فرانس کے سفیر کی ملک بدری!

پیر 19 اپریل 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

اس وقت مُلک کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اور تبدیلی کے خواب آنکھوں میں سجائے عام عوام کی جو حالت ہو چکی ہے اُس کو دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ حکمران جماعت اور اُس کے سربراہ عمران خان کے لئیے قوم ایک تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ مُلک میں لاقانونیت، ذخیرہ اندوزوں اور مفاد پرستوں کا راج ہے۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ بدقسمتی سے جس شخص پر تیسری آپشن کے طور پر عوام نے بڑے اعتماد کا اظہار کیا تھا اور بہت سی توقعات وابسطہ کی تھیں وہ صرف “سلطان آف سبز باغ” ہی ثابت ہوا ہے۔

کچھ دن پہلے کراچی میں کھڑے ہو کر عمران خان نے کہا کہ “عوام کی حالت دیکھتے ہوئے اُن کو نیند نہیں آتی” تو عرض یہ ہے کہ خان صاحب جب سے آپ اقتدار میں آئے ہیں “نیند اب عوام کو بھی نہیں آتی”۔

(جاری ہے)

عوام اس برے طریقے سے مایوس ہوئی ہے کہ عوام کو بھی اب سمجھ نہیں آرہی کہ جائیں تو کس طرف جائیں۔ عوام تو بس تبدیلی کا مزہ لے رہے ہیں خاص طور پر وزرا کے محکموں کی آئے روز تبدیلی کا اور ساتھ ساتھ محکمہ خزانہ کے وزیر کی ہر چھ ماہ بعد تبدیلی کا اور جگہ جگہ قطاروں میں لگ کے شناختی کارڈ دکھا کہ ایک کلو چینی لینے کا اور آٹے کا ایک تھیلا حاصل کرتے ہوئے فوٹو سیشن کا۔


حکومتِ وقت معاملات سے جس طرح نمٹ رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ساری کمی اور کوتاہی پچھلی حکومتوں سے سرزد ہوئی تھیں اور اس حکومت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سراسر جائز ہے۔ مثال کے طور پر فرانسیسی سفیر کی مُلک بدری کے معاملے پر تحریکِ لبیک یا ُسول اللہ سے جس طرح سے سلوک روا رکھا گیا اس سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ یہی تنظیم جب مسلم لیگ ن کی حکومت میں احتجاج کر رہی تھی تو اُس وقت موجودہ حکومت کے سربراہ عمران خان اور ُان کے حواری پوری شدت کے ساتھ تحریکِ لبیک یا رُسول اللہ کی حمائیت میں حکومت کا تختہ اُلٹا دینے اور پورے ُملک میں جلاؤ گھیراؤ کی دھمکیاں دے رہے تھے اور اپنے آپ کو مجاہدَ ختمِ نبّوت گردان رہے تھے۔

قاضی فائز عیسٰی آج جو سزا بھگت رہے ہیں اسکی بھی ایک وجہ وہ فیض آباد دھرنے کے خلاف اُن کا فیصلہ ہے۔ اور آج یہی حکومت میں موجود لوگ جو اُس وقت ختمِ نبوّت کے قانون میں ترمیم کے معاملے کو لے کر سیاست کر رہے تھے اب جب حکومت میں ہیں تو اسی تحریکِ لبیک یا رُسولُ اللہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کا نام بھی لینے پر پابندی عائد کردی ہے اور میڈیا کو حکم ہے کہ اسے “ایک مذہبی تنظیم” لکھا اور پکارا جائے۔

اسی حکومت کے موجودہ وزیرِداخلہ شیخ رشید کے 2017 کے بیانات کو سُنا اور دیکھا جائے تو اُس وقت ایسا لگتا تھا کہ شیخ رشید سے بڑا ختمِ نبوّت کا مجاہد ہی اور کوئی نہیں ہے اور آج وہی شیخ رشید تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کے خلاف باتیں کرتے اور قانون ہاتھ میں لینے پر دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف وفاقی وزریر اطلاعات کا دوبارہ چارج سنبھالنے والے فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ کے بیان پر اُن پر دہشت گردی کی دفعات شامل کر کے ایف آئی آر درج کروانے کی دھمکیاں دیں اور مسلم لیگ ن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “اگر آپ نے سیاست کرنی ہے تو آ ئین کی حدود میں رہ کر کرنی ہو گی اور قانون کا احترام کرنا ہو گا” اب کوئی فواد چوہدری سے یہ پوچھے کہ اُس وقت جب مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران جب یہی تنظیم احتجاج کر رہی تھی تو عمران خان اور یہ تمام وزرا یہی زبان بول رہے تھے اور حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کر رہے تھے تو آج کیا ہوا ہے؟ آج آپ کے لہجوں میں اسی معاملے میں دھمکیوں کا عنصر کیوں موجود ہے؟ معاملہ تو آج بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کی حرمت پاک کا ہے۔

عمران خان صاحب کنٹینر پر چڑھ کر پولیس کو دھمکیاں لگاتے تھے کہ اگر اُن کے کسی کارکن کو گرفتار کیا گیا دھرنے میں شامل ہونے پر تو وہ اپنے ہاتھوں سے پولیس والوں کو پھانسی پر چڑھا دیں گے۔ اور دھرنوں کے دوران پولیس کو خوب مارا پیٹا بھی گیا۔ مگر آج تو ریاست کی رٹ قائم کرنے پہ بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے مگر اُس وقت تو مسلم لیگ ن کی حکومت کو تو بہت دھمکیاں لگائی جاتی تھیں کہ اگر کوئی ایکشن لیا تو ایسی تباہی لائیں گے جو سب کچھ بہا کے لے جائے گی۔


اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران وہ کون سے ایسے عوامل تھے کہ جن کی شہہ پہ جب عمران خان اور موجودہ حکومت میں موجود اُن کے حواری مذہب کے نام پر سیاست کر رہے تھے اور تحریکِ لبیک یا رسول اللہ کو پوری طرح سپورٹ کر رہے تھے تو وہ سب جائز تھا اور اگر اب فرانس کے سفیر کی مُلک بدری کے معاملے پر وہی لبیک یا رسول اللہ تحریک جب اپنے لیڈر کی گرفتاری پر مظاہرہ کر رہی ہے تو وہ ناجائز کہا جا رہا ہے اور حکومتی رٹ کو ہر حال میں بحال کرنے کے اعلان کئیے جا رہے ہیں۔

کیا یہ ان حکمرانوں کی دوغلے پن کی انتہا نہیں ہے؟
ان سوالوں کے جواب ملنے بہت ضروری ہیں کیونکہ بحیثیتِ مسلمان ہمارا ایمان تب تک کامل، اکمل اور مکمل نہیں ہوتا جب تک آقا علیہ صلوٰتہ واسلام نبیِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم ہمیں اپنی جان، مال، ماں، باپ اور اولاد سے بڑھ کر محبوب نہیں ہو جاتے۔
میرے نزدیک تو یہ سب ایک ایسی صورتِ حال ہے کہ جس سے یہ حکومت ایک عبرت کا نشان بنتی نظر آرہی ہے کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔

وہ ایسے کہ جو جو دعوے ماضی میں عمران خان اور ان کے حواری کرتے رہے ہیں چاہے وہ مہنگائی کے حوالے سے ہوں یا ُملکی انتظامی معاملات کے حوالے سے، کرپشن کے حوالے سے ہوں یا اسمبلیوں میں موجود کرپٹ عناصر کے حوالے سے، ذخیرہ اندوزوں کے حوالے سے ہوں یا شوگر اور آٹا مافیا کے حوالے سے، مخصوص عوامل کی پشت پناہی کے حوالے سے ہوں یا مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے ہوں، عالمی بنک سے قرض کے معاملات ہوں یا ملکی انتظامی معاملات میں بیرونی مداخلت، اب جب خود اس حکومت کو انہی معاملات کو دیکھنا پڑ رہا ہے کہ جن پر یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں تو ان کی نالائقی کی قلعی کھل گئی ہے۔

یہ بات اب تبدیلی کی اُمید لگائے عوام اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ باہر بیٹھ کر تنقید کرنا آسان ہوتا ہے مگر میدان میں آکر منجھے ہوئے تجربہ کار کھلاڑی کی طرح کھیلنا مشکل اسی لئیے اب عوام اس “ایماندار” حکومت سے چھٹکارے کی منتظر ہے اور واویلا کر رہی ہے کہ وہ “چور” ہی اچھے تھے کم از کم دو وقت کی روٹی تو مل رہی تھی۔ اس موقع پر میاں محمد نواز شریف کی وہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ جب اُنہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “خان صاحب سیاست آپ کے بس کی بات نہیں آپ جا کر کرکٹ کھیلیں”۔

واقعی وقت نے میاں محمد نواز شریف کی بات کو سچ کر دکھایا ہے۔ مگر ہم عوام بھی کیا کریں ہم بھی مچھلی کی طرح جب تک پتھر چاٹ نہیں لیتے ہماری واپسی بھی تب تک نہیں ہوتی۔
حکومتِ کو چاہیے کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کی حرمت پاک کے معاملے پہ سیاست بند کرے اور اس دُنیا کو باور کروائے کے ہم ساری دُنیا سے کٹ کر رہ لیں گے مگر سرور کائنات آقا علیہ صلوٰتہ و اسلام کی حرمتِ پاک پہ کوئی سودا نہیں کریں گے۔
علامہ اقبال صاحب نے کیا خوب فرمایا تھا کہ،
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :