جرم ضعیفی

جمعہ 17 اپریل 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

کوووڈ 19 کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ بھارت کا مسلمانوں پر ظلم کا پہرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے بھارت کو مسلمانوں کے لیے ظلم کا بازار گرم کرنے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بغیر وجہ کے بھی وہ اپنی تعصب پسندانہ سوچ کو تسکین دینے کے لیے بے گناہوں کے خون سے اپنے تعصب کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اب تو ان کو ایک بہانہ بھی مل گیاجس کی آڑ میں وہ سسکتی انسانیت کو اور سسکا اور تڑپا رہے ہیں ایک طرف تو بھارت کرونا وائرس کی آڑ لیکر مسلمانوں پر حملے کر رہا ہے اور دوسری طرف بھارتی میڈیا اسی وائرس کی آڑ میں مسلمانوں پر تنقید کر کے اپنے بغض کو باہر نکال رہا ہے کہیں تبلیغی جماعت والوں کو کرونا کی آڑ لیکر مارا پیٹا اور موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور کہیں ہسپتالوں میں بھی مسلمان مریضوں کو مذہبی منافرت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے دنیا بھر کو مرتی و سسکتی ہوئی انسانیت کا درد تو تڑپاتا ہے لیکن مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کسی کے دل کو چوٹ نہیں پہنچاتے عالمی میڈیا پر عالمی وائرس کا شکار ممالک اور آبادی ہی تقریریں اور تجزیے کیے جا رہے ہیں اور اس وائرس کے تدارک پر سوچ و بچار کی جا رہی ہے لیکن ظلم کا وائرس آج بھی زندہ ہے لوگوں کو وائرس سے بچنے کے لیے اجتماعی و انفرادی توبہ تو یاد آ گئی مگر ظلم کا شکارمسلمانوں کی کربناک آہیں اور تڑپتی التجائیں اب بھی کسی کو سنائی نہیں دے رہیں اس عالمی وائرس نے لوگوں کو خدا کی یاد دلا دی لیکن سسکتی امت مسلمہ کی تکلیف اب بھی یاد نہ آئی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ یورپ و امریکہ میں کرونا وائرس سے مرنے والوں پہ ابتداءِ اظہار افسوس کرتے ہوئے اٹلی و سپین میں وائرس کی بگڑتی ہوئی صورتحال پہ اختتام کرتے ہیں لیکن کشمیر و فلسطین میں ظلم کے وائرس سے مرتے لوگ میڈیا ذرائع کی پہنچ سے باہر ہیں سالہا سالوں سے لاک ڈاؤن کا شکار ان دکھی مسلمانوں کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا کہ جب انہیں بھوک لگتی ہو گی انہیں ضروریات زندگی کے حصول کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہو گا تو ظالموں کی ایک گولی ان کی ہر ضرورت کو ختم کر کے ابدی نیند سلا دیتی ہو گی وہ جن تک کبھی کوئی خوراک اور راشن کا تھیلا لے کر نہیں پہنچا ان کو خود ہی اپنی مدد آپ کے تحت اپنے عزیزوں کی ضروریات زندگی کوپورا کرنے کے لیے گولیوں کی بوچھاڑ میں گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور اس سمے انہیں مرنے کا ڈر بھی نہیں ہوتا کیونکہ دل و دماغ پر انہیں بھوک سے نیم جان پیاروں تک خوراک کے چند ٹکڑے پہنچانے کی لگن سوار ہوتی ہے کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت کی کہ وہ اگر بھوک سے نہ مریں تو گولی سے مر جاتے ہیں اور گولی سے بچ نکلیں تو بھوک سسکا سسکا کر مار دیتی ہے کشمیر و فلسطین میں بہتر سالوں سے جاری آزادی کی جنگ میں لاکھوں مسلمان شہادت ہو گئے لیکن ان لاکھوں لوگوں کی شہادت اور ان پہ ہونے والا ظلم کسی کو جگا نہ سکا بوسنیا، چیچنیا،عراق،شام، افغانستان، یمن، اردن ،مصر، لیبیا، تیونس، مراکش، فلسطین، برما، مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اور مسلمان ممالک ایک بڑی اور مضبوط تعداد کے ہوتے ہوئے بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں بلکہ کچھ کرنا تو کجا اکثریت میں تو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی اخلاقی جرات کا بھی بے حد فقدان ہے فلسطین میں 2008 سے لے کر اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمان ظلم کا شکار ہو کر شہید ہوچکے صرف گذشتہ سال میں فلسطین کے 348 مسلمانوں کو گولیوں سے شکار کیا گیا کشمیر میں 72 سالوں سے جاری آزادی کی جنگ میں اب تک بھارتی فورسز کے ہاتھوں 95,475 کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ 158399 افراد کو دوران حراست بے رحمی سے مار دیا گیابھارتی فوج کے ہاتھوں 11175 کشمیری خواتین کی عزتوں کو پامال کیا گیااور 10298کشمیریوں کو بیلٹ گنوں سیس زخمی کیا گیاشام میں 9 سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں بچوں اور عورتوں کی لاشیں بکھیر دی گئیں جس کی وجہ سے 50 لاکھ سے زائد لوگ وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے میانمار میں چار لاکھ سے زائد مسلمان ا ب بھی سنگین پابندیوں کا شکار ہیں روہنگیا کے سات لاکھ سے زائد مسلمان ظلم دے بچنے کے لیے بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں اور یہ صرف اعداد و شمار نہیں خون سے لکھی ہوئی تاریخ ہے جسے آنسوؤں کی سیاہی کے ساتھ تحریر کیا جاتا ہے یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو ہر نئی گھڑی کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں لیکن کسی میڈیا ذرائع کوان تمام اعداد و شمار اور ظلم کی سرخ داستانوں سے کوئی سروکار نہیں کوئی دن نہیں گزرتا جب مسلمانوں کی کسی آبادی میں ظلم و ستم کی نئی داستان رقم نہ ہوتی ہو لیکن انسانیت کے علمبرداروں کی آنکھیں مسلمانوں پر ہوتے مظالم کو دیکھنے کے لیے اندھی اورکان ان مظالم کو سننے سے بہرے ہو جاتے ہیں انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے لیکن انسانیت کی زبان ایک ایسی زبان ہے جسے آج بھی تمام دنیا والے مذہب کی زبان سے پڑھتے ہیں سوائے مسلمانوں کے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں غیروں کی خاموش اتنا نہیں چبھتی جتنا اپنوں کی لاپرواہی دکھ پہنچاتی ہے ظلم کی چکی میں پستے مسلمان ممالک کے لیے اپنے برادر اسلامی ممالک تک کچھ کرنے سے قاصر ہیں اسلامی دنیا کی طاقتور ہستیاں بھی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی آنکھوں میں سسکتی رحم کی اپیل کو پڑھ نہیں پاتیں ایک طرف تو مسلمانوں پر ظلم کی داستانوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف تمام مسلمان ممالک مظلوموں کی آواز بننے کی بجائے ان ظالم ممالک کے ساتھ اپنے معاشی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو دن بدن مضبوط کر رہے ہیں
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
 اپنوں کی مجرمانہ خاموشی کے باعث ظلم سہتے مسلمانوں کی لاچاری و بے بسی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور وہ ہر روز اپنے خالق و مالک سے شکوہ کرتے ہیں کہ کیا ان کا کوئی پرسان حال نہیں اور جن کا کوئی پرسان حال نہ ہو ان کا اللہ ہوتا ہے سورہ حج کی آیت نمبر 45 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
''پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا''
 آج ہم غور کریں تو صرف مسلمانوں کو لاک ڈاؤن کا شکار کرنے والے ہی بے بس نہیں ہیں ہم بھی اپنی خاموشی کے باعث اس وباء کے ہاتھوں ان کی طرح ہی بے بس ہیں جنہوں نے ظلم و ستم کیے ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ دوسروں سے عبرت نہ پکڑنے والوں کو ایسے عبرت دلائی جاتی ہے اوراب ہمیں عبرت پکڑتے ہوئے واقعی جاگ جانا چاہیے ورنہ شاید ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیا جائے گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :