نظریات کی غلامی ضمیر کے خون کے مترادف ہے

منگل 6 اکتوبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

قومی سیاست میں اپوزیشن اور حکومت دست و گریبان ہیں عوام پریشان ہیں نام نہاد جمہوریت کے علمبردار عوام کی مشکلات کا رونا روتے ہیں لیکن انتخابات میں ان ہی عوام کے فیصلے کو تسیلم نہیں کرتے لاشوں پر سیاست کرنے والے انتخابات کے نام پر سیاسی کھیل کھیلتے ہیں جیت جائیں تو بھنگرے اور ہار جائیں تو دھاندلی !خود پرست سیاستدانوں کی سیاست ان کی ذات کے گردطواف میں ہے انہوں نے نہ تو کھبی قومی وقار کو سوچا او ر نہ عوام کے بنیادی حقوق اور نہ اداروں کی عظمت کو سوچادورِ حاضر کی حکمرانی سے قبل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے اپنے حواریوں کے ساتھ پہلے ایک دوسرے کی حکومت گراتے رہے اور اب مل کر تحریکِ انصاف کی حکمرانی کے درپے ہیں اپوزیشن کی قیادت لینڈ کروزر میں اور سیاسی مزدور جوتے اتارے سڑکوں پر ان کے ساتھ دوڑ رہے ہیں جبکہ حکومت نے بھی اپنے درباری اپوزیشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیئے ہیں !
   پاکستا ن کے ایک عام شہری نے اپنی جے جے کے لئے میاں محمد نواز شریف اور انکے درباریوں کے خلاف تھانہ شاہدرہ میں غداری کا مقدمہ درج کر کے میڈیا کو نیا موضوع دیدیا ۔

(جاری ہے)

تین بار کے منتخب وزیرِ اعظم کے خلاف غداری کا مقدمہ پاکستان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے تسلیم کرتے ہیں کہ میاں صاحب نے اے پی سی کے اجلاس میں قوم سے خطاب میں افواجِ پاکستان اور دوسرے قومی ادراروں کی توہین کی اس سے قوم انکاری نہیں!!! لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں صاحب نے مارشل لاءکی گود میں سیاسی آنکھ کھولی اور اپنی طویل حکمرانی کے دور میں شاہانہ زندگی کے مزے لوٹے اگر ایسے شاہ کو سپریم کورٹ کہہ دے کہ تم صادق اور ا مین نہیں اور اس کے خلاف مقدمات کے انبازر لگا دیئے جائیں توجب اسے اپنا عیاش سیاسی مستقبل تاریک نظر آئے اس کے سر پر موت کی تلوار آویزاں کر دی جائے شریکِ حیات بھی مشکل کی گھڑی میں ساتھ چھوڑ د ے اور وہ تنہائی کا شکار ہو جائے تو اس سے اس کا مخالف دعا کی توقع کیسے رکھ سکتا ہے ایسی سوچ تو بے وقوف ہی سوچ سکتا ہے رہی بات غداری کے مقدمے کی تو پاکستا ن میں یہ کوئی نئی بات نہیں پاکستان میں مخالفین کو کافر کہہ دینا یا غدار کہہ دینا کوئی بڑی بات نہیں وطنِ عزیز میں محترمہ فاطمہ جناح، خان عبدالولی خان اور ان کے والد خان عبدالغفار خان ،محمود اچکزئی، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان اور الطاف حسین کو غدار کے خطاب سے نواز گیا لیکن پھر ان غداروں کو عوام کے سامنے گلے بھی لگایا گیا اب اگر نواز شریف پر الزا م لگا ہے تو کوئی نئی بات نہیں بلاول بھٹو نے کہہ دیا ہے کہ سیاستدانوں کے لئے ایسے القاب ان کا اعزاز ہے !
 مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں افواجِ پاکستان اور قومی اداروں کی توہین کے لئے اپوزیشن سڑک پر متحرک ہے اس لئے کہ دو سال تک پارلیمنٹ میں تو حکومت گرا نہیں سکے ان کی اپنی جماعتوں میں وطن پرستوں نے ان کی ہر تحریک ناکام کر کے حکومت کی تحریک کے حق میں ووٹ دیا سڑکوں پر ایک دوسرے کو گھسیٹنے والے اب مل کر عوام کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے ہیں قومی اسمبلی میں۔

کچھ شرم ہونی چاہیے کچھ حیا ہونی چاہئے بولنے والے ڈائیلاگ کے خالق خواجہ آصف کہتے ہیں آصف علی زرداری پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کے جواب میں آصف علی زرداری کہتے ہیں یہ مشکوک آدمی ہے ایسوں سے قوم کیا امید رکھ سکتی ہے کہ وہ دیس اور دیس والوں کے لئے سڑکوں پر نکلے ہیں ایسا سوچنا بھی جرم ہے کیا اپوزیشن قوم کو بتا سکتی ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں وہ کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جن کا رخ عمران خان نے بنی گالا کی طرف موڑ دیا ہے دراصل غیر یقینی فطری اتحاد کے ان سیاست دانوں کے نظریات مختلف ہیں وطن عزیز میں عدم استحکام کے لئے ایک دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر ہوائی فائر کر رہے ہیں لیکن ان کا یہ اتحاد بہت جلد سمندر کی جاگ کی طرح بیٹھ جائے گا!!! اس لئے کہ پاکستان کے عوام ان خود پرستوں کو جان چکے ہیں افواجِ پاکستان سے محبت کرنے والی قوم کھبی بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے ان کا ساتھ شعور کے اندھے دے رہے ہیں نظریات سے محبت کوئی جرم نہیں لیکن نظریات کی غلامی ضمیر کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :