وزیراعظم نے کہہ دیا ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا

ہفتہ 1 فروری 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکمرانی کو درپیش اندرونی خطرات سے پریشان پاکستان کی آزاد میڈیا کے دانشور جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ عمران خان کھلاڑی سیاستدان ہیں وہ جانتے ہیں کہ میچ کس مرحلے میں کون کن مقاصد کے حصول کے لئے کن کے کہنے پر فکس کرتا ہے ،تحریکِ انصاف کے چڑتے سورج کو دیکھتے دوسری جماعتوں کے خود غرض وخود پرست سیاسی پرندے اڑ کر آئے ہیں ان کی سوچ کیا ہے قوم بھی جانتی ہے عمران خان بھی جانتا ہے کہ ان کی حکمرانی میں ان کی جماعت کے منتخب اراکینِ اسمبلی میں ان کے ہم خیال کون لوگ ہیں اور ان کو بھی بخوبی جانتے ہیں جو خود پرست سوچ کے غلام ہیں،جن کے شعور میں فطور ہوان پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے۔


سابق مرحوم وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جہاں جہاں اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی عمران خان وہ غلطی کیسے کر سکتے ہیں،انتخابات سے قبل کراچی میں ایم کیو ایم کی بھارت نواز قیادت سے نجات کے لئے ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھرتے قوم نے دیکھا اور ان ہاتھوں کو بھی سوچا جو عمران خان کے شانے پر تھے تو عمران خان کیسے ان ہاتھوں کی شفقت کو بھول سکتے ہیں،پاکستان کے با شعور عوام بھی سیاسی جماعتوں کی باری کی اجارہ داری میں پاکستان کاجمہوری مستقبل تاریک دیکھ رہے تھے۔

(جاری ہے)

اس لئے قوم نے خود پرست اور موقع پرست سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ووٹ کی طاقت سے پارلیمنٹ سے باہر کر دیا،وطن دوست بخوبی جانتے ہیں کہ اتحادیوں کی چند نشستوں کے سہارے پر کھڑی تحریکِ انصاف کی حکمرانی قائم دائم ہے تو اس لئے کہ اپوزیشن ایوان میں تبدیلی کی سوچ تک نہیں سوچ سکتی وہ سینٹ میں اپنی طاقت کا خمیازہ بھگت چکے ہیں ۔آئے روز اے پی سی کے اجلاس بلانے والے مولانا فضل الرحمان تو منظر تک سے غائب ہیں انکا دسمبر تو کیا جنوری بھی گذر گیا ،ہو کسی تنہا گوشے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اس ہاتھ کو سوچ رہے ہیں جو ان کے ساتھ کر گذرے ہیں مولانا کے دوسرے ہم خیال ساتھی بھی اپنے ساتھ ہونے والے ہاتھ کا خاموش ماتم کر رہے ہیں ،پیپلز پارٹی کی پر جوش آواز بھی دھیمی سنائی دے رہی ہے مسلم لیگ ن کی قیادت اپنی ایک بیٹی مریم صفدرکو جیل میں اور دوسری مریم اورنگ زیب کو میڈیا میں چھوڑ کر اس برطانیہ کی گود میں اپنے گزرے کل کو سوچ رہی ہے جس کی شاہی زندگی عمران خان اپنے دیس اور دیس کے عوام کی خدمت کے لئے چھوڑ کر سیاست میں آئے۔

 تحریکِ انصاف کی حکمرانی کو آستین کے سانپوں سے اندرونی خطرہ ضرور ہے لیکن حکومت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے خیبر پختون خواہ،بلوچستان اور پنجاب میں تحریکِ انصاف کے وزراء اعلیٰ کتنے قابلِ اعتماد ساتھی ہیں وہ وزارتِ اعلیٰ کے قابل ہیں یا نہیں لیکن وزرِ اعظم ان کی کار کردگی سے مطمئن ہیں نہ صرف مطمئن بلکہ ان سے خوفزدہ بھی نہیں اگر عمران خان اپنی حکمرانی کے لئے کوئی خطرہ محسوس کرتے تو اپنے تین شرارتی وزیروں کو تحریکِ انصاف کی آکھ نہ دکھاتے۔

آنکھ دکھائی تو بات ان کی سمجھ میں آگئے اور پرانی تنخوا ہ پر کام کے لئے وزیرِ اعظم کے حضور پیش ہوگئے میڈیا میں اپوزیشن کے دربا ری بھی پریشان ہو گئے ، اس لئے اپوزیشن کی طرف سے کوئی ایسا طوفان نظر نہیں آرہا ہے جس میں عمران خان یا اس کی حکمرانی بہہ جائے گی البتہ بیروکریسی،آزاد میڈیا۔ اور ذخیرہ فلوقت پریشانی کے باعث ضرور ہیں لیکن قوم بھی بخوبی جانتی ہے کہ سابقہ ادوارِ حکمرانی کے معاملات کی صفائی میں وقت لگے گا ۔

وقتی طور پر نظامِ حکمرانی میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی لیکن قوم صبر کی عظمت سے بے خبر نہیں۔تحریکِ انصار ف کے اتحادی بعض اوقات چادر سے پاؤں باہر نکال لیتے ہیں لیکن وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں ہو گا کو سابقہ ادوار میں ہوا کرتا تھا کیونکہ عمران خان نہ قوم کا لہو پیتا ہے اور نہ کسی کو پینے دے گا اگر موجودہ حالات میں کچھ مشکل درپیش ہے تو وہ قوم کا بے لگام میڈیا ہے جسے لگام تو نہیں دیا جس سکتا لیکن اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے رہی بیوروکریسی اور ذخیرہ اندوز مافیہ تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین سابق حکمران اپنے ساتھ لے گئے ہیں اور وزیرِ اعظم عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا ، قومی خزانہ لوٹنے والوں کے لئے بھی یہ ہی کہا تھا آج وہ دربدر ہیں بیروکریسی اور ذخیرہ اندوز مافیہ کا بھی وہ ہی حشر ہو گا لیکن اس میں وقت لگے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :