اللہ مرے دیس کو اپنوں سے بچا لے

جمعہ 13 نومبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

آج کی قومی سیاست میں سیاسی راہنماؤں کی بد زبانی عروج پر ہے اپوزیشن اور حکمران دونوں اخلاقیات کے دامن پر بد نما داغ ہیں پارلیمانی جمہوریت عوامی حکمرانی کے لئے دنیا کا بہترین نظام ہے لیکن ہم پاکستانی اس نظام کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ہم اپنا راج چاہتے ہیں اور اپنے راج میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ، اگر ہمارے ذاتی مفادات کی دم پر کوئی پاؤں رکھتا ہے تو بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارا وہ دیس ہے جسے ہم رب العزت کی عطا میں مدینہ ثانی کہہ سکتے لیکن ہم اپنے ذاتی مفادات کے لئے قوم ،قومیت اور قومی استحکام کو نظر انداز کر دیا کرتے ہیں اس لیئے میں عرصہ دراز سے لکھ رہا ہوں کہ ہم پاکستان کے عوام، پالیمانی جمہوریت میں حکمرانی کے اہل نہیں نظامِ حکمرانی کی تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن صاحبِ اختیار اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے! ہم پاکستان کے عوام اقتدار کے لئے پارلیمانی جمہوریت کے استحکام کے لئے نمائندے منتخب کرتے ہیں اس لیے کہ وہ پاکستان اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے اپنا قومی اور مذہبی کردار ادا کریں اور نعمت ِ پاکستان پر رب العزت کے حضور سجدہ ء شکر ادا کریں لیکن ہمارے منتخب راہنما کیا کر رہے ہیں پوری دینا پاکستان میں سیاسی بد انتظامی اور عو امی نمائندوں کی بد زبانی کا تماشہ سینٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں د یکھ رہی ہے سینٹ اور اسمبلیاں کسی مچھلی بازار سے کم نہیں
 پارلیمانی جمہوریت کے علم بردار ذوالفقار علی بھٹو کو آستین کے سانپ نے ڈسا اور قومی سیاست میں ایم کیو ایم اور میاں محمد نواز شریف کے سیاسی کردار کا پودا لگایا۔

(جاری ہے)

کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا افغانستان میں مجاہدین کی حوصلہ افزائی کی اور اس کی سزا آج بھی دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں سابقہ دور حکمرانی میں پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادوں نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا ہر محبِ وطن پاکستانی بخوبی جانتا ہے، گندی زبان کی سیاست اور بد عنوانی کے فروغ میں ایک کی حکمرانی جانے لگتی ہے تو اس کے نمک خوار نمک حرامی کے لباس میں اڑ کر اس شاخ پر بیٹھ جاتے ہیں جس کی ثمر باری کی انہیں امید ہوتی ہے قومی سیاست میں چند خاندان اور پیشہ ور عوامی نمائندے پاکستان کی سیاست پر قابض ہیں ان کو اپنی حکمرانی کے سوا نہ تو پاکستان عزیز ہے اور نہ پاکستان کے ادارے۔

قانو ن اور عدالتیں ان کے اشاروں پر قومی عظمت کا تماشہ لگائے دینا کو پاکستان کا خوبصورت چہرہ بد صورت کر کے دکھا رہے ہیں!
گلگت بلتستان میں الیکشن کا ڈرامہ دنیا دیکھ رہی ہے حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کی بد زبانی پر جاہلوں کو بھی شرم آنے لگی ہے اپوز یشن اور حکمران جماعت کے علمبردار جوشِ خطابت میں بھول جاتے ہیں کہ ان کی بدزبانی قوم اور قومیت کی تو ہین ہے پڑھے لکھے جاہل یہ بھی نہیں سوچتے کی جن سے وہ خطاب کر رہے ہیں وہ ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہو ں گے اپوزیشن برملا کہہ رہی ہے کہ اگر گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہم ہا ر گئے تو ہم اپنی ہار تسیلم نہیں کریں گے انتخابی جلسوں میں اپوزیشن اور حکمران جماعت کے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے ہیں جانے ان رہنماؤں کو کیوں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ان کے ووٹر ہیں ان میں زیادہ تر لوگ تماش بین ہوتے ہیں اور جو جھنڈے لہرا رہے ہوتے ہیں وہ بریانیاں کھانے کا حق ادا کر رہے ہوتے ہیں اس لئے ہم پاکستان اور افواج ِ پاکستان سے محبت کرنے والے سوچ رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں عوام نے اپوزیشن کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیا تو وہ ہی کچھ ہو گا جو آجکل امریکہ میں ہو رہا ہے لیکن اگر اس کے باوجود بھی تحریک ِ انصاف وہاں حکومت بناتی ہے تو اسمبلی کے اندر وہ ہی کچھ ہوگا جو آج کی اسمبلیوں میں ہو رہا ہے ایسی صورت میں حکومت اور اپوزیشن گلگت بلتستان کے عوام کی کیا خدمت کر سکے گی اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ کوئی تبدیلی آئے تو بہتر ہو گا کہ پارلیمانی جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائیخود پرست نام نہاد عوامی نمائندوں سے نجات حاصل کی جائے ۔

نظامِ حکمرانی کے تبدیلی کا فیصلہ گو کہ بڑا مشکل ہے لیکن کوئی فیصلہ توکرنا پڑے گا بہت ہو گئی پاکستان اور افواجِ پاکستان کی توہین !!
 لیکن اگر حکمران جماعت اپنے درباریوں کی خوشنودی کے لئے گالی کا جوب گالی میں دے تو پھر میرے پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے!
 دشمن تو مرے دیس سوچا نہیں کرتے
اللہ مرے دیس کو اپنوں سے بچا لے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :