حکومتی اتحادی اور کارگردی

ہفتہ 9 فروری 2019

Hussain Jan

حُسین جان

تحریک انصاف نے بہت سے سیاسی لوگ دوسری جماعتوں سے اکھٹے کیے گئے۔ پھر کہا گیا کہ چونکہ عمران خان خود ایک ایماندار لیڈر ہیں لہذا یہ دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے بگڑے لوگوں کو بھی سدھار لیں گے۔ پنجابی میں ایک کہاوت ہے کہ مڈاں دے وگڑئے کدی نی سدردے۔ تو یہی حال اس وقت اتحادیوں کا ہے۔ یہ تو خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک اس حکومت میں کوئی کرپشن کا سکینڈل نہیں آیا۔

ہاں پنجاب کے سینر وزیر علیم خان کو نیب نے حراست میں لے لیا ہے۔ اور ان پر مقدمات بھی کافی پرانے ہیں۔ یعنی ان مقدمات کا موجودہ حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ویسے بھی ہمارے ہاں سیاستدانوں کی گرفتاریوں کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ جب جب کوئی سیاستدان جیل گیا جا مقدمہ بنا اُس نے واویلا مچایا کہ مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

کراچی میں بے نامی بینک اکاونٹس کا بڑا چرچا رہا مگر ابھی تک اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔ نواز شریف صاحب کو عدالت نے سزا سنائی لیکن وہ آج تک خود کو بیگناہ قرار دے رہے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کا بھی یہی حال ہے۔ سنا وہ نیب کو مطلوب ہیں۔ مگر عوام کی پہنچ میں ہیں۔ یعنی روز ٹیلی ویثرن پر تو نظر آتے ہیں۔ مگر نیب احکام کو دیکھائی نہیں دیتے۔ زرداری صاحب نے نو سال جیل کاٹی اور سرخرو ہو کر نکلے۔

تو بھائی آخر کرپشن کی کس نے۔ کیا ساری کرپشن فوج، عدلیہ یا بیوروکریٹس نے ہی کی۔ باقی سب لوگ پاک صاف ہیں۔ اور مندرجہ بالا اداروں پر تو ویسے بھی کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
پاکستان کے عوام کی یہ بد نصیبی ہے کہ اسے کبھی ایسا حکمران نہیں ملاجو ان کے دکھ درد کا مدواہ کرنے میں سنجیدہ ہو۔ ہاں عمران خان اندھرئے میں روشنی کا چراغ ضرور ہے۔

لیکن اس کے ساتھ جو لگ جڑئے ہوئے ہیں وہ آج بھی روایتی سیاست کرنے کے چکر میں ہیں۔ وہ لوگ ابھی بھی متعلقہ تھانے کا کنٹرول سمھبالنا چاہتے ہیں۔ پٹواری اُن کو اپنی مرضی کا چاہیے۔ ایسے میں تبدیلی کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت مشکل ہے۔ جو سیاستدان اپنے مفاد کو عوامی مفاد پر ترجحی دیں۔ اُن سے کسی بہتری کی اُمید رکھنا سراسر بیوقوفی ہے۔


قومی اداروں کی زبوں حالی ہمارے سامنے ہیں۔ صرف سیاستدانوں سے توقع رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔ سرکاری اداروں اور ان میں موجود لوگوں کو بھی سیدھی طرف لانا بہت ضروری ہے۔ مہنگائی بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔بے روزگاری کا جن بھی بے قابوہوچکاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم کی طرف بھی ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جب تک آپ عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کریں گے تب تک عوام میں مقبول ہونا بہت مشکل ہے۔ ہمارے وزرا فی الحال تو بیان بازیاں ہی کر رہے ہیں۔ عملی طور پر اقدامات نظر نہیں آرہے۔
آپ نے احتساب کرنا ہے ضرور کریں اور میرٹ پر کریں۔ کسی کرپٹ کو معافی مت دیں۔ لیکن یہ نا ہو کہ احتساب کے بیانات پر ہی پانچ سال گزر جائے اور عوام منہ تکتے راہ جائیں۔

پھر بھول جائیں گے آپ کو دوبارہ ووٹ پڑیں گے۔وزیر ریلوئے جناب شیخ رشید صاحب بھی روز نت نئے بیانات اور انکشافات کرتے رہتے ہیں۔میڈیا پر چھانے کا وہ فن جانتے ہیں۔ بلکہ وہ تو یہاں ک کہے ہیں کہ میری وجہ سے میڈیا ہاوسز والوں کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔ ہم مانتے ہیں آپ بہت زیرک سیاستدان ہیں۔ موقعے سے فائدہ اُٹھانے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔

لیکن ریلوئے کی حالت ابھی بھی کچھ بہتر نہیں۔ آج بھی لاہور ریلوئے اسٹیشن پر باہر سے ٹکٹ مل رہے رہیں۔ مزہ تو تب ہے کہ آپ ریلوئے ٹریک بڑھائیں اور اتنا پھیلائیں کہ ملک کے چھپے چھپے پر ریل جاتی ہو۔ تب ہی لوگ آپ کو سیاستدان سمجھیں گے۔ بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کو ہمارئے ہاں چھڈو کہتے ہیں۔ یعنی جو صرف باتیں کرئے اور باتیں بھی وہ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نا ہو۔


چوہدری برادران کی خبریں بھی گرم ہیں کہ وہ روز کوئی نا کوئی ڈیمانڈ سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ الطاف حُسین اور چوہدریوں میں کوئی فرق نا ہوا ۔ وہ بھی اپنی اتحادی حکومت سے ہر وقت مطالبات ہی کرتے رہتے تھے۔ اور جب تک اُن مطالبات کو منوا نہیں لیتے تھے تب تک حکومت کی ناک میں دم کیے رہتے تھے۔ چوہدری برادران روایتی سیاستدان ہیں۔

عوام کے مسائل سے زیادہ اُنہیں اپنا اقتدار عزیر ہے۔ وہ بس حکومت میں رہناچاہتے ہیں۔ ہرئے جھنڈئے والی گاڑی اُن کو عزیز ہے۔ اسی لیے تو روز ہی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
کچھ یار دوستوں کا کہنا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عمران خان اتحادیوں کو منانے میں ہی پانچ سال صرف کردیں۔ اور لوگوں سے کیے گئے وعدئے پس پست چلے جائیں۔ سیاستدانوں کا کیا ہے وہ آج ایک جماعت میں ہیں تو کل دوسری جماعت میں چلیں جایں گے۔

عمران خان کو چاہیے کہ وزرا کو حکم دیں کہ وہ اپنی ساری توجہ صرف اور صرف کارگردگی پر رکھیں ۔ بیان بازی پر زیادہ دھیان مت دیں۔ ہاں اپوزیشن کے الزامات کا جواب ضرور دیں۔ لیکن اس کے لیے اپنی ساری توانانی ضائع مت کریں۔ عوام کی فلاح و بہود کے لیے جتنے اقدامات ہوسکتے ہیں وہ کریں۔ تاکہ جب دوبارہ ووٹ لینے عوام میں جاہیں تو جوتوں کی بجائے پھولوں سے استقبال ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :