اسرائیل سے تعلقات پر قائد اعظم کا اصولی موٴقف!۔قسط نمبر1

جمعہ 27 نومبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

آج کل پوری دنیا میں اسرائیل سے عرب ممالک کی ایک ایک کر کے تعلقات کی سفارتی سطح پر بحالی موضوع بحث ہے اور مسلم دنیا کے مختلف ممالک اپنا اپنا موٴقف دیتے نظر آتے ہیں۔ زمینی حقائق کیا ہیں وہ آگے چل کر بیان کرنے کی کوشش کروں گا مگر پہلے کچھ حقائق ماضی کے اوراق سے اور وہ یہ کہ کچھ دن پہلے ایک پاکستانی صحافی کی طرف سے ایک اسرائیلی خبررساں ادارے کو دئیے گئے غیرذمہ دارانہ انٹرویو کے بعد عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور اس صحافی کو سوشل میڈیا پر بہت شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس صحافی کا اس انٹرویو کے دوران یہ کہنا کہ “ہمیں بچپن سے یہی بات سکھائی جاتی ہے اسرائیل ہمارا دشمن ہے” سراسر غلط اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ بات ہے میرے خیال میں یہ اس صحافی کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے مگر بحیثیت قوم تو ہم سب کی اسرائیل کے بارے میں وہی رائے ہے جو بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی تھی۔

(جاری ہے)

اس صحافی کی اس بات سے اس اصل اور اصولی موٴقف کی نفی ہوتی ہے جو کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ نے آج سے تقریباً 90 برس قبل اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کے بعد اپنایا تھا۔

اسرائیل جب اس وقت سفارتی سطح پر تعلقات بنانے کے لیئے پاکستان پر جو دباوٴ ڈال رہا ہے تو ایسی صورتِ حال میں بحیثیتِ ایک مسلمان اور پاکستانی قوم کچھ باتوں کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کا اسرائیل کے بارے میں کیا موٴقف تھا اور کیوں تھا تاکہ اس قسم کی غلط ترجمانی کی مزید کوئی گنجائش نا رہے جو اس صحافی کی طرف سے ہوئی۔

دوسرے یہ کہ اسرائیل کی پاکستان سے سفارتی تعلقات بنانے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے اس طرح کی کوششیں قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئیں تھیں یہ کوششیں کیسے شروع ہوئیں اور قائدِ اعظم کا اس پر اْصولی موٴقف کیا تھا آئیے جانتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر میں مسئلہ فلسطین پر بیداری کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا تھاتحریکِ خلافت کے بعد کے منظر نامے میں آل انڈیا مسلم لیگ (اے آئی ایم ایل) نے فلسطین اور عربوں کے حقوق کی بھر پور حمایت شروع کی۔

1930 کی دہائی میں قائدِ اعظم کی سربراہی میں فلسطین پر اہم پیشرفت دیکھنے میں آئی قائدِاعظم کی زیرِ سربراہی اس تحریک نے نہ صرف ہندوستان کے عوام میں اپنی بنیاد کو وسیع کیا بلکہ ہندوستان کے باہر بھی مختلف اقدامات کے ذریعے فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھایا قائداعظم اور علامہ محمد اقبال نے فلسطین کے مسئلے کو اجلاسوں اور سیشنوں کی ایجنڈے کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا اور واضح کیا کہ “بالفور اعلامیہ” غیر منصفانہ تھا۔

جب مارچ 1940 میں اے آئی ایم ایل کے ذریعہ قراردادِ لاہور منظور کی گئی تو قائدِاعظم نے فلسطین کی حیثیت سے متعلق بھی ایک قرارداد کو پیش کرنے کی اجازت دی ، جس کے تحت فلسطینی مقاصد کی حمایت کی توثیق کردی گئی تقسیم کے کچھ ہی دن بعد قائدِ اعظم نے عبد الرحمن صدیقی کی سربراہی میں قاہرہ میں ایک وفد بھیجنے کا اعلان کیا جو اگست 1947 کے آخری ہفتے میں فلسطین پر ہونے والی بین الاقوامی پارلیمنٹری ورلڈ کانگریس میں شرکت کے لئے تھا مزید یہ کہ سر ظفر اللہ خان کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے بھیجا گیا تھا۔

انہوں نے فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی ایڈہاک کمیٹی کے مباحثوں میں شرکت کی اور بیلفور اعلامیہ کو فلسطین کی ناجائز اور واضح طور پر مسترد تقسیم قرار دیا کہ اور واضح کیا کہ پاکستان اس ناجائز منصوبے کو کسی صورت بھی قبول نہیں کرے گا۔اپنے ایک بیان میں 12 اکتوبر 1945 کو قائد اعظم نے فرمایا کہ“یہودی کے یروشلم پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی مسلم دنیا کا ہر مرد اور عورت ایک طرح تقریباً مر جائے گا مجھے امید ہے کہ یہودی اپنے مذموم منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے اور میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکہ اپنا ہاتھ روکیں اور پھر میں یہ دیکھوں گا کہ یہودی یروشلم کو کس طرح فتح کرتے ہیں۔

عوام کی خواہشات کے خلاف پہلے ہی یہودیوں کو پانچ لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں یروشلم میں لا کر کر بسایا گیا ہے، کیا میں جان سکتا ہوں کہ دوسرے کون سے ملک نے ان کو اتنی بڑی تعداد میں قبول کیا ہے؟ میں یہ واضح کرتا چلوں کہ اگر اب فلسطینیوں کے حقوق پر غاصبانہ تسلط اور اْن کے حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے تو دْنیا کا امن ختم ہو جائے گا اور مستقبل میں جنگوں کا خاتمہ نہیں ہوگا”-اسرائیل کو پاکستان سے سفارتی تعلقات بنانے کی کوشش پر پہلی شکست اس وقت ہوئی کہ جب قیامِ پاکستان کے تقریباً ایک سال بعد اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے مئی 1948 میں قائدِ اعظم کو مملکت پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے باقاعدہ سرکاری طور پر سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے ایک ٹیلی گرام بھیجا تو قائدِ اعظم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

دوسری شکست اس وقت ہوئی جب قائدِ اعظم کی رحلت کے بعد 1949 میں ایک بار پھر اسرائیل کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے یہ اْمید ظاہر کی گئی کہ پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی میں اسرائیلی کونسلیٹ کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے یا کم از کم تجارتی تعلقات قائم کیئے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر اسرائیلی حکومت نے پاکستانی سفیروں سے مختلف یہودی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ لندن میں 1950 کے اوائل میں ایک ملاقات کی اور پاکستانی حکومت سے استدعا کی گئی کے افغانستان میں بسنے والے یہودیوں کو انڈیا منتقل ہونے کے لیئے براستہ پاکستان سفری اجازت دی جائے جسے پاکستان نے 1948 کے فلسطینیوں کی اپنی زمین سے بے دخلی کے تنا ظر میں احتجاجاً مسترد کر دیا جس کے بعد اْن کو براستہ ایران انڈیا میں داخل ہونا پڑا تھا۔

اس کے بعد 1952 میں پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اسرائیل کے خلاف سخت گیر پالیسیوں کو فروغ دیا ، اور 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے تناظر میں فلسطین کے لئے پاکستان کی اٹل حمایت کی وکالت کی۔اس طرح وزیر خارجہ ظفراللہ خان اس دو ٹوک پالیسی نے عرب ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات کی بنیاد رکھی اس کے بعد سفارتی تعلقات کی بحالی کی کوششوں کی مسلسل ناکامی کے بعد اسرائیلی حکام نے پینترا بدلا اور پاکستان پر الزام لگایا کہ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان فلسطینیوں کو فوجی امداد فراہم کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسرائیلیوں سے لڑنے کے لئے ایک پاکستانی فوجی بٹالین کو فلسطین بھیجنے کا پلان بنایا تھا جس کے لیئے پاکستان نے غالبا چیکوسلواکیہ سے ڈھائی لاکھ رائفلیں خریدی تھیں جو بظاہر عربوں کے لئے تھیں اور عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے خلاف استعمال کی جانیں تھیں جسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔

(جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :