بادشاہ، ملکہ اور پیادہ

ہفتہ 8 اگست 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

5 اگست کو انڈیا کے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی محاصرے کوایک سال مکمل ہونے پر کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے پاکستان نے یوم استحصال کشمیر کے طور پر منایااسی تناظر میں پاکستان نے 4اگست کو ایک سیاسی نقشہ بھی پیش کیا جس کو وزیراعظم پاکستان نے ایک تاریخی اقدام قرار دیا اور پاکستان تحریک ِ انصاف کے لوگ اسے اپنی کامیابی اور اپنے منشور میں کشمیر کے حوالے سے جیت قرار دے رہے ہیں مگرکچھ لوگ اس نقشے میں غلطیاں نکالتے ہوئے بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں۔


بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم کی حیثیت سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے ہمیں بات کو سمجھ لینا چاہیے، جناب نقشے تین قسم کے ہوتے ہیں، پہلی قسم سیاسی نقشے،جو کہ 4 اگست 2020 کو پاکستان نے جاری کیا ہے جبکہ انڈیا بھی اپنا سیاسی نقشہ رکھتا ہے جس کے مطابق تمام برصغیر ان کا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری قسم ہے آفیشل نقشہ کی جو کہ ملک کی حدود کے اندر مانا جاتا ہے اور نصاب میں بھی شامل ہوتا ہے۔

تیسری قسم ہے علاقائی یا انتظامی نقشہ، جو ہر ملک کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں4 اگست کے بعد سے سیاسی نقشہ اور آفیشل نقشہ دونوں ایک ہی ہوں گے۔
اگرپاکستان کے اس سیاسی نقشے کو دیکھا جائے تو کچھ دوست اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ جو سرکریک اور جونا گڑھ شامل کر لیا ہے، یہ کیوں ہے۔ یہ تو نیا مسئلہ چھڑ گیا ہے۔ پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ چلیں سرکریک کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ ا یک بغیر سر حد کے علاقے کا معاملہ ہے اسے پاکستان میں شامل کر لیا۔

یہ وہی علاقہ ہے جہاں اکثر پاکستان اور انڈیا کے ماہی گیر کسی سرحد کے نہ ہونے کی وجہ سے گہرے پانیوں میں آگے تک چلے جاتے ہیں اور پھر پکڑے جاتے ہیں او رہم ہر چھ ماہ اور سال کے بعد ماہی گیروں کا جذبہ خیر سگالی کے تحت اپنے اپنے ملکوں میں واپسی کا سلسلہ دیکھتے ہیں۔ نصرت جاوید صاحب نے ا س پر اپنے 7 اگست کے کالم میں ) Zones Economic Exclusive) کے حوالے سیکافی ذکر کیا ہے، اپنے پڑھنے والوں کے لیے مزید بتاتا چلوں کہ یہ 96 سے 99 کلومیٹر تک کا ایک بہت تنگ سا علاقہ ہے جو بحیرہ عرب میں جا کر کھلتا ہے اس کے ایک جانب پاکستان سے سندھ ہے تو دوسری جانب بھارت سے گجرات(کَچھ)کا علاقہ۔

یہ علاقہ معدنیات ، زیرِ زمین تیل اور گیس کے حوالے سے بھی کافی خود کفیل ہے اور یہاں ایک خاص قسم کی مچھلی بھی پائی جاتی ہے جسے Snapper Redکہتے ہیں، اور دونو جانب کے ما ہی گیر یہ خیال کرتے ہیں کہ سب سے اچھی قسم کی Snapper Red مخالف ملک کی جانب پائی جاتی ہے۔ اب پاکستان نے اسے یعنی (سر کریک ) کومکمل اپنے نقشے میں کیوں دکھایا ہے، پاکستان کے اس دعوے کی وجہ (1914 کی سندھ حکومت کی قرار داد ہے )۔


 مگر ریاست جونا گڑھ۔ اس کا تو کوئی زمینی راستہ بھی نہیں تو پھر اسے کیوں شامل کیا گیا ہے؟ نصرت جاوید صاحب اس بارے کچھ حد تک لکھ چکے ہیں، مگر بات اتنی سادہ نہیں تھی ۔یہاں تک تو سب جانتے ہیں کہ جب پاکستان اور ہندوستان وجود میں آئے تو کچھ ریاستیں ایسی تھیں جن کا دونوں میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہیں ہوا تھا ان ریاستوں کا فیصلہ یا تو ان کے حکمرانوں نے کرنا تھا یا وہاں استصواب رائے سے ہونا تھا کہ وہ دونوں ملکوں میں کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں ۔

تیسرا راستہ خود مختار ریاست کے طور پر وجود ررکھنے کا تھا۔
جونا گڑھ کے معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑی دیر تاریخ میں رکنا پڑے گا۔ یہ تین ریاستیں تھیں۔ ایک حیدر آباد جو کہ مال و دولت کے اعتبار سے سب سے طاقتور ریاست تھی۔ اس کی آبادی کی اکثریت ہندو اور حکمران تھے نظام یعنی مسلمان۔ دوسری تھی کشمیر جس کی آبادی کی اکثریت مسلمان تھی مگر حکمران ہندو مہاراجہ ہری سنگھ۔


تیسری ریاست جونا گڑھ تھی جس کی 83 فیصد آبادی ہندو او رحکمران مسلمان یعنی نواب مہابت خان سوئم۔ کم بخت اقتدار کا نشہ بہت برا ہوتا ہے،تینوں ریاستوں کے جو راجہ تھے وہ وقت پر فیصلہ نہ کر سکے یا اس بات سے گھبرا گئے کہ اگر وہ دونوں میں سے کسی بھی ملک کے ساتھ جاتے ہیں تو ان کی حکمرانی ختم ہو جائے گی۔مئی 1947 میں جونا گڑھ ریاست کے دیوان یعنی وزیراعظم اچانک بیمار ہو کرعلاج کی خاطر پراسرار طور پر سمندر پار چلے جاتے ہیں اور 15 مئی 1947 کو سر شاہنواز بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو کے والد کو بطور دیوان یعنی وزیراعظم ریاست جونا گڑھ مقرر کیا جاتا ہے اب ریاست جوناگڑھ کا تمام انتظام سر شاہ نواز بھٹو کے ہاتھ میں تھا۔

مگرایک ڈرامائی موڑ تب آیا جب اچانک نواب مہابت خان سوئم نے15 اگست کو جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیایہ ایک ایسا اقدام تھا جس کی توقع کسی کو نہ تھی کیونکہ سب اس اطمینان میں تھے کہ جونا گڑھ کوپاکستان سے جوڑنے والا زمینی راستہ کوئی نہیں اس لیے یہ پاکستان سے الحاق نہیں کرے گا ۔کچھ دستاویز یہ کہتی ہیں کہ جب نواب مہابت خان سے پوچھا کہ جونا گڑھ کو کوئی زمینی راستہ پاکستان سے نہیں ملاتا تو یہ الحاق کیسے ہو گا تو نواب صاحب نے کہا میں پاکستان کے ساتھ سمندر کے راستے الحاق کروں گا۔

13 اگست 1947 کو قائدِاعظم نے نواب آف جوناگڑھ کی الحق کی درخواست قبول کر لی،( جسے بعد میں نہرو پٹیل اور ماؤنٹ بیٹن نے دھوکہ قرار دیا)۔جب یہ الحاق کا اعلان ہوا تونہرو اور سردار پٹیل نے اسے ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ اگر اسے انڈین لیڈر رد نہ کرتے تو پھر حیدر آباد کے نظام بھی یہی کرتے کیوں کہ وہ پاکستان کے بہت زیادہ قریب تھے۔
یہاں سے سردار پٹیل نے ایک تھیوری دی King,Queen & Pawn) ( سردار پٹیل کا کہنا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح کی سیاسی بساط پر تین مہرے ہیں ایک بادشاہ، دوسرا ملکہ اور تیسرا پیادہ۔

سردار پٹیل کے مطابق جناح کا بادشاہ حیدرآباد ہے جو کہ آج کا ”تلنگانہ“ اور ”آندھرا“ ہے اور ملکہ کشمیر ہے۔ اور پیادہ جونا گڑھ ہے۔ حیدرآباد کے نظام پاکستان کے ساتھ محبت رکھتے تھے۔ اس ریاست کے پاس پیسہ بھی بہت تھا یہاں تک کہ اس نے اپنی فوج جسے رضاکار کہتے تھے بنا رکھی تھی۔ اور نظام پاکستان کی طرف جھکاوبھی رکھتا تھا۔ کشمیر کو جناح پاکستان میں شامل کرنا چاہتے تھے، لیکن وہاں کا حکمران مسلمان نہیں۔

اس لے جناح جونا گڑھ سے اعلان کروا کر اور سودے بازی کرنا چاہتے ہیں اور جونا گڑھ کے بدلے کشمیر لینا چاہتے ہیں۔( اس سب تھیوری کو سردار پٹیل نے 13 نومبر 1947 کوجونا گڑھ ایک بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوے دہرایا بھی)۔
اس سب سے نمٹنے کے لیے انڈین لیڈرشپ نے بمبے میں ایک الگ سے جونا گڑھ کی صوبائی حکومت بنا دی جس کے سربراہ شامل داس گاندھی تھے(انڈین اسے سامل داس گاندھی بولتے ہیں)جو مہاتما گاندھی کے بڑے بھائی کے بیٹے تھے اس کے ساتھ ہی نیوی کے کچھ جہاز جونا گڑھ کے سمندری بارڈر پر لگا دیے گئے۔

بمبے میں قائم جونا گڑھ کی صوبائی حکومت کو نواب مہابت خان نے یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ حکومت ہم ہیں ہمیں پوچھا نہیں گیانواب کون ہوتے ہیں الحاق کرنے والے۔ ہم پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے، اس اندرونی اور بیرونی دباؤ کو نواب آف جوناگڑھ برداشت نہ کر سکے اور اپنے اہل و عیال، دھن دولت اورکتوں کے ساتھ کراچی آ گئے۔ ان سب میں دو چیزیں تو بالکل ٹھیک تھیں اہل و عیال اور کتے۔

کیونکہ کتے ہی تو ان کی وجہ شہرت تھے۔ یہ نواب صاحب کتوں کی شادیاں کروایا کرتے تھے اور وہ بھی شاہانہ انداز میں اور ان شادیوں میں دوسری ریاستوں کے راجہ مہا راجہ اور انگریز افسروں کو مدعو کیا کرتے تھے۔ مگر جو بات نواب صاحب نے غلط کی وہ یہ تھی کہ وہ تمام دھن دولت سمیٹ کر کراچی آ گئے۔ اب سر شاہنواز بھٹو وزیراعظم تو تھے پالیسی بھی چلا سکتے تھے، مگر ان کے پاس انتظام چلانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ لوگ ہجرت کرتے جا رہے تھے ، وفادار کم ہوتے جا رہے تھے ، بمبے میں موجود جوناگڑھ کی صوبائی حکومت نے سر شاہنوازکو دباؤ میں لاکر سرنڈر کروا دیا گیا( کیونکہ یہ بات بھی کہی گئی کہ جوناگڑھ کے الحاق کے پیچھے جو ذہن جناح کا ساتھی تھا یا جسے جناح نے اس کام کے لیے بھیجا وہ سر شاہنوازبھٹو تھا) ۔ پھر جونا گڑھ میں فروری 1948 میں استصواب رائے کروایا گیا تو اس وقت جونا گڑھ کی آبادی 200500 افراد کے لگ بھگ تھی جس میں سے پاکستان کے حق میں صرف 91 ووٹ نکلے۔


 ریاست کشمیر کا انڈیا نے اپنے ساتھ الحاق مہا راجہ کے حکم سے کروا لیا۔ اب تیسری ریاست حیدر آباد رہ گئی تھی اس کے آثار اچھے نظر نہ آنے پہ انڈیا نے Opertaion polo پلان کیا اور اس فوجی آپریشن کے نتیجے کے طور پر نظام نے 1948 میں سرنڈر کر دیا اسی طرح انڈیا نے الزام لگایا کہ پاکستان نے کشمیر میں مزاحمت کار داخل کیے ہیں اور حالات خراب کیے ہیں اور ایک مزاحمت شروع کروائی ہے۔

اس لیے ہم فوج بھیج رہے ہیں۔ اور انڈیا کی فوج کی وجہ سے مہا راجہ دباوٴ میں آگیا اور الحاق انڈیا کے ساتھ کر لیا ۔ تو جناب پاکستان اس الحاق کو بنیاد بنا کر اس نقشے میں جونا گڑھ کو شامل کر رہا ہے۔
اب چلتے ہیں کہ اس نقشے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ تو جنا ب اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ یہ 5th جنریشن وار کا زمانہ ہے ،ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ پچھلے سال انڈیا نے ایک نقشہ جاری کیا تھا جس میں گلگت بلتستان اور کشمیر کو اپنا حصہ دکھایا تھا۔

اس کی وجہ سے جو دباوٴ آیا اس کا جواب دینا ضروری تھا۔ اور وہ تب ہی ہو سکتا تھا جب ہم بھی اپنے کلیم دنیا کے سامنے رکھیں۔ ساتھ ہی ساتھ فوج کے تعلقات عامہ کو خاص طور پر کشمیر پر نغمہ بنانے کیلئے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ درخواست کرونگا کہ جنا ب اس سب پر ڈرامہ اور فلم کی جانب آئیں، اور اس میں پرائیویٹ میڈیا کو بھی شامل کریں اورکشمیر کے مسئلے کومزید موثر طریقے سے اجاگر کریں۔


کچھ دوستوں نے کہا کہ ہم اسے اپنا حصہ ڈکلیئر کریں اور اسے صوبے کا درجہ دیں تو جناب اس کے لیے آپ کو آئین کے آرٹیکل ایک میں تبدیلی کرنا پڑے گی کیونکہ وہ ان علاقوں کو الگ حیثیت دیتا ہے۔ کیا اس کے لیے ہماری ریاست تیار ہے اور اگر ایسا ہے تو ہمارے میں اور انڈیا میں کیا فرق رہ جائے گا۔
 مودی اپنی سیاسی بساط ابھی تک اچھے طریقے سے کھیل رہا ہے۔

اس نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا اور اب ٹھیک ایک سال بعد 5 اگست کے ہی دن اس نے رام مندر کا افتتاح کیا، اس میں عبادت کی۔ جبکہ انڈیا خود کو ایک سیکولر ریاست کہتا ہے۔ اس کے مطابق اس ریاست کا کوئی بھی وزیراعظم کھلم کھلا اپنی مذہبی عبادات کر سکتا ہے نہ ہی اظہار مگر مودی نے یہ کیا اور اس سے اس نے اپنی constituency کو مضبوط کیا۔ اب مودی اپنے منشور کے تیسرے نقطے کو بھی ٹھیک 5 اگست کو ہی انجام دے گا اوروہ ہے "universal civil code" یعنی سارے انڈیا میں ایک ہی قانون ہو گا چاہے کوئی مذہب ہو ، کوئی بھی برادری ہو۔


پہلے دونوں اقدامات کی مرتبہ مودی نے یہ کہا کہ جو پچھلے ستر سالوں میں نہ ہو سکا وہ میں نے کر دیا۔ رام مندر میں تقریر کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ رام نے اسے اس کام کے لیے چنا ہے۔ ستر سال میں یہ موقع کسی کو نہیں ملا۔
معذرت چاہوں گا پاکستان تحریک انصاف بھی اسی قسم کی باتیں کر رہی ہے کہ جو ہم نے کیا ہے وہ پاکستان میں کوئی نہ کر سکا جبکہ اگر یہ لوگ تاریخ اور معاشرتی علوم کی کتابیں نکال کر دیکھ لیں تو ان کو معلوم ہو گا کہ ایسا نہیں ہے۔

یہ کوئی نئی چیز نہیں کی گئی۔ ساتھ ہی میری پاکستان تحریک انصاف کے دوستوں سے اور عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ آپ کچھ عرصہ بعد ایک اور کام کریں کہ کشمیر کے جس حصہ پر غیر قانونی بھارتی محاصرہ ہے اس کی govt in exile) ( بنا دیں اور بین الاقوامی برادی کو ان تک لائیں اور ان سے بات چیت کروائیں اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں مگر یہ نہ کہیں کہ یہ ستر سالوں میں نہیں ہوا جو ہم نے کیا ہے۔


اب آتے ہیں آخری معاملے پر کہ اس نقشے والی جد وجہد کا اثر کیا ہو گا۔ اس کا اثر صرف یہ ہو گا کہ ہم بیانیہ بنانا شروع کریں گے اپنی آنے والی نسل میں مگر ہمیں یہ بھی چاہیے کہ ہم اسے تمام پہلو بتا کر کریں کہ یہ نقشہ نظریاتی ہے حقیقی نہیں کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہماری آنے والی نسل کنفیوژ رہے گی اور بین الاقوامی برادری کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔

اس وقت یہ نقشہ نہ ہی متنازع ہے اور نہ اس میں substance ہے۔ کیونکہ نظریات کی پرورش برسوں کرنی پڑتی ہے تب جا کے کوئی نسل اس قابل ہوتی ہے کہ وہ نظریے کو حقیقت میں بدل سکے۔ اگر نہیں یقین تو علامہ اقبال اور قائداعظم سے پوچھ لیں کیونکہ پاکستان کا نظریہ علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے اس نظریے کو حقیقت بنا کر دنیا کو دکھایا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :