بھارت مسلمانوں کیلئے جہنم بن گیا

ہفتہ 25 دسمبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

17 اور 19 دسمبر کے درمیان بھارت بڑے مذہبی رہنماؤں دائیں بازو کے کارکنوں سخت گیر بنیاد پرست عسکریت پسندوں اور ہندوتوا تنظیموں کا ایک بڑا مجموعہ نے ہریدوار میں دھرم سنسدیامذہبی پارلیمنٹ کے نام سے ایک کانفرنس منعقدکی۔ ان تین دنوں میں بھارت میں بسنے والے مسلمان ان دہشت گردوں کی نفرت کاخاص نشانہ بنے رہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)سے وابستہ افراد اور صحافیوں نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا مطالبہ کیا ہے اور ہندؤوں سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے ہتھیار خریدیں۔

بی جے پی کے ہندوتواسے تعلق رکھنے والے ارکان بشمول سادھوی اناپورنا ، دھرم داس مہاراج، آنند سوروپ مہاراج، سوامی ساگر سندھوراج، سوامی پربودانند گری، سوامی پریمانند مہاراج، بی جے پی کے رکن اشونی اپادھیائے، اور پارٹی کے مہیلا مورچہ کی رکن ادیتا تیاگی نے ہندو راج کا مطالبہ کیا اور مسلمانوں کے خلاف پرجوش طریقے سے تشدد کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کا مطالبہ کیا۔

(جاری ہے)

اس کانفرنس کا اہتمام یتی سنگھانند نے کیا تھا، جو ایک ہندوتواکا رکن ہے جومسلمانوں کے خلاف انتہائی نفرت انگیز تقریر وں کیلئے مشہورہے۔
سادھوی اناپورنانے کانفرنس میں کہا اگر آپ مسلمانوں کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہتھیاروں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے تو مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے ہمیں چاقو یا تلوار اٹھانی پڑے گی، اگر ہم میں سے 100جنگجو تیارہوجائیں تو20لاکھ مسلمانوں کو مارنے کے لیے کافی ہیں اور ہم یہ جنگ جیت جائیں گے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائیں گے۔

مارنے اور جیل جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔
بہار سے تعلق رکھنے والے ایک اور رکن دھرم داس مہاراج نے کہااگر میں 2006 میں پارلیمنٹ میں موجود ہوتا جہاں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ قومی وسائل پر اقلیتوں کا پہلا حق ہے تومیں ناتھو رام گوڈسے کی پیروی کرتا اور منموہن سنگھ کے سینے میں ریوالور سے کئی بارچھ چھ گولیاں مارتا۔سدرشن نیوز نامی ہندی ٹیلی ویژن نیوز چینل کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے لوگوں کے ایک بڑے ہجوم سے حلف لیاجس میں وہ کہتاہے کہ ہم اپنی آخری سانس تک حلف دیتے ہیں کہ ہم ایک ہندو قوم ہیں ور صرف ہندو قوم ہی رہیں گے۔

ہم لڑیں گے اور ضرورت پڑی تو ماریں گے اورہندوستان کوہندودیش بنائیں گے۔ ہندو رکھشا سینا کے صدر سوامی پربودھانند گری نے کہاکہ ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانا ہوں گے اور ہمیں یہ صفائی مہم(صفائی ابھیان)چلانی ہوگی۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ بھارت کی ریاست اتراکھنڈ میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندؤوں کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق نفرت آمیز تقریر پر پولیس کارروائی کرنے سے گریزاں ہے اورپولیس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہاہے کہ کسی نے شکائت درج نہیں کرائی،جب شکائت درج نہیں ہے توپولیس کیسے کارروائی کرے،پولیس کے دعوے کے برعکس ترنمول کانگریس کے رکن اور آر ٹی آئی کارکن ساکیت گوکھلے نے دھرم سنسد کے خلاف ہریدوار پولیس میں شکایت درج کرائی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پولیس کی جانب سے اس سلسلے میں 24 گھنٹے کے اندمقدمہ درج نہیں کیاگیاتو وہ اس معاملے کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس لے جائیں گے۔
بھارت میں مسلمانوں پر تشدد یا برا سلوک کوئی نئی بات نہیں۔ ہر دور میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن نریندرمودی کی حکومت میں مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے، زندگی تنگ ہوئی ہے اور ان کی نقل و حرکت بھی محدود ہو چکی ہے۔

کیونکہ بھارت میں ایک ہندتواکی متعصب حکومت ہے ایک ایسی حکومت جو سرکاری سطح پر ہندوؤں کے علاوہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو اہمیت نہیں دیتی۔ آئے دن ہندوؤں کے علاوہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ نامناسب سلوک کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ جنونی ہندوؤں کی مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک اور تشدد کی کئی ویڈیوزسوشل میڈیاکی وجہ سے دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔

اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکیوں اورہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ان تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں اور ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی زبان استعمال کرتے ہیں۔پولیس کے متعصب رویے اور عدالت سے بھی جلد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے مسلمانوں کیساتھ دوسری اقلیتیں بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

گذشتہ سال مسلمانوں کو بڑھتے ظلم و ستم، تشدد اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کی آبادی کو روکنے کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔بھارتی معاشرے میں عدم برداشت بڑھ کر انتہا پسندی میں تبدیل ہو گئی ہے۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں اب باقاعدگی سے سننے کو ملتی ہیں۔

اس کا زیادہ تر حصہ ہریدوار میں دھرم سنسد جیسے پروگراموں میں آن لائن ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میںآ رایس ایس اورہندوتوکی دہشت گردی کی لہر نے پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لیاہواہے۔ صرف 14 دسمبر کوہریانہ میں ایک نوجوان مسلمان کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا،حملہ آوروں نے ایک ویڈیو شوٹ کی جس میں دکھایا گیا تھا کہ وہ اپنے مسلم عقیدے کا حوالہ دیتے ہیں۔


ہجومی تشدد اور نفرت انگیز تقریر یں بھارت کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم نئی بات یہ ہے کہ ان جرائم کو اب ریاست کی جانب سے ڈھٹائی کیساتھ کھلی حمایت حاصل ہے۔ 2017 میں ایک مرکزی وزیر نے جھارکھنڈ میں ایک مسلمان مویشیوں کے تاجر کو مار پیٹ کرنے کے الزام میں لوگوں کو ہار پہنائے۔ 2020 میں ایک اور مرکزی وزیر نے دہلی میں ایک انتخابی ریلی میں خونخوار غداروں کو گولی مارنے کی کال کی قیادت کی۔

کرناٹک نے ایک قانون پاس کیا جس میں ہندو مذہب سے ہٹ کر تبدیلی مذہب پر عملََا پابندی لگائی گئی ، حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہریدوار تقریب کے ایک چیف منتظم پربودھانند نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی تصاویر اپ لوڈ کی ہیں اور ایک تصویر جس میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ان کے پاؤں چھو رہے ہیں۔اقتدار میں سیاست دانوں کی طرف سے فرقہ وارانہ تشدد کی اس ڈھٹائی سے حمایت کو دیکھتے ہوئے حیرت کی بات نہیں کہ فوجداری نظام انصاف کا زیادہ تر حصہ بھی اتنا ہی برا کام کرتا ہے۔

2020 کے دہلی فسادات کے بعد دہلی پولیس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاست دانوں کے تشدد کی آن ریکارڈ کالوں کو نظر انداز کیا اور اس کے بجائے ان مظاہرین کو نشانہ بنایا جو مودی حکومت کے مذہب پر مبنی شہریت ترمیمی قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اتر پردیش کے ہاتھرس نامی گاؤں میں ایک نوجوان دلت خاتون کے مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کی رپورٹنگ کرنے والے ایک مسلمان صحافی صدیق کپن دہشت گردی کے الزامات کے تحت ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔

حتی کہ سپریم کورٹ نے بھی اس نوجوان کو ڈھٹائی سے غیر منصفانہ نشانہ بنانے سے منہ موڑ لیا ہے۔مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اقوام متحدہ نے اسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کے منافی قرار دیا۔ حالیہ برس کے آغاز میں امریکی اداروں نے ایک رپورٹ میں اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے بھارت کو قصور وارقرار دیا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ میں شامل کئی شخصیات براہ راست اقلیتوں کے قتل عام کی ذمہ دار رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اس وقت سو سے زائد علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر ہیں۔ صرف آسام میں 34 عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ نکسل باڑی نے خطرناک شکل اختیار کر لیا ہے۔ بھارت کا شمال مشرقی خطہ ایک عرصے سے احساس محرومی کا شکار ہے۔

اس خطے کی سات ریاستیں جو seven sisterکہلاتی ہیں، بر من سان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ معاشی صورتحال نہایت ابتر ہے ، مالیتی و سیاسی حالات بھی دگر گوں ہیں ہر شعبہ سنگھ پریوار کے قبضے میں ہے۔ بھارتی معاشرے سے مسلم چھاپ مٹانے کیلئے مغل حکمرانوں سے منسوب شہروں، شاہراہوں اور عمارات کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں ، شہر یت قانون کے نام پر مسلمانوں کیلئے بھارت کو روہنگیا بنانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاچکی ہے ۔

المیہ یہ ہے کہ بھارتی ستم گری پر پوری دنیا میں سکوت طاری ہے۔وہ بھارتی عصبیت زدہ معاشرے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے اقلیتی طبقوں پر توڑے جانے والے مظالم پر محو تماشا ہے۔ دہلی فسادات میں مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا گیا، 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خود مختاری کو ہڑپ کرتے ہوئے بربریت و سفاکیت کی نئی مثالیں قائم کی گئیں مگر کہیں کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔

یہ ہے وہ دنیاکی نمبر ون جمہوریت کا دعویدار بھارت جس نے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رکھی ہے۔ بر سر اقتدار مودی کی بی جے پی ہندو تواکی حکومت نے بھارتی سیکولر ازم کے پرخچے اڑادئے ہیں۔ آرایس ایس اورہندوتواکے دہشت گردوں نے بھارت کو اقلیتوں ،نچلی ذات کے ہندوؤں(شودروں،ملاحوں)،عیسائیوں اورخاص طورپر مسلمانوں کیلئے جہنم بنادیا ہے۔ ہندوتواکے زیراثربھارتی حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھارت سے علیحدگی کی کئی تحریکیں زورپکڑرہی ہیں اور بہت جلددنیادیکھے گی کہ ظلم وزیادتی اورناانصافی کی وجہ سے دنیاکی بڑی جمہوریت کا دعویدارملک بھارت کیسے ٹوٹا کر بکھرااوردنیاکے نقشے پر کتنے نئے ممالک معرض وجود میں آئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :