سیاسی ڈاکٹرآئن ہی نشانہ پر کیوں؟

جمعہ 9 اکتوبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

اسلام آباد کی سیاسی فضا میں ہلچل نظر آنا شروع ہو گئی ہے آہستہ آہستہ ایوانِ بالا کی راہداریوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں جب سے میاں محمد نوازشریف نے ایک طویل عرصے کی خاموشی کے بعد “ووٹ کو عزت دو” کے اپنے بیانئیے پر دوبارہ لب کشائی کی ہے اور یہ کہا ہے کے مرحلہ وار احتجاج میں شدت آئے گی اور کھل کر اعلانِ جنگ کیا ہے تو اس وقت سے ایک بڑے تصادم کی بو آنے لگی ہے، خبر ہے کہ آرمی چیف سے محمد زبیر کی دو بار ملاقاتیں ہوئیں، یہ ملاقاتیں اگست کے آخری ہفتے اور ۷ستمبر کو ہوئیں ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجودتھے، ملاقات میں نواز شریف اورمریم نواز سے متعلق باتیں ہوئیں جہاں آرمی چیف نے اس ملاقات میں کہا کہ ان باتوں سے فوج کودوررکھاجائے، آرمی چیف نے واضح کیا قانونی مسائل عدالتوں میں حل ہوں گے،اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیں ۔

(جاری ہے)

ہر محب وطن پاکستانی اپنی فوج سے محبت کرتا ہے اور اپنی فوج کو سچا، ایماندار اور شہادت کے جذبے سے سرشار دیکھتا ہے پاکستان کے آئین کے مطابق فوج سے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا حلف لیا جاتا ہے مگر کیوں حقیقت اس کے برعکس محسوس ہوتی ہے؟ تقریباً پچھلے پانچ سالوں سے عوام یہ محسوس کر رہی ہے کہ وردی میں ہونے کے باوجود سیاست پر کھل کر گفتگو ہوئی ہے۔

کئی مواقع پر تو صبح شام سیاسی معاملات پر گفتگو ہوتی رہی رہے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر” وتعز من تشا و تزل و من تشا” کے ٹوئٹس آتے رہے ہیں لیکن عوام کو آنکھیں بند کرکے ماننا چاہیے کہ سیاست سے اداروں کا کوئی تعلق نہیں اس کی کئی مثالیں آن ریکارڈ ہیں جنہیں ہر بندہ پڑھ، دیکھ اور سن سکتا ہے مثال کے طور پر اگر قانونی معاملات عدالتوں نے ہی حل کرنے ہیں تو آپ کا پیش رو آصف غفور کس حیثیت کہہ رہا تھا کہ ہر پاکستانی کی طرح پاک فوج بھی پاناما کیس فیصلے کی منتظر ہے۔

آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے کس حیثیت سے پانامہ جی آئی ٹی کے ممبرز بنے اس وقت ان نمائندوں نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے اس سے ہمیں دور رکھا جائے؟جج ارشد ملک سے کس نے کس طرح اور کیسے دباؤ ڈال کر فیصلہ کروایا جج ارشد ملک کی معطلی کس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے؟ جب اداروں کا تعلق سیاسی معاملات سے نہیں تو ادارے کس حیثیت سے معیشت پر سیمنارز منعقد کرواتے رہے ہیں؟اسی طرح اگر سیاسی معالات سے اداروں کا تعلق نہیں ہے تو 2014 کو ریاست کے خلاف اٹھنے والے دھرنے کے بلوائیوں کے خلاف آنسو گیس کے استعمال پر اس وقت کے کور کمانڈر کس حیثیت سے اپنی تشویش کا اظہار کررہے تھے؟ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کس کی شہ پر ہوا؟۔

اگر سیاسی معالات پارلیمنٹ کا کام ہے تو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ پرویز مشرف کے خلاف پارلیمنٹ کی منظور کردہ عدالتی کارروائی پر کور کمانڈر کس حیثیت سے تشویش کا اظہار کررہے تھے؟ ریٹائر ہونے کے بعد وہ باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے دوسری سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی طرح اپنی ماضی کی، کی گئی غلطیوں پر عوام کو جواب دہ تھے۔

عدالتی معاملات سے اداروں کو دور رکھا جائے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار کونسل سے خطاب کے دوران حلفاً کہا کہ حساس اداروں کے اہلکار عدلیہ کے کاموں میں مداخلت کرتے ہوئے اپنی مرضی کے بینچ بنواتے ہیں اور مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں جس کی سزا جسٹس شوکت عزیز صدیقی اب بھگت رہے ہیں اگر قانونی معاملات عدالتوں نے ہی حل کرنے تھے تو ایک ملاقات میں حساس اداروں کے اہلکاروں نے کس حیثیت سے جسٹس شوکت صدیقی سے پوچھا کہ اگر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی تو اس پر ان کا کیا ردعمل ہوگا؟ اور جب شوکت عزیز صدیقی نے ان پر واضح کیا کہ اس اپیل پر قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے گا تو اس کے جواب میں ایک اہلکار نے کس قانون کے تحت دھمکی دی اور کہا کے"اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی" وہ اداروں کی دو سالہ محنت کون سی تھی؟ کیوں وزیراعظم خاقان عباسی کو فون کرکے مولوی خادم حسین کے گالیوں بھرے دھرنے کے خلاف کاروائی سے منع کیا گیا تھا؟ حالانکہ اس کاروائی کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ نے دیا تھا۔

انتخابات ایک سیاسی عمل ہے تو اداروں کے نمائندے کس حیثیت سے دشمن کو ووٹ سے شکست دینے کی دھمکیاں دے رہے تھے آج ذرا بتادیں کہ وہ دشمن کون تھا؟ کس حیثیت سے آصف غفور تبدیلی کی خوشخبری سنا رہے تھے، اور کس حثیت سے لوگوں کو سیلیکٹڈ حکومت کے بارے میں مثبت رپورٹنگ کا بھاشن دے رہے تھے۔ جب سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل ہونے تھے تو 16 ستمبر کو کس لیے اپوزیشن جماعتوں کے راہنماؤں کو دعوت پر بلایا؟ قانونی طور پر سیاسی لوگوں کا کسی سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن ایک غیر سیاسی سرکاری ملازم کس حیثیت سے سیاست دانوں کو بلاتا ہے اور انہیں دھمکاتا ہے عوام اب یہ سب کچھ بھی جاننا چاہتی ہے کیونکہ اب عوام میں شعور پیدا ہو چکا ہے کیونکہ آپ ایک حد تک تو ذرائع ابلاغ کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں مگر عالمی ذرائع ابلاغ جو کچھ آپ کی ان پابندیوں کے بارے میں لکھ رہے ہیں وہ آپ کے اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔

اور اب نون لیگ پر اور وزیراعظم آزاد کشمیر پر غداری جیسے مقدمات کے بعد عوام آہستہ آہستہ اب یہ سمجھنے لگ رہی ہے کہ درحقیت بس چند ہی دنوں کے اندر اداروں نے نواز شریف کا بیانیہ سچا ثابت کیا ہے کہ73 سالوں سے اس ملک کی سیاست سے بس اداروں کا ہی تعلق ہے سیاست دان تو بس پارٹ ٹائم کے لیے آتے ہیں اور جب تک مخصوص اداروں کی مرضی ہو جی حضوری کرکے وقت گزارتے ہیں جی حضوری ختم سیاست ختم‘شاید اب سیاست کی ڈاکٹرائن کے ساتھ ساتھ اداروں کی ڈاکٹرائن کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے، اگر سمجھیں تو!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :