فرانس نے پاکستان کے حق ووٹ دینے سے گریز کیا ۔ اگر دیکھا جائے تو فیٹف کے اقدامات انتہائی جانبدارانہ ہوچکے ہیں ، گزشتہ دنوں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد کی پاداش میں برادر اسلامی ملک ترکی کو بھی گرے لسٹ کردیا گیا۔

 
 موجودہ لانگ مارچ اب فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ سعد رضوی کی رہائی کے لیے بھی ہے۔ اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت مجبور ہے کہ وہ کسی بھی طرح ٹی ایل پی کے اس لانگ مارچ اور دھرنے کو روکنے کی کوشش کرے۔ اس مقصد کےلیے حکومت نے رینجرز کا تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ مگر اس کے مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔

ایک جانب جہاں ٹی ایل پی اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیے لانگ مارچ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر رہی ہے وہیں حکومت اس لانگ مارچ کو ’ملک دشمن سازش‘ قرار دیتے ہوئے رینجرز کے نیم فوجی دستے تعینات کرنے جیسے اقدامات لے رہی ہے۔یہ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اگر رینجرز اور ٹی ایل پی کارکنوں میں خونریز تصادم ہوا تو کیا یہاں بھی لال مسجد کے خلاف کی گئی کارروائی جیسے اثرات مرتب ہوں گے۔

تاہم اس کے سنگین سیاسی مضمرات بھی ہوں گے۔ اور اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو ایک بڑا سیاسی دھچکا لگے گا اور اسے اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔پچھلی بار جب وہ سڑکوں پر نکلے تو حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ہٹانے سمیت کئی ناممکن کاموں کا وعدہ کر کے انھیں مطمئن کیا۔آج شیخ رشید نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے سفیر پاکستان میں نہیں ہیں، گویا وہ یہ تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ اگر سفیر یہاں ہوتے تو وہ انہیں ہٹا دیتے۔

سول حکومت کو چاہیے کہ وہ فوجی حکام پر زور دے کہ وہ اس مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں۔ ورنہ یہ ایک بار پھر ناکام ہو سکتا ہے۔ یہ ایک نازک موڑ ہے جسے سول حکومت خود نہیں سنبھال سکتی ، عوامی سطح پر بھی حکومتی دعوؤں پر عدم اعتماد کا تاثر فروغ پارہا ہے۔ اگر سول حکومت رینجرز کے ذریعے فوجی ذرائع اور وسائل استعمال کرنے کے فیصلے پر قائم رہتی ہے، اور فوج بطور ادارہ اس میں شامل نہیں ہوتی، تو یہ حالات مارشل لا کا بھی سبب بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے قابل قبول حل کی کوشش کرے۔ اغیار کو خوش کرنے کےلیے اپنے لوگوں پر حد سے زیادہ سختی مناسب نہیں ہے  ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :