پاکستان پر قربان ہونیوالی قوم افواجِ پاکستان کیساتھ ہے

ہفتہ 21 دسمبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

 اسلامی جمہوریہ پاکستان او ر دنیا کے عظیم سیاستدان کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور اب پاکستان کے محب ِوطن عظیم جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی گئی۔جنرل مشرف کا جرم یہ تھا کہ اُس نے کارگل سیکٹر میں بھارت کو محاذسے اُن کے ملک کے اندر دھکیل کر افواجِ پاکستان کا نام روشن کیا لیکن وزیر اعظم کو خبر ہوگئی تو پیش قدمی روک دی گئی فوج واپس بلالی گئی قوم اور وطن کا غدار نواز شریف تھا لیکن عدالت نے انصا ف کا خون کرتے ہوئے جنرل مشرف کو قومی غدار قرار دے کر افواجِ پاکستان کی توہین کی جنرل مشرف نے آئین معطل کیا تھا وہ آئین کا مجرم ضرور ہے لیکن غدار نہیں!! 
 ظلم وجبر کی پیداوار سوچ جب تک بیدار ہے قومی ہیروز وطن دشمن سوچ پر قربان ہوتے رہیں گے ۔

پاکستان میں انصاف کا خون ہوتارہے گا ۔

(جاری ہے)

ابھی بھی وقت ہے شخصیات کی خواہشات پر فیصلوں کی سوچ کو دفن کرنا ہوگا انصاف کی کرسی پر تشریف فرما عدل وانصاف کے علمبرداروں کو سوچنا ہوگا کہ ایک اور بڑی عدالت میں اُن کے خلاف اُن کے غیر آئینی وغیر قانونی فیصلوں کے خلاف کیس رجسٹرڈ ہورہے ہیں ان کو آخرت کی بڑی عدالت میں اپنے فیصلوں کاحساب دینا ہے جن کی خواہشات پر فیصلے دے رہے ہیں وہ اُن کے وکیل نہیں ہوں گے آج کی کرسی کل نہیں رہے گی خاک کا بستر اوڑھتے ہی بڑی عدالت لگے گی ۔

اللہ رب العزت نے اگر زندگی میں عدل و انصاف کے عظیم منصب سے سرفراز کیا ہے تو اس منصب کا احترام کریں عظیم منصب کی عنایت پر خدا کا شکر کریں ۔ایک قومی سزایافتہ مجرم کو علاج کیلئے بیرونِ پاکستان علاج کے لئے بھیجا جا رہا ہے اور بیرونِ ملک بستر مرگ پر پڑے قوم اور ملک کے وفادار جنرل کو اُس کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنائی جا رہی ہے۔

دنیا کی تاریخ میں ایسے فیصلے نہ دیکھے اور نہ سنے جو ہمارے دیس پاکستان میں ہورہے ہیں ۔ایک جج کے ذاتی خواہش پر درج مقدمے میں ایک محب وطن جنرل کو خصوصی عدالت سے سزائے موت پر افواجِ پاکستان میں غم وغصے کا اظہارلازم ہے ۔فوج اُس وقت آئین کو وقتی طور پر معطل کرکے مارشل لاء لگاتی ہے جب جمہوریت کے لبادے میں سیاسی لٹیرے جمہوریت میں عوامی اُمنگوں کے احترام کو نظر انداز کرکے ذاتی خواہشات اور مفادات پر قوم اور قومیت کو قربان کردیتے ہیں ۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی آج کی اپوزیشن کے بڑے بزرگ گلے میں قرآن لٹکائے سڑکوں پر نکلے تھے ۔بھٹو کے خلاف عوام کو گمراہ کرنے کیلئے اُس کی سوچ کا مذاق اُڑایا گیا تھا مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی کامیابی پر بھٹو نے کہا تھا ادھر تم کامیاب ہوئے ادھر ہم کامیاب ہوئے آؤ مل بیٹھ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خوبصورت مستقل کیلئے جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق بات کرتے ہیں لیکن قوم اور عوام دشمن قوتوں نے بھٹو کی سوچ میں صرف ان الفاظ سے قوم کو گمراہ کیا اور کررہے ہیں ادھر تم ادھرہم۔

۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف جمہوریت دشمنوں کی تحریک چلی اور قوم پر مغربی قوتوں کے پرستار جنرل نے مارشل لاء لگاکر بھٹو کو ماورائے عدالت قتل کرکے قوم کوایشیاء کے عظیم ہیروسے محروم کردیا جنرل مشرف نے بھارت اور یہودی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر قوم کا بے جگری سے دفاع کیا یہی اُس کا جرم ہے جس کی اُسے سزا سنائی گئی ہے ۔

بدقسمتی سے جب بھی پاکستان شاہراہِ ترقی پر گامزن ہوا مغر ب پرست اور اُن کے حواری اور درباری قومی محبت کا نقاب اوڑھ کر وطن عزیز کے طول وعرض میں آگ لگادیتے ہیں آج پورا پاکستان تو کیا دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے ۔
افواجِ پاکستان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کیساتھ قومی تشخص اور عالم اسلام میں پاکستان کی قیادت کیلئے اپنا قومی اور مذہبی کردار اداکررہی ہے لیکن خود غرض اور خودپرست شکست خوردہ سیاستدان بیرونی طاقتوں کی خواہش پر افواجِ پاکستان کے کردار کی توہین کر رہے ہیں ۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوامی اُمنگوں کے مطابق انتخابات کو دھاندلی کہہ رہے ہیں قومی سوچ کے بدکردارسیاستدان جنرل قمر جاوید باجوہ کی فوجی قیادت سے خوفزدہ ہیں اس لیے کہ باجوہ کی سوچ قومی مجرموں سے کسی بھی قسم کی رعایت کے گرد نہیں بلکہ قومی وقار کے گردگھوم رہی ہے ۔
وطن عزیز کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر افواجِ پاکستان کے کردار سے خوفزدہ قوتوں کی خواہشات کی تکمیل کیلئے ان کی سوچ کے پرچم تلے منصب انصاف کی کرسی پر کچھ عادل ایسے ہیں جو اپنے آنیوالے کل کو بھول چکے ہیں ایک عدالت کے از خود نوٹس پر افواجِ پاکستان کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کی توسیع پر ہنگامہ کھڑاکرکے فوج اور حکومت کو امتحان میں ڈال دیا ایک اور عدالت نے قوم اور وطن کے عظیم وفادار اور علمبردار کو قومی غدار قرار دے کر سزائے موت سنادی جس پر پاکستان کے طول وعرض میں پاکستان دوست قانو ن دانوں کے بھی کان کھڑے ہوگئے ہیں وہ حیران اور پریشان ہوکر بول پڑے ہیں اگر عام لوگ یا پرویز مشرف کی سیاسی جماعت کے کارندے شور مچاتے تو مسئلہ پریشانی کا نہیں تھا لیکن پاکستان کے اٹارنی جنرل تک کے قانون دان بول پڑے ہیں۔

ظاہر ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ قانون اور قومی تقاضوں کے برخلاف ہے اس لیے بھی کہ اگر جنرل مشرف آئین کے مجرم ہیں تو کیا اس جرم کا فیصلہ اُس کا ذاتی تھا شریک جرم اور سہولت کارکہاں گئے ۔ قومی بدقسمتی کا اندازہ کیجئے پی پی اور مسلم لیگ ن کی قیادت اور درباری بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور قومی عظمت کے علمبرداردانتوں میں اُنگلی دبائے پریشان کھڑے ہیں ۔

عتیق الرحمان صفی نے کیا خوب کہا ہے 
 ہوئے ہیں کس قدر بے حس ہمارے اہل دانش بھی 
 کسی پر ظلم ہونے کی خبر پر داد دیتے ہیں 
اگر سچائی اور حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اسرائیلی سازش نائن الیون کے بعد دنیائے اسلام پر یہودی یلغار کے خلاف جنرل مشرف نے پاکستان کی سا لمیت کیلئے انتہائی مشکل فیصلے بڑی جرأت سے کیے اور پاکستان پر یہودی کے ہر وار کابھرپور مقابلہ کیا ایسے لوگ غدار نہیں قومی ہیروز ہوتے ہیں اُن کو سزائے موت نہیں دی جاتی اُن کو قومی اعزازات سے نوازا جاتا ہے لیکن میرے پاکستان میں یہود ی نواز سیاستدانوں سے ایسی توقع خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیاہی بہتر ہوتا جنرل مشرف کے طیارے کو بھارت دھکیلنے والے اور کارگل سیکٹر میں جیتی ہوئی جنگ ہروانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو قومی غداری کے جرم میں سزائے موت دی جاتی ،لال مسجداپریشن پر پرویز مشرف کو مجرم قرار دینے والے ماڈل ٹاؤن میں نہتے شہریوں پر بارود کی برسات کیوں بھول جاتے ہیں ۔

جنرل مشرف کو سزائے موت سنانے والی عدالت مسلم لیگ ن سے محبت میں اُن کی خوشنودی کے حصول میں دوقدم آگے نکل گئی ۔
خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے کے پیراگراف نمبر66میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ جنرل (ر)پرویز مشرف کوگرفتار کرکے سزا پر عملدرآمد کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو اُن کی لاش گھسیٹ کر ڈی چوک میں تین دن تک لٹکائی جائے۔

مسلم لیگ ن کے شہباز شریف نے الیکشن سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں نے آصف علی زرداری کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا ،راوی پل سے نیچے نہیں لٹکایا ،اُس کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نہ نکالی تو میرا نام شہباز شریف نہیں ہوگا لیکن شہباز شریف کی جماعت کو عوام نے الیکشن میں لٹکادیا جس کی وجہ سے اُس نے زرداری کو گلے لگایا اور آج کل اپنے بھائی میاں نواز شریف اور درباریوں کیساتھ برطانیہ کی گود میں بیٹھ کر مغربی سیاست کھیل رہا ہے اور اُن کے اشاروں پر اُن کی باقیات نے قومی استحکام کو برباد کیے رکھا ہے ۔

خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے تحریری فیصلے میں جو زبان استعمال کی ہے وہ کسی بھی مہذب قوم کی تہذیب میں گوارہ نہیں بلکہ انسانیت کی توہین کے مترادف ہے کوئی بھی مذہب لاش کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں سزائے موت کے تحریری فیصلے میں توہین آمیز پیراگراف سے جسٹس شاہد کریم نے اختلاف کرتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ میرے خیال میں مجرم کو سزائے موت دینے کا حکم ہی کافی ہے جبکہ جسٹس نذر اکبر نے اپنے 44صفحات کے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ نے آرٹیکل 6میں ترمیم کرکے عدلیہ کو دھوکہ دیا ہے استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے جسٹس نذراکبر کے فیصلے کے پیش نظر جنرل (ر)پرویز مشرف بری ہوچکے ہیں ۔

خصوصی عدالت کے تینوں ججوں کے فیصلے میں اختلاف رائے سے ظاہر ہے کہ فیصلہ ذاتی عناد میں انتہائی جلد بازی میں کیا گیا ہے ،خصوصی عدالت کے فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے تو پاکستان کے نظامِ عدل کے منہ پر طمانچہ مارہی دیا ہے لیکن حیرانی ہے پاکستان بارکونسل کے ردِ عمل پر ۔پاکستان بار کونسل نے افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے خصوصی عدالت کے فیصلے پر ردِ عمل کا شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میجر جنرل آصف غفور کا بیان توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے اُس عدالت کے جو توہین انسانیت توہین آدمیت توہین ملت اور توہین مذہب کی مرتکب ہوئی جس نے قومی نظامِ عدل کو مجروح کیا !!
کیا ہی بہترہوتا کہ پاکستان بار کونسل خصوصی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرکے نظامِ عدل کے وجود پر لگے زخم پر مرہم رکھتی ۔

خصوصی عدالت کے سربراہ کے ذاتی فیصلے اور پاکستان بار کونسل کے ردِ عمل سے ظاہر ہے کہ بیرونی طاقتوں نے عوام کے ہاتھوں شکست کے بعد اداروں کے درمیان جنگ کا کھیل شروع کردیا ہے۔ افواجِ پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور نے خصوصی عدالت کے تحریری فیصلے پر اپنے ردِ عمل کے اظہار میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ 17دسمبر کو جو مختصر فیصلہ آیا تھا اُس کے ردِ عمل میں جن خدشات کا اظہارکیا گیا تھا وہ خدشات صحیح ثابت ہورہے ہیں ۔

جنرل مشرف کسی صورت غدار نہیں ہوسکتے خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان کو شدید دکھ ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے توکوئی ایسی بات نہیں کی دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کیا ہے لیکن حکومت ِوقت کے وزیر قانون فروغ نسیم ،شہزاد اکبر ،فردوس عاشق اعوان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فیصلے میں پیراگراف نمبر 66میں جو لکھاگیا ۔جسٹس وقار سیٹھ کو اس قسم کا فیصلہ دینے کا اختیار کس نے دیا کریمنل ترمیمی کورٹ ایکٹ 1976ء میں کوئی گنجائش نہیں کہ کسی جج کو اجازت دی جائے کہ کسی کی لاش کو چوراہے پر تین دن کیلئے لٹکایا جائے ۔

جج نے انتہائی غیرمعمولی اور غلط ابزرویشن دی ہے ایسا تو وہی کر سکتا ہے جس میں کوئی قابلیت نہ ہو یا پھر دماغی طور پر ٹھیک نہ ہو ۔حکومت سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرے گی ایسے جج کو ہائی کورٹ یا سپریم کوٹ کا جج ہونے کا کوئی اختیارنہیں وہ اَن فٹ ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو وزیر قانون فروغ نسیم کا بیان پاکستان آرمی کے ترجمان آصف غفور کے مقابلے میں انتہائی سخت ہے لیکن پاکستان بار کونسل نے اس کاکوئی نوٹس نہیں لیا اس سے ظاہر ہے کہ وطن عزیز میں یہودی مافیا وطن عزیز میں عدم استحکام کیلئے قومی بے ضمیروں کو استعمال کر رہے ہیں افواجِ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی گھناؤنی سازش ہورہی ہے اس لیے کہ افواجِ پاکستا ن نے عظمت ِپاکستان کیلئے اپنا سرہتھیلی پر رکھا ہے ہندواور یہودی مافیا افواجِ پاکستان کی غیرت ایمانی کی قوت سے خوفزدہ ہے لیکن یہودی اور ہندومافیا کے پرستاروں کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا اس لیے کہ پاکستان پر قربان ہونیوالی قوم افواجِ پاکستان کیساتھ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :