میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں

جمعرات 3 اکتوبر 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

خرابوں اور سرابوں کے قصّے کوئی نئے تو نہیں۔وہاں بربادیوں کی داستانیں کہنگی میں ڈھلتی جاتی ہیں۔اہلِ کشمیر نے ہزاروں سلگتی شامیں، سیکڑوں کُرلاتی راتیں اور اشکوں کی دھند میں اٹے اَن گنت دن دیکھے ہیں۔آستینوں کا لہو بھی صدائیں دے دے کے تھک چکا تھا مگر ہر سیاست دان مسئلہ ء کشمیر کو فقط اپنی سیاسی دکان داری کے لیے ہی استعمال کرتا رہا۔

اسی غفلت شعاری اور تساہل پسندی نے مسئلہ ئکشمیر کو گہری مہیب دلدلوں میں دھکیل دیا تھا۔بھارتی جارحیت طشت از بام ہوتی رہی مگر پاکستانی سیاسی طلسم کدے میں لارا لپوں کے علاوہ کوئی تلاطم اور بھونچال نہ آسکا۔کسی وزیرِ اعظم کے جوشِ جنوں میں اتنے تپّڑ نہ تھے کہ اپنے دل کے پھپھولے اور سینے کے داغ عالمی برادری کے سامنے رکھ سکے مگر اب رُتیں بدلنے لگی ہیں۔

(جاری ہے)

جنرل اسمبلی میں عمران خان کے ایاک نعبد و ایاک نستعین سے لے کر لا الہ الا للہ تک انتہائی تمکنت آفریں 50 منٹ گزشتہ 50 سالوں پر بھاری تھے۔واہموں اور وسوسوں کے ہجوم اور غول سے نبرد آزما قوم کے قلوب و اذہان میں غایت درجے کا احساسِ تفاخر اتر آیا ہے۔پہلی بار کسی پاکستانی وزیرِ اعظم نے یورپ اور مغرب کے خوب لتّے لیے۔
 عجب شخص گزرا ہے اس راستے سے
 سحر جیسی گردِ سفر دیکھتا ہوں
اس مردِ قلندر نے اقوامِ متحدہ کوجھنجوڑا، اس نے عالمی برادری کے شانے پکڑ پکڑ کر اسے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کی کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دلانے کے لیے کچھ کرے۔

کشمیر کے 13 ہزار نوجوان آج بھارتی فورسز نے غائب کر دیے ہیں، ان کی کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ وہ زندہ بھی ہیں یا گمنام قبروں میں دفن کر دیے گئے؟ اس مردِ درویش نے نائین الیون کے خود کش حملوں کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی دلائل کے ساتھ مذمت کی۔اس نے مکمل درد مندی اور کامل جرات آفرینی کے ساتھ کہا کہ یہ حملے تامّل ناڈو کے دہشت گردوں نے کیے، جو ہندو تھے۔

اس مردِ آزاد منش نے آر ایس ایس کی دہشت گردی کا بھانڈا بیچ جنرل اسمبلی کے پھوڑا کہ یہ ہٹلر اور میسولینی سے متاثر ہو کر مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت کے لیے بنائی گئی ہے۔
 یہ کیا شبنم کا قطرہ کہ گیا ہے
 سمندر تلملا کر رہ گیا ہے
حجاب سے لے کر پیغبرِ اسلام کی توہین تک، یہودی اور ہولوکاسٹ سے لے کر کلبھوشن اور مودی کی دہشت گردی تک اور اقوامِ متحدہ کی عدم دل چسپی سے لے کر نیو کلیئر جنگ تک ہر لفظ کا لمس امتِ مسلمہ کے لیے عطر بیز اور سحر خیز پیام پر مشتمل تھا۔

بھارت نے 9 لاکھ فوج کے ذریعے 80 لاکھ مجبور و مقہور کشمیریوں کو محصور کر رکھا ہے۔بچوں، بوڑھوں اور بیماروں سمیت 80 لاکھ لوگ قیدوبند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں۔مودی نے انتہائی موذی اور وحشیانہ اقدامات کر کے اہل کشمیر کی سانسیں دوبھر کر دی ہیں۔ کشمیر کی وادیاں ہوں یا شہزادیاں، وہاں کے مرغزار ہوں یا سرسبز کوہسار، آج اداسیوں میں ڈھلے ہیں۔

آج بھارتی وزیر داخلہ کہتا ہے کہ پاکستان سے 500 دہشت گرد داخل ہونا چاہتے ہیں۔پاکستان دہشت گرد کیوں بھیجے گا جب وہاں پہلے سے 9 لاکھ فوج تعینات ہے۔چند لوگ بھلا لاکھوں مسلح فوجیوں کے سامنے کیا دہشت گردی کریں گے؟ 500 دہشت گرد جو ابھی داخل ہی نہیں ہوئے ان کا تو واویلا اور اودھم مچایا جا رہا ہے مگر 9 لاکھ بھارتی دہشت گرد فوج نے پوری وادی کو مقتل بنا کر لہولہان کر رکھا ہے، کے متعلق بھارتی وزیر داخلہ کے لبوں پر سکوت کیوں طاری ہے؟
 ہوا عادی نہیں ہے مشوروں کی
 چراغوں کو ہی سمجھانا پڑے گا
 زباں سے تو سمجھتا ہی نہیں ہے
 تجھے ہاتھوں سے سمجھانا پڑے گا
المیوں کے ہجوم میں گِھری اس پاکستانی قوم کا ایک المیہ یہ بھی تو ہے کہ یہ اسلام اور پاکستان سے زیادہ اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں اور سیاسی قائدین سے محبت کرتی ہے۔

جو اُن کا سیاسی قائد کہے وہی اسلام اور حبّ الوطنی سے ہم آہنگ گردانا جاتا ہے۔مخالف سیاسی پارٹیوں کی ہر بات اور ہر جذبہ سرے سے غلط اور ملک دشمنی سے تعبیر کرنا تقریباً ہر سیاسی کارکن کا وتیرہ اور شعار بن کر رہ گیا ہے۔یہاں لوگ خامیوں کے متلاشی رہتے ہیں۔سوشل میڈیا پر محاسن کی بجائے معائب کھوج کر طعنہ زنی کرنا لوگوں کا سب سے اہم مشغلہ بن چکا ہے۔

جنرل اسمبلی میں عمران خان کی جرات مندانہ گفتگو کو دادوتحسین سے نوازنے کی بجائے وہی اعتراضات کی روش کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ کبھی کہا گیا کہ کشمیر کا سودا کر آیا ہے تو کبھی جگالی کی گئی کہ عمران خان کی باتیں محض تقریر کی حد تک ہیں، عملی طور پر کچھ نہیں۔لوگوں کو صحراؤں میں آبلہ پائی کر کے بھی اعتراضات و اشکالات کھوجنے پڑیں تو دریغ نہیں کرتے۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ تقریر انگریزی زبان میں کیوں کی گئی؟
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان کا ترجمہ اس زبان کا متبادل ہر گز نہیں ہوا کرتا۔ترجمے میں بہت سی کمی کجی رہ جایا کرتی ہیں اور جذبات و احساسات کے اتار چڑھاؤ اور لب و لہجے کے جوش و خروش کا تو ترجمہ کرنا بھی محال ہوتا ہے۔ سو انگریزی میں تقریر کرنا کوئی معاشرتی، اخلاقی یا مذہبی جرم ہر گز نہ تھا۔

کسی نے نقدوجرح کی کہ عمران خان تو حافظ سعید کی زبان بول رہا تھا۔جی ہاں! جس شخص کے اندر اسلام، پاکستان اور پاک فوج کی محبت کے دیپ فروزاں ہوں گے وہ عالم کفر کو حافظ سعید ہی تو دکھائی دے گا۔حافظ سعید کی اسلام کے متعلق شعور نوازی اور پاکستان کے بارے میں محبت آفرینی کے باعث انھیں مطعون کرنے کے لیے بھارتی میڈیا ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔
دعا کرو کہ سلامت رہے مری ہمت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
اسلام کی باقاعدہ دعوت کا آغاز تقریر ہی سے تو ہوا تھا۔

کوہِ صفا کی پہاڑی پر دنیا کے سب سے عظیم المرتبت اور محترم المقام انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر ہی تو کی تھی۔نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیار کی تقریر سن کر نجاشی کے دل کی کایا پلٹ گئی تھی۔جنگِ بدر سے لے کر اب تک تاریخ اسلام کے اوراقِ کو کھنگال لیجیے ہر سپہ سالار نے جنگ سے قبل اپنے فوجیوں سے خطاب ہی کیا تھا۔اور وہ جس نے اندلس کے ساحل پر کشتیاں جلا ڈالی تھیں اس طارق بن زیاد نے اپنی فوج کے اندر تقریر ہی کے ذریعے لڑنے کا آہنی عزم پیدا کر دیا تھا سو ہم تقریر کی اہمیت و افادیت سے سرِمو انحراف کر ہی نہیں سکتے۔

میں کہتا ہوں فضل الرحمان سمیت ہمارے تمام سیاسی علما میں سے کسی کو بھی 195 ممالک کے سربراہان کے سامنے کھڑا کر کے تقریر کرنے کو کہا جاتا تو ایسی جامع، مدلل اور اسلام کی نمائندہ تقریر کوئی کر ہی نہیں سکتا تھا سو عمران خان کے عزم و ہمم پر تمام خوش رنگ مناظر قربان۔تیرگیوں کو لتاڑنے کے سفر پر گامزن عمران خان کے حوصلے پر چاند جگنو اور ستارے نچھاور۔
میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :