بھارت کی سفاکیت اور ہم

جمعہ 22 فروری 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

راقم الحروف ،جس جگہ موجود تھا،آج یہاں جشن کا سماں تھا۔ یہ شہر کا خوبصورت فٹنس سنٹر تھا اور کئی دن سے پاکستان کی لگاتار شکست کے بعد ، لوگوں کی ایل ای ڈی پر لگے میچ پر سے توجہ ہٹ گئی تھی۔یہ ویسٹ انڈیز اور بھارت کے مابین ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کا سیمی فائنل تھا، بھارت کا ایک کھلاڑی پورے ایونٹ میں ٹیم کو یہاں تک لے آیا تھا اور اس نے اس میچ میں بھی 193 رنز کا حدف دینے میں اچھا خاصہ حصہ ڈالا تھا، لگ یہی رہا تھا کہ یہ میچ بھی بھارت جیت جائے گا۔

یہ وہ جگہ تھی جہاں ہر شکست کا ذمہ دار آفریدی کو مانا جاتا تھا مگر اندر اندر سب جانتے تھے کہ یہ کہانی آج سے شروع نہیں ہوئی اور نہ ہی اس قدر پستی کا آفریدی اکیلا ذمہ دار ہے ، یہ کہانی تو سری لنکن ٹیم پر حملے اور پاکستانی کھلاڑیوں جن میں ماضی کے شعیب اختر سمیت، محمد عامر،سلمان بٹ ، محمد آصف اور کئی دیگر کھلاڑیوں کا آئی سی سی ( انڈین کرکٹ کونسل) کے ذریعے کیرئیر تباہی سے چلتی آرہی ہے۔

(جاری ہے)

پوری دنیا کے سب سے بڑے جواری بھارت سے تعلق رکھتے ہیں اور کس طرح زن اور دھن کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل لیول کی سیاست کے ذریعے بھارت نے بالخصوص پاکستان کی کرکٹ کی کمر توڑی ہے ،اس کا سب کو دل میں پتہ ہے، غصہ ضرور آفریدی پر نکلتا ہے۔ ویسٹ انڈیز نے جب انڈیا کی درگت بنانا شروع کی تو ایک ہجوم تھا جو ایل ای ڈیز کے سا منے اکٹھا ہوتا چلا گیا، سب چیخ چیخ کر ویسٹ انڈیز کی جیت کے لیے دعائیں کرنے لگے اور جب کالی آندھی نے اپنی بسات سمیٹ لی تو بھنگڑے ڈالے جانے لگے۔

گھر کی جانب گامزن تھا تو کراچی سے ایک دوست کا میسج ملا کہ آج پورے کراچی میں جشن ہے،میں باہر بازار میں میچ دیکھ رہا تھا، آخر اوور چل رہا تھا کہ لائٹ چلی گئی،پورے بازار میں یو پی ایس پر صرف ایک دکان کا ٹی وی چل رہا تھا، وہاں ایک دم ہجوم اکٹھا ہوگیا اور پھر جب بھارت کو شکست ہوئی تو ایسا شور تھا کہ جیسے پاکستان جیت گیا ہو۔ ہم بطور پاکستانی جتنا مرضی خود کو حالات سے ناواقف کرلیں، مگر ہم دل میں اس بات سے باخبر ہیں کہ بھارت نے ہمارے کرکٹ کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اور جو دشمن ایک کھیل کی تباہی کے لیے اس حد تک جاسکتا ہے ،وہ ہماری ملکی سالمیت کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہوگا،اس کا بھی خوب اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ہم جتنا مرضی دیگر ممالک کو بھارت کو شکست دیتا دیکھ کر خوش ہولیں ، حقیقت یہی ہے کہ ہماری فرقہ واریت، ہماری انتہا پسندانہ سوچ، ہماری صوبائیت، لسانیت، اقتدار کی چھینا جھپٹی اور جہالت نے ہمارے دشمن کو ہمیں ہر محاذ پر بدترین نقصان پہنچانے کے بھرپور مواقع فراہم کر رکھے ہیں۔
یہ 11 اپریل 1952ء کو بھارت کے قصبے ہریانہ میں پیدا ہونے والے ’روندرا کوشک‘ کی کہانی ہے۔

روندرا ایک بہترین تھیٹر آرٹسٹ تھا۔ یہ روپ بدلنے میں اپنی عظیم مہارت کی وجہ سے لکھنوء نیشنل ڈرامیٹک مقابلہ جیتا اور یہاں سے اس کی بدقسمتی کا آغاز ہوگیا۔روندرا 23 سال کا تھا کہ اسے بھارتی خفیہ ایجنسی را(RAW) نے بھاری پیش کش کے بعد 1975 ء میں اسے پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے پاکستان بھیج دیا۔اس سے پہلے روندرا کو دو سال دہلی میں سخت ٹریننگ دی گئی،اس کی شناخت مکمل مسلمان بنائی گئی،اسے اردو اور پنجابی زبان میں مہارت کے ساتھ ساتھ باقی تمام عمر پاکستان میں بسر کرنے کے لیے مکمل تیار کیا گیا۔

نبی احمد شاکر کے نام سے روندرا پاکستان میں سول کلرک بھرتی ہوا اور پھر دفاعی اداروں کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں بطور کلرک بھرتی ہوگیا۔ روندرا نے امانت نام کی لڑکی سے شادی کی،جو وردیاں سینے والے درزی کی بیٹی تھی اور امانت سے اس کا ایک بیٹا پیدا ہوا۔1979 ء سے 1983ء تک روندرا نے انتہائی اہم معلومات بھارت ایجنسی را تک منتقل کیں۔ ستمبر 1983ء میں رانے ایک اور شخص عنایت مسیح کو روندرا کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پاکستان بھیجا ،عنایت مسیح کی شناخت شدید متنازع ہونے کے باعث یہ شخص جلد پکڑا گیا اور یوں روندرا کی پکڑ میں آگیا۔

روندرا کو دو سال سیالکوٹ جیل میں رکھا گیا اور 1985ء میں اسے سزائے موت سنا دی گئی۔بھارتی ایجنسی را اس طرح کے کئی سیل کئی سالوں سے پاکستان میں بھیجتی آرہی ہے اور جب یہ سیل پکڑے جاتے ہیں تو ایجنسی ان کو ڈیڈ سیل کا نام دے کر ،ان کو ماننے سے انکار کردیتی ہے اور پھر یہ جیلوں میں سڑ کر مر جاتے ہیں۔ روندرا 16 سال کوٹ لکھپت ، میانوالی اور سیالکوٹ کے جیلوں میں سڑتا رہا اور اسے وہیں ٹی بی اور دمے کا مرض لاحق ہوگیا۔

26 جولائی ، 1999 ء کو ملتان کے سینٹرل جیل میں روندرا طبعی موت مرگیا اور اسی جیل کے پچھواڑے ایک قبرستان میں اسے دفن کردیا گیا۔ راقم الحروف ، کو جب معلوم ہوا کہ سلمان اور کترینہ کی مشہور بھارتی فلم ’ ایک تھا ٹائیگر‘ کا حقیقی کردار اس کے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر دفن ہے تو دل چاہا کہ ایک بار ملک دشمن اس ڈیڈ سیل کی قبر دیکھی جائے ،کہ جس کو اس کے ملک نے ہمارے خلاف استعمال کرکے یوں لاوارث چھوڑ دیا۔

یہ قبر ایک گمنام قبر تھی۔یہ ملک دشمن کی قبر تھی، جس نے اپنی تمام زندگی ایک ایسی زمین پر گزار دی کہ جس کی تباہی اور بربادی کے لیے اس ایک ایسے ملک نے بھیجا تھا ،جس نے اسے اپنا ماننے سے انکار کردیا۔کچھ ایسی ہی کہانی لاہور اور فیصل آباد بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ مشہور را ایجنٹ سربجیت سنگھ کی بھی ہے اور اس طرح کے کئی گمنام نام ہم میں گھل مل کر رہ رہے ہیں اور بھارت کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں ملوث ہیں۔

ایسا ہی ایک نام کلبھوشن یادیو کا بھی ہے کہ جسے حال ہی میں بلوچستان اور کراچی میں پاکستان کے خلاف سرگرمیوں پر حراست میں لیا گیا۔ کلبھوشن یادیو بھارتی نیول افسر ہے ،جسے 2003ء میں ایران کے ذریعے بلوچستان تک رسائی حاصل ہوئی ۔ کلبھوشن کا کام پاکستان چائنا تعلقات میں خرابی پیدا کرنا، بلوچستان میں موجود شورش پھیلانے والی تنظیموں کی مالی معاونت کرنا اور گوادر اور کراچی بندرگاہوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کراچی اور پورے میں ملک میں بدترین دہشت گردی کے واقعات کے لیے انسانی سمگلنگ کرنا تھا۔

اس قدر سنگین انکشافات کے باوجود ہماری حکومت کا بھارت کی طرف کی رویہ دیکھ کر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
 ویسٹ انڈیز سے بھارت کی شکست کے بعد جس طرح کا جشن پاکستان اور بنگلہ دیش میں منایا گیا اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ ہماری عوام ، کرکٹ کی تباہی میں بھارت کے کردار سے بخوبی واقف ہے۔ مگر لاہور اقبال پارک میں ہونے والے بم دھماکے کے باجود اسلام آباد میں دھرنے کی موجودگی ،افسوس ناک تک اس بات کا ثبوت تھی کہ ہم اپنے دشمن کی سفاکی جانتے ہوئے بھی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے بیج بونے سے باز نہیں آتے۔

راقم کا ماننا یہی ہے کہ اس ملک میں آج تک جتنی بھی دہشت گرد ی ہوئی ہے،اس میں جس طرح بھی ہمارے دفاع اداروں، ہمارے سکولوں،ہمارے کھیل کے میدانوں، ہماری مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ،ان سب میں بھارت کا بدترین ہاتھ شامل ہے۔ بھارت پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد Under Cover ہر محاذ پر پاکستان کی سالمیت کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں روندرا، سربجیت اور کلبھوشن جیسے ان گنت کردار آج ہماری صفوں میں گھس بیٹھے ہیں۔

یہ کاروائی چونکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ،اس لیے ہم ان چہروں کو پہچاننے سے قاصر ہیں،یہی وجہ ہے کہ ملک کی کئی نامی گرامی شخصیات پر بھی کلبھوشن جیسی کاروائیوں کے الزامات کی تحقیق ضروری ہوگئی ہے۔ پاکستانی طالبان اور ان جیسے کئی نوٹنکی چہرے اصل میں روندرا کا روپ ہیں، ورنہ یہ بات تو ہر مسلمان کو سمجھ آتی ہے کہ مسجد ، پارک اور سکول میں بیٹھے معصوموں کو شہید کرنے والے کو جہنم کی بدترین منازل تو مل سکتیں ہیں، جنت نہیں۔

کاش ویسٹ انڈیز کی دی ہوئی شکست کرکٹ سے نکل کر ہر محاذ پر عوام کے سامنے آجائے اور ہم اس دشمن کے اصل چہرے سلمان خان او ر کترینہ کی بجائے روندرا اور کلبھوشن کے روپ میں پہچاننے کے اہل ہوجائیں ۔ تب ہم اپنی صفوں سے فرقہ واریت، منافرت، صوبائیت، لسانیت ، مذہبی انتہا پسندی پھیلاتے ان را ایجنٹوں کو سیل سے ڈیڈ سیل میں تبدیل کر نے کے اہل ہوجائیں گے،اور ان کے ٹائیگر صرف فلموں کی حد تک محدود ہوکر روندرا کی کسی گمان قبر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :