کینگرو قومیں اور خرگوش

پیر 22 جولائی 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

رات کے آخری پہر میں گھر کی بالکونی پر کامیاب قوموں کی کہانی کی داستانیں پڑھنے لگا، یہ گھر کا وہ گوشہ ہے جہاں مجھے مکمل سکون ملتا ہے، موسم رومانوی تھا،ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی اور یہ سب پڑھتے لطف آنے لگا۔ یہ قومیں نسل، رنگ، فرقہ واریت،لسانیت سے پاک ترقی کرتی گئیں اور آج ان کا دنیا پر راج تھا۔ ان کے پاس ایسا کیا فارمولہ تھا کہ انہوں نے چند سالوں میں ہی اپنا مقدر بھنگی قوموں سے سپر پاور میں بدل لیا اور دنیا کو حیران کردیا۔

اس کو جاننے کے لیے مجھے ایک حکایت کی تفصیل میں جانا پڑا جو ان کامیاب قوموں کے بچوں کے ذہنوں میں بچپن میں ہی اتار دی جاتی ہے۔ یہ لیڈی کینگرو اور لیڈی خرگوش کی کہانی ہے۔ یہ دونوں بہترین دوست تھیں۔ یہ ایک ساتھ حمل سے ہوگئیں۔

(جاری ہے)

بیگم خرگوش نے پورے اکتیس دن بعد دس بچوں کو جنم دے دیا ،جبکہ کینگرو کا بچہ ایک ماہ میں اس کے آگے لگی تھیلی میں نظر تو آنے لگا، مگر باہر نہ آیا۔

اس پر مادہ خرگوش کو بہت حیرانی ہوئی اس نے کینگرو سے پوچھا یہ کیا ماجرہ ہے تو جواب ملا ابھی وقت ہے۔ مادہ خرگوش پھر حمل سے ہوگئی اور اس نے پھر اکتیس دن بعد آٹھ بچوں کو جنم دے دیا، کینگرو کا بچہ اب بھی باہر نہ آیا، یوں سترہ ماہ گزر گئے، اس دوران خرگوش کے کئی درجن بچے پیدا ہوگئے ،اور کینگرو کا بچہ تھیلی میں ہی رہا،وہ باہر جھانکتا ،دنیا کا جائزہ لیتا، خطرے بھانپتا، سردی گرمی کا اندازہ لگاتا، مگر رہتا تھیلی میں ہی تھا۔

مادہ کینگرو کا بچہ باہر آیا تو اس کی دوست لیڈی خرگوش اس کے پاس اپنا آپ جتانے پہنچ گئی کہ تم نے سترہ ماہ میں صرف ایک بچہ پیدا کیا ،جبکہ میں نے پورا جنگل اپنے بچوں سے بھر دیا ہے۔ اس پر سترہ ماہ خاموش رہنے والی لیڈی کینگرو بالآخر بول اٹھی،وہ کہنے لگی۔ کیا تم جانتی ہو؟ تمہارے کتنے بچے دوسرے جانوروں کی خوراک بن گئے؟ کیا تم یہ جانتی ہو کہ تم پوری دنیا میں کتنے ہو؟ اور تمہاری اوقات کیا ہے؟ تمہارے وہ سارے بچے خرگوش کے بچے ہیں، تعداد میں بہت زیادہ، مگر پوری دنیامیں دربدر اور ہر جانور کے نشانے پر، جبکہ میرا بچہ کینگرو کا بچہ ہے،یہ سترہ ماہ تھیلے میں رہ کر باہر آیا،یہ منفر د ہے، یہ یونیق ہے،اسے اپنے باہر کی دنیا کی اتنی ہی خبر ہے کہ جتنی مجھے ہے۔

یہ نایاب ہے ،یہ صرف آسٹریلیا کے ایک جزیرے میں ہی پایا جاتا ہے اور یہ دوسرے جانوروں کے نشانے پر بھی نہیں ہے۔پوری دنیا اس کی قدر کرتی ہے اور اگر یہ کہیں بھی جائے گا تو اس کی قدر ہوگی۔ اس حکایت کو پڑھنے کے بعد میں نے یہودی قوم کے عروج کو پڑھا، پوری دنیا میں رہنے کی کوئی جگہ نہ ہونے کے باوجو د اور دنیا کے ظالم ترین ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر کے بدترین ہولوکاسٹ کا نشانہ بننے کے باوجود ، دو فیصد یہودی آج پوری دنیا کی باون فیصد اکانومی اپنے ہاتھ میں رکھ کر بیٹھے ہیں، دنیا کی ہر بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو اور بڑی پوسٹوں پر آپ کو ان کے لوگ ملیں گے۔

ان کے ذہن سے پوری دنیا کی بینکاری چلتی ہے،امریکہ کب کہاں اور کیوں حملہ کرے گا ،اس کا فیصلہ بھی یہ دو فیصد کرتے ہیں، انہوں نے فلسطین پر قبضہ کرکے پوری دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے مذہب کے لوگوں سے زمین پر رہنے کا ٹکڑا بھی چھین لیا ہے، یہ ایٹمی ریاست بھی ہیں اور ان کا دفاع اور موساد جیسی ایجنسیاں بھی پوری دنیا میں طاقتور ترین تصور کی جاتی ہیں۔

یہ اتنے کم ہوتے ہوئے بھی ، پوری دنیا میں تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک پر حاوی ہیں۔ یہ خرگوش کی طرح دربدر تھرڈ ورلڈ قوموں کے ملکوں میں فساد بھی برپا کرواتے ہیں،ان کو لڑواتے بھی ہیں،ان کو اپنا اسلحہ بھی بیچتے ہیں اور پوری دنیا پر راج بھی کرتے ہیں۔ ان یہودیوں نے ایسا کیا کیا کہ یہ خدا کی مار ہوتے ہوئے بھی ،سب کچھ اپنے قابو میں کرگئے اور باقی دنیا ان سے پیچھے رہ گئی۔

سچ پوچھیں تو انہوں نے حقیقی معنوں میں کینگرو کی زندگی گزاری، انہوں نے اپنی قوم میں کینگرو کے بچے پیدا کیے، جو پڑھے لکھے تھے، منفر د تھے،کامیاب تھے،ذہین تھے اور جنہیں دنیا کا علم تھا۔ انہوں نے خرگوش کا کوئی عدددی فارمولہ اپنی قوم پر نہیں لگایا ،انہوں نے Quantity نہیں Quality کی بات کی اور آج یہ پوری دنیا پر چھا گئے۔ ان کے ان کینگرو بچوں کے پاسپورٹ کی بھی پوری دنیا میں عزت ہے، ان کو پوری دنیا کے بڑے ملکوں کے صدور اور وزراء بھی عزت دیتے ہیں اور دنیا انہیں ماسٹر مائینڈ کہتی ہے۔

مقابلے میں سوڈان، صومالیہ، افغانستان ،پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش جیسے ممالک ہیں اور ان کے خرگوش بچوں سے بھری قومیں۔ ان تھرڈ ورلڈ ممالک نے اپنی اپنی طرز کا تعداد بڑھانے کا فارمولہ لگایا اور درجنوں خرگوشوں کا ڈھیر لگادیا۔ایسے خرگوش کہ جن پر دنیا کا ہر جانور حملہ کرسکے۔ آپ کو ان میں سے بہت کم لوگ دنیا میں کہیں اونچی ترین نشستوں پر نظر آئیں گے۔

ان کی اکثریت دبئی ،شارجہ ،سعودی عرب جیسی ریاستوں میں یا تو مذدوری کرتی ہے یا پھر ٹرک ،ٹیکسیاں چلاتی دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے کبھی کینگرو کی زندگی کی ان سترہ ماہ کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں۔ انہوں نے تھیلی میں رہ کر کبھی دنیا کو پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ انہوں نے اپنے اندر ایسے کامیاب انسان پیدا ہی نہیں کیے ،جن کا عدد دنیا میں صرف ایک فیصد ہے یعنی پوری دنیا میں کامیاب انسان صرف ایک فیصد ہوتے ہیں، جبکہ نناوے فیصد ناکام ہوتے ہیں، نکمے ہوتے ہیں، بے مقصد ہوتے ہیں۔

سو میں نناوے خرگوش کے بچے ہوتے ہیں ،جبکہ صرف ایک سترہ ماہ کی ریاضت کے بعد کینگروکا بچہ پیدا ہوتا ہے،اور جس قوم میں جتنے یہ ایک فیصد زیادہ ہوں گے اتنا ہی وہ قوم پوری دنیا پر راج کرے گی اورجس قوم میں وہ نناوے فیصد زیادہ ہوتے جائیں گے، وہ قوم کچھ عرصے میں یاجوج ماجوج کی قوم بن جائے گی۔وہ قومی وسائل کھا جائے گی۔ان کے ہسپتالوں میں آپ کو ایک بستر پر چار چار مریض نظر آئیں گے، ان کی سڑکوں پر ہر طرف رش ہوگا، ان ملکوں میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہوں گے، بیماریوں کا انبار ہوگا،وہاں ایک بم سے ہزاروں بھی مر جائیں گے تو بین الاقوامی دنیا پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،وہاں جنگیں ہوں گی، قحظ آئیں گے،لوگ بے روزگار ہوں گے، ان کا لائف سٹائل جانوروں سے بھی بدتر ہوگا، مگر کوئی بہتری کی صورت نظر نہیں آئے گی۔

یہ نکمے، جہال پر مشتمل گروہوں کا ایسا ہجوم ہوگا، جو ہر عقل کی بات کو غلط کہے گا،یہاں جہالت،کرپشن ، جرائم عام ہوں گے اور یہ اپنے ذاتی فن کو آگے لے جانے کی بجائے،ہر بات میں اپنی لسانی،ذات پات،فرقے کی بڑائی کی بات کرتے نظر آئیں گے۔ ان کا سفر صرف بربادی ہوگی۔ یہ کہنے کو پورا جنگل بھر دیں گے، مگر جنگل ان پر تنگ ہوجائے گا۔ یہ آپ کو کبھی لانچوں میں ڈوبتے ملیں گے ،تو کبھی کسی کنٹینر میں ہزاروں کی تعداد میں بدبودار لاشوں کی صورت میں برآمد ہوں گے۔

یہ جب کینگرو ریاستوں میں گھسنے کی کوشش کریں گے تو ان کو بارڈر پر ڈھیر کردیا جائے گا۔ان کے ملک پوری دنیا کی ایجنسیوں کی Battle field ہوں گے۔ان پر انہی کے تھنک ٹینک حکمران مسلط کریں گے،وہی ان کے باقی رہ جانے والے وسائل برباد کریں گے اور ان کے لیے دنیا کا ہر دروازہ بند ہوجائے گا۔آپ دنیا کے جتنے مرضی قابل حکمران بن جائیں، آپ لاکھوں روپے کا ٹیکس خرگوشوں کی بستی پر لگا دیں، آپ ان کے ماضی کے تمام حکمران جیلوں میں ڈال دیں، آپ جتنا مرضی لوٹا پیسہ ان کی بستی میں لے آئیں۔

آپ جب تک انہیں کینگرو کی طرح سترہ ماہ کا تھیلی میں رہ کر دنیا میں آنے کا گر نہیں سکھائیں گے یہ کبھی ترقی نہیں کریں گے۔آپ جب تک ان کو معیار اورQuality کی تعریف نہیں پڑھائیں گے، یہ کبھی تعداد کے چکر سے باہر نہیں آئیں گے۔ان کے نزدیک لیڈی خرگوش کی طرح جنگل کو بھر دینا ہی جنگل جیت لینے کی جشن ہوگا،انہیں پورا جنگل نوچ بھی ڈالے گا تو بھی ان کو اپنی بے اوقاتی تعداد پر ناز ہوگا۔

یہ خرگوش جیسی زندگی تو جی لیں گے یہ کبھی کینگرو نہیں بن پائیں۔ گھر کی بالکونی سے کتاب بند کرکے تھوڑا باہر آیا،بادلوں کی جانب دیکھا تو ہلکی بارش کی بوندیں گالوں پر پڑنے لگیں۔ کینگرو کی تھیلی میں رہنے والے سترہ ماہ میں پیدا ہونے والا بچہ ایک سہی،ان ہزاروں خرگوشوں سے بہتر ہے جن کی تعداد ہی ان کی اصل بربادی ہے۔ بارش کے قطرے سامنے دریا میں پڑتے دکھائی دے رہے تھے، ان کو اپنی قدر جاننے کے لیے کسی صحرا میں برسنا تھا، 99 فیصد کے ہجوم میں قدر صرف اس ایک فیصد کی ہی ہوتی ہے،جو اپنی قدر کے لیے اپنی وقعت بڑھانا جانتا ہے۔ یہ صرف سترہ ماہ کے تھیلی کے اندرکے کھیل کی کہانی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :