جیب اور چنگیرخالی

منگل 21 ستمبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

حکومت نے ایک بار پھر پٹرول، ڈیزل ،گیس ،مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھا کر عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں ۔ ہر طرح کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پٹرول ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ خودبخود بڑھ جاتی ہیں۔مہنگائی کا سونامی آچکاہے، وزیراعظم عمران خان عوام کو خبردے رہے ہیں کہ مہنگائی اس سے کم ہے جتنی حکومت سنبھالنے کے وقت پر تھی۔ مزید فرمایا کہ معیشت بہتر ہورہی ہے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔

معاشی ٹیم کو چوکنا رہنے کا حکم دے دیا ہے اورساتھ میں عمران خان کے وزیرکہتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دنیاکے دیگرممالک سے پاکستان میں اب بھی کم ہیں ،اوگرانے قیمتوں سے متعلق جوسمری وزیراعظم کوبھجوائی تھی اس میں پٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ کچھ پیسے اضافہ کی سفار ش کی تھی لیکن وزیراعظم نے دریادلی کامظاہرہ کرتے ہوئے پانچ روپے کااضافہ کردیا۔

(جاری ہے)

پاکستان کی غریب عوام پریشان ہیں کہ اچھی خبریں حکمرانوں کوپاس توہیں لیکن عملی طورہمیں کب دکھائی دیں گی۔اگرحکومت کے معاشی اشاریے بہتر ہیں تو غریب عوام کے معاشی اشاریوں میں ابترصورتحال کیوں ہے،ان کے چہرے زردکیوں ہوچکے ہیں وہ بھوک سے نڈھال کیوں ہیں یایہ جوچوکوں ،سڑکوں پر غریب مزدوراپنے کندھوں پرکدال ،بیلچے یادوسرے اوزاراٹھائے کام کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں یہ حقیقی کردارنہیں ہیں بلکہ فلموں یاڈراموں کے مناظرہیں جن سے حکمران محظوظ ہورہے ہیں۔

حکومت کی معاشی ٹیم کوکیاپریشانی ہے کہ کسی کے بھوک سے چہرے زردہوں یاچولہوں میں آگ نہ جلے یامزدوراورعوام بھوک سے مرجائیں یاپھرغریب کے بچوں کے ننھے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے اوزارآجائیں لیکن ان کے تومعاشی اشارے بہترہورہے ہیں۔تبدیلی سرکار نے مزدور دیہاڑی دار کا تو کیا ہی پوچھنا اس نے تو متوسط طبقے کی بھی چیخیں نکال دی ہیں۔ لوگ مہنگائی کے سیاپے پر حکمرانوں کو کوستے ہیں لیکن وزیراعظم کی کرسی پربراجمان عمران خان تک ان کی آواز کب پہنچتی ہے وہ تو مسند اقتدار کے گرد حواریوں اور خوشامدیوں کے گھیرے میں ہیں اورہرطرف واہ واہ کی آوازیں ہیں اورمعاشی اشاریے بہترہورہے ہیں،اگرحکومتی اعدادوشمارپریقین کرلیاجائے کہ اشاریئے بہترہیں تومہنگائی کیوں کنٹرول نہیں ہورہی ، اس کے برعکس وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ صبر کریں، کبھی کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔

کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سکون تو صرف قبر میں ہے کیونکہ یہاں زندگی میں تو آپ کو آئی ایم ایف کی قاتل معاشی پالیسیوں کو سہنا پڑے گا لہذا سکون آسودگی خوشحالی جیسے لفظوں کو اپنی لغت سے نکال باہر کریں۔ یہ حکمرانوں کا کام نہیں ہے کہ عوام کو صبر کی تلقین کریں، صبر کی تلقین تو بے چارے غریب ایک دوسرے کو کرتے ہی رہتے ہیں۔ ان کے پاس صبر کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں،معاشی پالیسیاں بنانا ان کا اختیار نہیں ہے، مہنگائی کو قابو کرنا قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنا یہ حکومت کا کام ہے۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کوقابو میں رکھنا خوراک، دوا اور تعلیم کو عوام کی قوت خرید میں رکھنا یہ کم سے کم توقع ہے جو عوام حکومت وقت سے کر سکتے ہیں اور آپ ان سے اس توقع کا حق چھین کر انہیں صبر کی تلقین فرما رہے ہیں کہ جو ہورہا ہے اس پر خاموش رہیں اور آہ بھی نہ کریں۔
مہنگائی سے پسی عوام کابھرکس نکالنے کیلئے ملک بھر میں دوئم کوالٹی کے گھی کی فی کلو قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا گیا ہے اور نئی قیمت 350روپے فی کلو ہو گئی ہے جبکہ 20 کلو آٹے کاتھیلا ایک ہزار 240 روپے اور چینی 115 سے 120روپے کے حساب سے فروخت ہونے لگی ہے۔

مہنگائی کی حالیہ لہر سے تنگ شہریوں کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں گھر کا بجٹ بنانا بھی مشکل ہو گیا ہے اور تین سالوں میں نئے پاکستان میں مہنگائی نے ایساحشرکیاکہ اس کی پاکستان کی تاریخ میں نظیرنہیں ملتی ،واضح رہے کہ ملک میں گزشتہ تین سالوں کے دوران اشیائے ضروریہ بالخصوص آٹا، چینی اور گھی و خوردنی تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق اگست 2018میں چینی کے 50 کلو تھیلے کی قیمت 2 ہزار 600 روپے تھی جو اگست 2021 کے اختتام تک 5 ہزار روپے تک جا پہنچی۔ اگست 2018میں مل آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 740 روپے تھی جو اگست 2021 کے اختتام تک 1 ہزار 150 روپے سے بھی تجاوز کر گئی جبکہ چینی کی قیمت اگست 2018 میں 60 روپے فی کلو تھی جو اس وقت بڑھ کر 110 روپے تک جا پہنچی ہے۔
اسی طرح گھی و خوردنی تیل کے پانچ لیٹر پیک کی قیمت اگست 2018میں 900 روپے تھی تاہم اگست 2021کے اختتام تک اس کی قیمت 1700 روپے سے بڑھ گئی۔

ان تین سالوں میں بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے اور عوام کی معاشی اور اقتصادی حالت بالکل ڈانواں ڈول ہوگئی ہے۔جبکہ کمر توڑ مہنگائی نے غریب اور متواسط طبقے کے لوگوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں ،ان کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول نہ ہونے کے برابر ہوگیا جس کے باعث ان کا تمام تر سکون بھی غارت ہوگیا ہے۔ روزمرہ استعمال ہونے والی ضروریات کی چیزیں عوام کی قوت خرید سے بالکل باہر ہوچکی ہیں۔

اس ایک مہینے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوباراضافہ عوام کے لئے بربادی کاپیغام لایا ہے،عمران خان کی حکومت کے مہنگائی کے خاتمے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، بہتری کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی ۔ وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے اوراسلام آباددھرنے کے دوران بجلی کے بل کوآگ لگائی تھی اورکہاکرتے تھے جب ڈالرمہنگا ہواورمہنگائی زیادہ ہوتوسمجھ لیں آپ کاوزریراعظم چورہے ،لیکن اس وقت ایمانداروں کی حکومت میں مہنگائی سے پسی عوام پر گذشتہ ماہ شب خون مارکر 37دن کے بجلی کے بل بھیجے گئے اورعوام کی جیب پرکروڑوں روپے کاڈاکہ ڈالاگیااس ڈاکہ زنی کاجواب کون دے گا؟،عمران خان صاحب اب چورچورکاچورن نہیں بکے گا،بچپن میں پرائمری کی درسی پرلکھاہواپڑھتے تھے کہ چوربھی کہے چور،چوروں سے خبرداررہئے ،اس وقت یہ جملہ ہمارے لئے بے معنی تھا،اس جملے کی سمجھ اب آئی ہے کہ اس کامطلب کیاہوتاہے۔

اس وقت خلق خدا مہنگائی کے ہاتھوں جاں بہ لب ہے عمران خان کی وفاقی حکومت ٹیکس اکٹھاکرنے کے چکرمیں عوام کومزید مہنگائی کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ عوام کی اس تباہی کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے کوئی موجود ہی نہیں ہے ۔عمران خان کی حکومت کے ہر اقدام نے عام لوگوں کی جیبیں خالی کردی ہیں۔ نئے پاکستان میں حکومت نے جائزیاناجائزطریقوں سے عوام اورخاص طورمزدورطبقے کی واٹ لگادی ہے جس سے ان کے دسترخواں کی چنگیربھی خالی ہوگئی اوراس وقت عوام آسمان کی طرف ملتجائیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :