تضادات

ہفتہ 13 نومبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

وزیراعظم پاکستان  عمران خان نے ترکی کے ٹی آر ٹی نیوزکو  انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ حکومت کالعدم تحریک طالبان  سے  مذاکرات کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس کے بعد  وقتاً فوقتاً مذاکراتی عمل پر پیشرفت کی خبریں   آتی رہیں ۔کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ یہ کوئی پہلی مرتبہ مذاکرات اور معاہدہ نہیں ہورہے بلکہ اس سے پہلے بھی لگ بھگ ایک درجن مرتبہ مذاکرات شروع کیے گئے اور چند ایک مرتبہ امن معاہدے بھی ہوئے لیکن یہ سب معاہدے ناکام رہے اور ان کے بعد فوجی آپریشنز کیے​گئے۔

تاہم  اس مرتبہ افغان طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن سراج الدین حقانی کا مصالحتی کردار بھی مذاکرات میں شامل ہے۔ اس مرتبہ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے ، اس کی تفصیلات بھی سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں ۔

(جاری ہے)

  حکومت نے کالعدم تنظیم سے مذاکرات کی تین شرائط رکھی ہیں، جن میں پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا، ہتھیار پھینکنا اور پاکستان کے شناختی کارڈ بنوانا یعنی اپنی شناخت ظاہر کرنا شامل ہے۔

اور مذاکراتی پیشکش کالعدم تنظیم کے تمام بارہ گروہوں کےلیے ہے۔ کل جنگجوؤں کی تعداد دو ہزار سے پچیس سو کے قریب بتائی جارہی ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے اہم نکات میں دونوں جانب سے کمیٹیوں کے قیام پر اتفاق ہوا ہے جو مذاکراتی عمل آگے بڑھائیں گی۔اطلاعات کے مطابق فریقین کی جانب سے ایک ماہ کی یعنی 9 نومبر سے 9 دسمبر تک فائر بندی ہو گی جس میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے یہ کہا جارہا ہےکہ اگر معاملات حکومتی شرائط کے مطابق طے نہ ہوسکے تو حکومت دہشتگردوں کے خاتمے کےلیے فوجی طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ ماضی میں بھی ایسے جتنے بھی معاہدے ہوئے ، ان پر کامیابی سے عملدرآمد نہیں ہوپایا۔ دہشتگرد عناصر نے ایسے معاہدوں کی آڑ میں مزید کچھ مہلت حاصل کرکے خود کو نئے سرے سے منظم کیا اور پھر حکومت پاکستان پر معاہدوں کی پاسداری نہ کرنے کا الزام عائد کرکے امن عمل سے راہ فرار اختیار کیے رکھی ۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو  ہمیشہ بھارت کی طرف سے مالی تعاون حاصل رہاہے ۔ یہ تنظیم برسوں سے پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کے خلاف دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے، ان حملوں میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ ان حملوں میں  16دسمبر 2014کو ہونے والا "سانحہ اے پی ایس پشاور" بھی شامل ہے ۔ اس روز آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشتگردوں کے حملے میں طلباء ، اساتذہ اور عملے کے اراکین سمیت  147افراد شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔  شہدائے اے پی ایس کے لواحقین آج بھی اس سانحے اصلی ذمہ داران کو سزا دلوانے کے متمنی ہیں ۔ ہم کیسے اتنی شہادتیں بھلا کر دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکتے ہیں ؟ اب جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سانحہ اے پی ایس پشاور کیس کا ازخود نوٹس لیا ہے ۔ بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے ۔

کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور انہیں پکڑنا ریاست کا کام نہیں ہے؟اسی مقدمے کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کو عدالت عظمیٰ میں طلب کیا گیا تو کہا کہ " ہمارے لیے کوئی مقدس گائے نہیں ہے ، عدالت ہمیں حکم دے تو ہم کسی کے خلاف بھی کارروائی اور مقدمہ درج کرسکتے ہیں "۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ اتنے برس بیت گئے ، مگر ہمارے اربابِ اختیار کو ایسا کرنے کا خیال نہیں آیا ، جب عدالت عظمیٰ نے استفسار کر ہی لیا تو اٹارنی جنرل نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں مگر اعلیٰ حکام کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی "۔

گویا وزیر اعظم اور اٹارنی جنرل کے مئوقف واضح طورپر تضاد موجود ہے ۔  بتایا جائے کہ اگر کوئی مقدس گائے نہیں ہے تو پھر اعلیٰ حکام سے بازپرس کیوں نہیں ہوسکتی؟؟؟ ایک طرف سانحہ اے پی ایس پشاور میں ملوث دہشتگردوں کو رعایتیں اور دوسری طرف شہدائے اے پی ایس کے ورثاء کو انصاف مہیا نہ ہونے کے جواز پیش کرنے کے سوا اربابِ اختیار کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کےلیے کچھ بھی نہیں ہے۔ چونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے ، لہذٰا حکومت کو   کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پارلیمان کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :