کورونا سے کوئٹہ تک

منگل 9 جون 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

کورونا  کی ضربیں ابھی جاری تھیں کہ نسل پرستی کی اٹھی تحریک نے امریکہ کو گھٹنوں پہ لا کھڑا کیا ہے- امریکہ کی کئی ریاستوں میں پھیلی یہ بے چینی جہاں ایک طرف اس کی جمہوریت پہ سوالیہ نشان بن گئی ہے – وہیں  اسے ٹوٹ پھوٹ  کا سامنا ہے – مشرقِ وسطیٰ کا روس کی جانب جھکاؤ اس کی ہوتی  کمزور گرفت کاوہ رخ ہے جس سے وہ پریشان ہے – جناب مودی صاحب کو دیے جانے والا ٹاسک کہ وہ افغانستان میں امریکی انخلاء کے راستے استوار کرے اب اسے وہ نوالہ دکھائی دیتا ہے کہ جس کو نگل جانا انتہائی دشورا  ہی نہیں ناممکن  بھی ہے – ادھر پاکستان کی بلوچستان میں انٹیلجنس نیٹ ورک میں بہتری   ،پاکستان افواج کی بہادری اور جذبہ شہادت  سے سرشاری اس کے لئے ایک چیلنج ہے- بھارت اگلی چھیڑ چھاڑ اب اس علاقے میں چاہتا ہے – کچھ عرصہ پہلے  پاک ایران سرحد کے چودہ کلو میٹر اندر ضلع کیچ  کے  بلیدہ نامی  علاقے میں  میجر ندیم  کے ساتھ پانچ جوانوں کا لہو کرونا سے کوئٹہ  تک کی داستان لکھ رہا ہے- ایک طرف کیڈ ( امریکہ ، آسٹریلیا ، انڈیا اور جاپان کا اتحاد) ہے تو دوسری طرف چین اور پاکستان – چین کے ساتھ امریکی صدر اور پینٹا گون  بر سر پیکار ہیں تو دوسری طرف بھارت کو امریکہ کی شہ ہے کہ اس خطے میں وہ دھما چوکڑی مچائی جائے کہ چین اور پاکستان کے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کو  دھچکا لگے  اور یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے- کشمیر کے انڈین لاک ڈاؤن اور کشمیری جوانوں کی شہادتیں اسی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہیں- لداخ میں پٹنے کے بعد  اب بلوچستان  ہی شاید اگلا نشانہ ہے – بھارت نے جب جب ہزیمت اٹھائی ہے اسے پاکستان ہی وہ نشانہ ملا ہے جہاں  سے وہ اپنی ہندواتہ سوچ کے امین قوم پرستوں کو دل کی طمانیت مہیا کر سکتا ہے- بھارت اس وقت ہر طرف سے گھرا ہوا ہے –  بھارت کے شمال میں اروناچل پردیش ،  آسام،ناگالینڈ ،میگھالیہ،منی پور، تری پورا اور میزو رام وہ دکھتی رگیں ہیں کہ جہاں سے اسے سکون نہیں ہے چائنا سے شکست کے بعد ان علاقوں میں اب آزادی کی تحریک اور زور پکڑے گی- روہنگیا مسلمان  کے لئے بھارت کی شمالی ریاستیں جہاں ایک پناہ گاہ ہیں وہیں ان کی اس ظلم کے خلاف جنگ بھی ہے جس میں انہوں نے قیامت خیز لمحات میں اپنے گنوائے ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ کسی شہریت کے بغیر ان پہ جاری بربریت ختم نہیں ہوسکتی – باقی ان ریاستوں میں ہندوؤں کے مقابلے میں بڑھتی مسلمان آبادی آر ایس ایس کے لئے وجہء تشویش بنی ہوئی ہے -  بھارت میں  مذہب اور شہریت کے قانون کے بعد اسے بنگلہ دیش اور میانمار  سے بھی وہ حمایت حاصل نہیں ہے-  ایک طرف نیپال درد، سر ہے تو دوسری طرف میانمار کے ساتھ چین کے بڑھتے روابط جسے  چائنا کا اخبار گلوبل ٹائمز  کچھ یوں لکھتا ہے "پیر کو چین اور میانمار کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک نے ان سات دہائیوں کے دوران ایک اہم سفر دیکھا ہے ، اور اس سال مختلف شعبوں میں تعاون کے ساتھ ساتھ COVID-19 کے خلاف جنگ میں باہمی تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں- میانمار میں چینی سفیر چن ہائے نے ایک حالیہ انٹرویو میں ژنہوا نیوز ایجنسی کو بتایا کہ گذشتہ سات دہائیوں کے دوران ، چین اور میانمار نے ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام کیا ، اعتماد کیا اور اس کی تائید کی ہے ، جو ایک رول ماڈل طے کرتا ہے کہ کس طرح دو ممالک ایک دوسرے کے ساتھ  برابر سلوک کرتے ہیں کہ  باہمی فائدے اور مشترکہ ترقی کو آگے بڑھائیں"- اس کے ساتھ ساتھ گلوبل ٹائمز میں بھارت اور چین کے درمیان ہونے والی بات چیت کا احوال کچھ یوں ملتا ہے – "تیانہ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور بیجنگ میں سنگھوا یونیورسٹی میں نیشنل اسٹریٹجی انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ، کیان فینگ نے پیر کو گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ حالیہ بات چیت میں دونوں ملیشیا کے اعلی عہدے دار شامل تھے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین صورتحال پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور اس میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے ہیں -کیان نے کہا ، یہ کہا جارہا ہے کہ ، جاری تعطل کا فوری طور پر خاتمہ نہیں ہوگا ، کیوں کہ ابھی بھی ٹھوس معاملات کو حل کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس تقریب کا محرک ، ہندوستان کی چینی سرزمین پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو روکنا ہوگا  اور  چین اس صورتحال کو قبول نہیں کرے گا-
 بھارت کی چین کے ہاتھوں درگت اور ساٹھ مربع کلومیٹر کا  وہ علاقہ جو کل  ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں اہم کردار ادا کرے گا  - چین  آتی بہار تک اس روڈ کو اس علاقے سے بغیر کسی پریشانی اور دقت سے گزارنا چاہتا ہے  جو بھارت اور امریکہ کے لئے پریشانی ہے – بھارت کی چین کے ساتھ سرحد پہ  گھونسوں مکوں کی لڑائی میں پسپائی نے  ان کی فوجی طاقت کا  بھرم پاش پاش کردیا ہے – اب جب کہ بھارت اپنی عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے  کے واسطے  اپنی  کچھ فیس سیونگ چاہتا ہے لیکن بیجنگ کی طرف سے کوئی رعایت نہ ملنے پہ اس کا اگلا ہدف پھر کوئٹہ ہو سکتا ہے – جس کے پیشِ نظر  ہمیں بلوچستان کے محاذ پہ اور چوکس رہنا ہو گا- میرے خیال میں چین کے ساتھ اس چینی جنگ میں دوسرے ممالک کا خاموش رہنا بھارت کی اس سفارت کاری میں بھی ناکامی ہے جس میں ہمیشہ مودی صاحب نے جپھی کو ہتھیار بنایا ہوا تھا- قدرت شاید ہم پہ مہربان ہے –  ہمارےایران کے ساتھ بہتر تعلقات اور بھارت کے ایران کے ساتھ تعلقات پہ امریکہ کی لگائی قدغن آج اسے چاہ بہار کے منصوبوں سے دور لے جارہی ہے – نمستے ٹرمپ کے کھیل رچانے کے بعد اب مودی جب  صدر ٹرمپ کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہیں تو شاید ان کی مطلب وہی رائیگاں جاتی جپھیاں ہیں-
خطے کے حالات پاکستان کا مستقبل لکھ رہے ہیں- پاکستان کی نقشے میں مرکزی حیثیت اور افغانستان میں ضرورت شاید اب بھارت کو پاکستان کے شمالی بارڈرز پہ کھل کے نہ کھیلنے دے لیکن پراکسی جنگ اس کے زخموں پہ مرہم ضرور ہے جو  اس کی شدت پسند اور عوامی جنتا پارٹی کے تقلید کاروں کو  طمانیت بخش دے- میں آئندہ دنوں کشمیر کی بجائے بلوچستان اور کوئٹہ میں ہوتا کچھ  ایسا دیکھ رہا ہوں- اس سے پہلے کہ کرونا کا کھیل کوئٹہ میں جمایا جائے ہمیں باہمی اعتماد اور حوصلہ مندی سے اپنا کردار نبھانا ہو گا اور اپنی مسلح افوج اور ان سے منسلک اداروں کے پیچھے کھڑا ہونا ہو گا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :