ملٹری کورٹس کی تشکیل میں توسیع ۔۔ملک و قوم کی ضرورت

ہفتہ 2 فروری 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

وطن عزیز میں دو اہم ایشوز جن کا تعلق بالواسطہ طور پر ملک و ملت کے وقار،عزت و آبرو،تحریم و تکریم ،ترقی و خوشحالی ،استحکام و سالمیّت اور روشن مستقبل سے ہے لیکن سانحہ ساہیوال کی دردناک اور المناک روداد کی وجہ سے یہ دونوں موضوع پش منظر میں چلے گئے ہیں ان میں کرپشن،بددیانتی اور ملٹری کورٹس کی تشکیل میں توسیع کا معاملہ ہے مگر ہم پہلے ملٹری کورٹس کی تشکیل کے معاملے کو زیربحث لائیں گے لیکن اس سے پہلے میں پاکستانی قوم کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جس نے اپنے سیاسی،نظریاتی،گروہی،علاقائی اور قبائلی اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بن کر جس طرح اس ظلم و ستم اور وحشت و بربرییّت کی پرزور مذمت کی احتجاج کیا اور من حیث القوم عہد حاضر کے حکمرانوں کو پیغام دیا کہ اگر تم نے سابقہ عہد ملوکیّت یا ادوار ستم کی شرمناک اور گھناؤنی روایات کو جاری رکھ کر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی اور ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا تو تمہارے تبدیلی کی دعوے اور وعدے کا جنازہ قوم اس اندازسے نکالے گی کہ پاکستان کی جمہوری تاریخ بھی دنگ رہ جائے گی کہ قو م متحد ہو کر کیسے حاکموں کا احتساب کرتی ہے۔

(جاری ہے)


اب ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی جانب (یعنی) ،، ملٹری کورٹس کی تشکیل میں توسیع۔ملک و ملّت کی ضرورت۔۔فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملے پر محتکف سیاسی جماعتوں کا رد عمل سامنے آ چکا ہے پہلے پیپلز پارٹی نے کراچی میں منعقدہ اپنے اجلاس میں کہا کہ پی پی پی فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ یہ جمہوری اقدار کے منافی ہے اس کے بعد مسلم لیگ ن کے راہنماسابق وزیراعظم شہد خاقان عباسی صاحب نے کہا کہ مسلم لیگ ن فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے حق میں نہیں فوجی عدالتوں کی پاکستان میں کوئی ضرورت نہیں جناب چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ صاحب نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے اعزاز میں دیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے بارے میں کہا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سولین لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے جاتے ہوں تاہم پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سمیت بہت سے قومی راہنما ایسے بھی ہیں جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے ملک میں امن و امان کو بہتر بنانے میں کافی مدد ملی ہے ایسے میں لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو فوجی عدالتوں کے بارے میں بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے میں دقّت پیش آ سکتی ہے اس بات سے قطع نظر کہ حکومت کیسے اور کس طرح وجود میں آئی پارلیمنٹ میں اس کے پاس عددی اکثریّت کتنی ہے اگر حکومت واقعی اس مسئلے پر سنجیدہ ہے تو وہ دوسری پارٹیوں سے دائیلاگ کرے ان کو قائل کرے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کیوں ضروری ہے ان فوجی عدالتوں سے ملک و قوم کو کیا فائدہوا معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ملکی سلامتی کو کد قدر استحکام اور دوام ملا ۔


مجھے اس سے غرض نہیں کہ فلاں سیاسی جماعت کا بیانیہ فوجی عدالتوں کے بارے میں اور دوسری سیاسی جماعت اور راہنماؤں کا نظریہ کیا ہے اس لئے میں یہاں عوامی نظریے کی بات کروں گا کہ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع پر قوم کیا سوچ اور فکر رکھتی ہے کیونکہ قوم کو سیاست سے دلچسپی ہے نہ سیاستدانوں کی سیاسی چالوں سے ان کو کچھ لینا دینا ہے اور نہ سیاسی راہنماؤں کے بیانات سے کوئی سروکار ہے کہ سیاستدان کیا ارشاد فرماتے ہیں اور نہ ہی ان کواس سے کوئی لگاؤ ہے کہ کون سی سیاسی جماعت اس کی مخالفت کیوں اور کس لئے کر رہی ہے اور کون سا سیاسی گروہ اس کی حمایت پر کیوں آمادہ نظر آ رہا ہے ان کو غرض ہے تو اس پاک وطن سے جہاں ان کی نسلوں نے پروان چڑھنا ہے اپنی زندگیاں بتانی ہیں ان کو غرض ہے اس دھرتی سے جس کی خاطر ان کے اسلاف نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ان کو سروکار ہے ا س مٹی سے جس پر مرنا اور اس میں دفن ہونا ان کی آخری خواہش ہے اور جس کو وہ گنج دوعالم سے گراں مانتے ہیں ان کا نظریہ یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع ہر حال میں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ملک و ملّت کے بہترین مفاد میں ہے اپنی پیاری قوم کا ادنیٰ سا فرد ہونے کے ناطے میں اپنی قوم کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کروں گا ان کی سوچ و فکر کو قلم کے ذریعے بیان کروں گا نہ کہ ان لوگوں جو پارلیمنٹ میں تو ان کے ووٹوں سے پہنچتے ہیں لیکن وہاں جاکر ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کو گناہ عظیم تصّور کرتے ہیں جن کے پیش نظر سیاسی و جماعتی مفادت قوم مفادات سے زیادہ مقدم بن جاتے ہیں ۔


ہمارا پہلے چیف جسٹس آف پاکستا ن جناب سعید کھوسہ صاحب سے معصومانہ سا سوال ہے کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں عدالتیں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرنے والے قاتلوں اوردہشت گردوں کو ان کی دہشت اور خوف سے رہا کر دیتی ہیں کیا عدل و انصاف کے داعی مجرموں کا کیس سننے سے اس لئے انکار کر دیتے ہیں کہ کوئی دہشت گرد گروہ ان کی فیملی کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے یہ جانتے ہوئے کہ یہ مجرم ہے اور اس نے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے اس بنا پر محرم بن جاتا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے جانب سے تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ان قاتلوں کے خلاف گواہی نہیں دے سکا۔


دنیا میں ترقی یافتہ اور حقوق انسانی کے علمبردار بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں قومی سلامتی سے کھلواڑ کرنے ،عوام سے ان کی زندگیوں کو چھیننے والوں اور ملکی معیّشت کو تہس نہس کرنے والوں کو ایسی عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں کہ جس کو دیکھ کر بدی کے سرخیل ،،ابلیس،،کی بھی روح کانپ جاتی ہے وہاں نہ کسی قانون کو مدنظر رکھا جاتا ہے نہ کسی آئینی شق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اگر کوئی ملکی قانون اور آئینی شقوں کی تشریح کرنا چاہے تو اس کو جواب ملتا ہے کہ جب انسانی درندے معصوم لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں ان سے جینے کا حق چھینتے ہیں قوم معیشت کو تباہ و برباد کرتے ہیں تو یہ کونسے اخلاقی اور انسانی اقداراور اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں لہذاجیسا انہوں نے کیا ویسا ہی ان کے ساتھ ہو گامگر ہمارے پیارے دیس میں تو ان دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر اسلام کے نا م لیواؤں کا اس انداز سے قتل عام کیا کہ انسانیّت بھی شرمشار ہوگئی معصوم بچوں ،بے گناہ عورتوں اور سرراہ چلتے لوگوں کا اس پیارے دین کے نام پر قتل عام ہوا جس میں ایک مسلمان کی جان و مال کو حرمت کعبہ سے زیادہ مقدم جاناگیا ہے اور آپ فرما رہے ہیں کہ سویلین مجرموں کے لئے فوجی عدالتیں نہیں ہونی چاہییں۔

جناب چیف جسٹس صاحب قوم تو یہ چاہتی ہے کہ انسانوں کے لبادے میں چھپے ایسے بھیڑیوں کے لئے ایسا قانون ہونا چاہیے کہ ان کو سرعام لٹکایا جائے اور یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکنا چاہیے جب تک ان کی نسل معدوم نہ ہو جائے۔
قوم پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے پوچھتی ہے کہ آپ کیوں اور کس لئے ملٹری کورٹس کی تشکیل میں توسیع کے خلاف ہیں فوجی عدالتوں کی توسیع سے جمہوریّت کو کیا خطرہ لاحق ہے ملک و ملّت کو کیا خسارہ ہے اگر جمہور اور جمہوریّت کو ان عدالتوں سے کوئی نقصان ہے تو آپ قوم کو بتائیں اور اگر آپ سیاسی سکورنگ کے لئے ان عدالتوں کی مخالفت کر رہے ہیں تو یہ ملک و قوم کے ساتھ آپ بہت بڑی زیادتی کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔


کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ان فوجی عدالتوں کی وجہ سے وطن عزیز میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام پیدا ہوا قوم میں عدم تحفظ کا احساس ختم ہوا ملکی سلامتی اور بقاء پر چھائے منحوس سائے ختم ہوئے وطن عزیز کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات ملی مارکیٹوں ،پارکوں اور قہوہ خانوں کی رونقیں بحال ہوئیں کیا ان فوجی عدالتوں کے خوف اور رینجرز کی کاروائیوں سے کراچی کی رونقیں پھر سے نہیں لوٹ آئیں کیا شہر قائد میں بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ،قتل و غارت گری اور غنڈہ گردی کے راج کا خاتمہ نہیں ہواکیا قوم کو افسردگی اور مایوسی سے نجات نہیں ملی جو ہر روز کے بم دھماکوں اور دہشت پسندانہ کاروائیوں سے ان کے چہروں پر چھائی ہوئی تھی کیا پاک وطن کی نظریاتی اساس کو استحکام نصیب نہیں ہوا جن ملک دشمنوں نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر بلوچستان میں بلوچی بھائیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا رکھا تھا کیا ان دہشت پسندوں کی ظالمانہ اور سفّاکانہ کاروائیوں سے بلوچی بھائی محفوظ نہیں ہوئے اگر یہ سب کچھ سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے توعوام اپنے سیاسی راہنماؤں سے پوچھنے کا یہ حق ضروررکھتی ہے کہ پھر کیوں اور کس لئے ملٹری کورٹس کی توسیع کی مخالفت کی جارہی ہے ۔


اگر آپ بھول رہے ہیں تو ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں ۔کیونکہ
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
دہشت گردی کے خلاف جاری بائیس سالہ جنگ میں میری قوم کے ستّر ہزار لوگ موت کی وادی میں چلے گئے راہ نجات سے لیکرجاری ردّ الفساد میں میری پاک فوج کے بارہ ہزار جوان رتبہ شہادت پر فائز ہوئے میرے وطن کی معیشت کو ان دہشت گردوں نے اس قدر نقصان پہنچایا کہ اس کو بحال ہونے میں وقت لگے گا میری قوم کی حیات۔

۔بی بی شہید ۔۔کو اس سے چھین لیا گیا جو ہمارے پیارے پاکستان کا روشن اور مسکراتا چہرہ تھیں16 دسمبر 2014 کوان دہشت گردوں نے میری دھرتی پر قیامت سے پہلے قیامت بپاکردی ،،ممبران شوریٰ ابلیس ،،نے وحشتّ و بربریّت کا ایسا خوفناک کھیل کھیلا کہ زمین لرز گئی اور آسمان رو پڑا۔
تم شہر اماں کے رہنے والو درد ہمارا کیا جانو
ساحل کی ہو تم موج صباء طوفان کا دھارا کیا جانو
سمجھیں ہیں جسے گلزار سبھی اک آگ ہے عصرِحاضر کی
تمہید سے تم گزرے ہی نہیں اب قصّہ سارا کیا جانو
ہماری سیاسی جماعتوں اور قومی لیڈروں سے التماس ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے بہتر مفاد میں فیصلے کریں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے اس کو انجام تک پہنچانا فوج کی ہی نہیں بلکہ،عدلیہ ،پارلیمنٹ ،حکومت اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے ۔


سیاسی لیڈروں کے یہ بات بھی پیش نظر ہونی چاہیے کہ کہیں فوجی عدالتوں میں توسیع نہ ہونے سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند تو نہیں ہونگے ان کو پھر سے اپنی ظالمانہ کاروائیوں کو پھر سے شروع کرنے کی ترغیب تو نہیں ملے کیا ہماری عدالتوں میں اس قدر سکت اور حوصلہ ہے کہ وہ بلا خوف و دہشت ان درندوں کو پھانسی پر لٹکا سکے جن کے شر سے نہ مسجدیں محفوظ تھیں نہ امام بارگاہیں سلامت ،نہ مندروں میں رونقیں تھیں نہ گرجا گھروں میں چہل پہل،جن کی سفّا کانہ کاروائیوں سے درس گاہوں کی فضائیں چیخوں ،آہوں اور سسکیوں میں بدلیں، خانقاہیں اور بارگاہیں عقیدت مندوں کے خون سے سرخ ہو ئیں ۔

لیکن عدلیہ کے نامہ اعمال میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کوئی دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچا ہو یا کسی انتہاء پسند کی گردن لمبی ہوئی ہو۔۔۔
اے قاضی وقت اس بار دغا نہ کرنا
میرے قاتل کو تم پھر سے رہا نہ کرنا
معجزہ ہے کہ زندہ ہوں میں پر حق کو مار دیا اس نے
یہ جو گھاؤ ہے میرے بدن پر اس پر گہرا وار کیا ہے اس نے
دن دیہاڑے خنجر چلا کر قانون کو دھتکار دیا اس نے
آنکھوں کی دہشت سے عدالت کو بازار کیا ہے اس نے
اے قاضی وقت اس بار دغا نہ کرنا
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجرجنرل جناب آصف غفور نے کہا ہے کہ فوج کی خواہش نہیں کہ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی جائے پارلیمنٹ چاہے تو یہ ذمہ داری ہم کو دے اگر نہ چاہے تو نہ دے میجر جنرل صاحب آپ کی بات بجا ہے کہ فوج کی خواہش نہیں مگر قوم کی تو خواہش ہے کہ ملٹری کورٹس کی تشکیل میں توسیع کی جائے۔

کیونکہ قوم کا ایمان ہے کہ جتنا پیار اس دیس سے دیس کے باسیوں کو ہے اس سے زیادہ محبت اس مٹی سے ہمارے جوانوں کو ہے جو ملک و ملّت کی خاطر جان نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
پاک فوج زندہ باد۔۔پاکستان پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :