عالمی معاشی دہشت گردی

پیر 22 اپریل 2019

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

غربت‘مہنگائی اور افراط زر اس وقت عالمی مسائل بنے ہوئے ہیں اور پاکستان جیسی معیشتیں مسلسل عدم استحکام کی وجہ سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں جہاں ایک تہائی سے زیادہ آبادی پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگیاں گزار رہی تھی روپے کی قدر میں حالیہ کمی‘افراط زر‘مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے. تاہم ان حالات سے صرف پاکستان ہی نہیں دوچار بلکہ اس وقت دنیا کی بڑی بڑی معاشی طاقتیں لرزرہی ہیں دنیا بھر کے انسانوں کے مسائل کی اصل وجہ عدم مساوات پر مبنی وہ نظام ہے، جس نے دنیا کی آبادی کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے.

(جاری ہے)

ایک طبقہ وہ ہے جو امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ دوسرے کی غربت میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے‘ اس تناظر میں آکسفام ویلتھ المعروف ایکس تھنک ٹیکس کی رواں سال کی سالانہ رپورٹ حالیہ رپور ٹ کے مطابق 2016 میں امیروں کی دولت میں 12 فیصد یومیہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو کہ ڈھائی ارب ڈالر بنتے ہیں‘ ایک عشرہ قبل معاشی بحران کے بعد سے امیر ترین افراد کی تعداد دگنا ہو گئی ہے جبکہ دنیا کی نصف آبادی کی دولت میں11 فیصد کمی ہوئی .

دنیا کے 26 افراد کے پاس 1.4 ٹریلین ڈالر ہیں، جو 3 ارب 8 کروڑ افراد کی دولت کے مساوی ہیں‘ 2017 میں 43 افراد کے پاس دولت دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے مساوی تھی جبکہ 2016 میں 61 افراد کے پاس دولت دنیا بھر کی نصف آبادی کی دولت کے برابر تھی. اسی طرح 2018میں دنیا کی نصف سے زائد دولت صرف 26 کھرب پتیوں کے قبضے میں چلی گئی. دنیا میں ایک طرف دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں جارہی ہے تو دوسری جانب معاشی استحصال میں بھی اضافہ ہورہا دیگر الفاظ میں دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ ”معاشی دہشت گردی“کا شکار ہے.

رپورٹ دنیا میں پائی جانے والی عدم مساوات کی ہی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ ان اقوام کیلئے باعث شرم ہونی چاہئے، جو باشعور ہونے اور دنیا کو عدم مساوات سے پاک نظام فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں. دنیا میں اقتصادیات پر لاکھوں ‘کروڑوں تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں ‘سینکڑوں کتابیں پچھلے چند سالوں میں لکھی گئی ان سب کا نچوڑ یہی ہے کہ انسان کی اقتصادی بدحالی کا ذمہ دار سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی بنیاد کرپشن پر ہے اور کسی نشہ کی طرح پوری دنیا کو اس کا عادی بنادیا گیاحتی کہ بظاہر سوشل ازم کا علمبردار چین سرمایہ درانہ نظام کا نیا سرپرست بن رہا ہے پچھلی دودہائیوں سے سرمایہ درانہ نظام کا مرکزامریکا سے غیرمحسوس اندازمیں بیجنگ اور شنگھائی منتقل ہورہا ہے اور آنے والی چند دہائیوں میں امریکا سے دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کا اعزازبھی چھن جائے گاجسے چین اور اسرائیل آپس میں تقسیم کررہے ہیں .

یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قراردلوانے کے بعد اسرائیل وال سٹریٹ کو نیویارک سے یروشلم یا تل ایب منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے کیونکہ رتھ شیلڈ کے صدیوں پہلے کہے گئے الفاظ پر عمل درآمد کرنا ہے کہ دنیا کی معاشی تحت پر حکمرانی دراصل پوری دنیا پر حکمرانی ہے. اس سلسلہ میں چین اور اسرائیل کے کئی ادارے مل کر کام کررہے ہیں چین کی یونیورسٹیوں میں چین ‘اسرائیل تعلقات کے شعبہ جات کام کررہے ہیں جن کا کام مشرکات اور مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے سفارشات مرتب کرنا ہے.

جب حکومتوں اور سرکاری مشینری و کاروباری حلقوں میں کرپشن سرایت کر جاتی ہے، تو پھر یہ ایک دوسرے کے حامی و مددگار بن جاتے ہیں اور اسے ”کرونی کیپیٹل ازم“ کہا جاتا ہے جو معاشروں کی تباہی کا ذمہ دار بنتا ہے. آج بد عنوانی میں ڈوبا کارپوریٹ سیکٹرپوری دنیا اختیار اور اقتدار پر قابض ہوچکا ہے اور سرمائے کے ذریعے وہ اپنی پسند کی حکومتیں بنواتے ہیں‘امریکی دانشور ومصنف ”جان پرکنز“ اپنی کتاب Confessions of an Economic Hit Man میں سابق معاشی تباہ کار کے طور پر بار بار دنیا کو خبردار کرتا ہے کہ سرمایہ درانہ نظام اپنے مفاد کے لیے پوری دنیا کو بھی تباہ کرسکتا ہے.

2016میں اس کتاب کے ترمیمی ایڈیشن میں ”جان پرکنز“نے کچھ مزید خوفناک حقائق کا ذکر کیا ہے اسی کتاب کے 2004کے پہلے ایڈیشن میں پرکنزکی پشین گوئیاں پوری ہوچکی ہیں کیونکہ اس نے ساری پشین گوئیاں 1970کی دہائی سے جاری منصوبوں کو سامنے رکھ کر کی تھیں اور ان کے 80فیصد نتائج منصوبہ سازوں کی توقعات کے مطابق سامنے آئے ہیں جن میں پوری دنیا کوایک بنیادی اقتصادی ڈھانچے کے نیچے لے کرآنا‘وسائل پر مخصوص کارپوریشنزکا قبضہ‘وارانڈسٹری میں اضافہ(جو وارزونزمیں اضافے کے بغیر ممکن نہیں ہے) ان میں سب سے خوفناک منصوبہ دنیا میں خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات پر چند خون آشام عالمی کارپوریشنزکا مکمل قبضہ شامل ہے.

ان تمام اہداف کو پانے کے لیے عالمی معاشی دہشت گردوں نے اپنا سب سے بڑا اور موثر ترین ہتھیار ”ابلاغ عامہ“استعمال کیا ہے دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسزکی ملکیتوں کے بارے میں تحقیق کی جائے تو جھٹکا لگتا ہے کہ ان میں بڑا سرمایہ دنیا کی ان چند کارپوریشنزکا ہے جن کے کاروباری مفادات پوری دنیا میں پھیلے ہیں ان کارپوریشنز کے اندر ہزاروں کمپنیاں‘نان پرافٹ آرگنائزیشنزسمائی ہوتی ہیں اوراحتیاط برتتے ہوئے انہی میں کسی غیرمعروف کمپنی کے نام سے ”ابلاغ عامہ“کی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے.

کچھ ایسی ہی صورتحال سماجی رابطوں کے نیٹ ورکس کی ہے جو ایک ماہ بھی ان کارپویشنزکے بغیر اپنا وجود برقرارنہیں رکھ سکتے یہ ان کا پراوپگینڈے کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں . آج سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک بھی حد سے زیادہ منافع خوری، سود، سٹے بازی اور ٹیکس چوری سے عاجز آ چکے ہیں اور اس کا اندازہ نوبیل انعام یافتہ امریکی ماہرمعیشت اور عالمی بینک کے مشیر جوزف اسٹگ لنٹر کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”سرمایہ دارانہ نظام کو رحم دل بنانے کے لیے اس کے ساتھ سوشلزم کی شراکت ضروری ہے“ کارپوریٹ سیکٹر نے عالمی تجارتی تنظیم کی مدد سے حکومتوں کی مداخلت کم کرنے اور اپنا منافع بڑھانے کے لیے عالم گیریت کو متعارف کروایا اور اس کے لیے ڈبلیو ٹی او ‘اور فری ٹریڈ کے کئی معاہدوں کو متعارف کروایا گیا جو عالمی سطح پر عام صارفین کے استحصال کا باعث بن رہے ہیں.

آج ان معاہدات کو متعارف کروانے والے خود ان سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں مگر اب یہ ”کمبل“ان کی جان سے نہیں چھوڑ رہا صدر ٹرمپ کئی بار ”تجارتی جنگ“کے الفاظ استعمال کرچکے ہیں مگر انہیں شاید معلوم نہیں کہ اس جنگ کا کنٹرول دنیا کے کسی سیاسی حکمران کے پاس نہیں بلکہ ان کے ہاتھوں میں ہے جو دنیا کے معاشی تحت پر راج کررہے ہیں. دنیا میں معاشی دہشت گردوں کے کام کرنے کا طریقہ کیا ہے اس کے لیے برازیل میں کرپشن اسکینڈل کی مثال کو سامنے رکھا جاسکتا ہے.

جس میں برازیل کے ایک بہت بڑے صنعت کار، مارسیلو اودے بریچت کو سزا دی گئی برازیل میں بے تحاشا کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف ”آپریشن کار واش“ شروع ہوا تو پتا چلا کہ اس بدعنوانی میں بریچت کے ساتھ کئی بڑے بڑے سیاست دان اور تیل کی بڑی بڑی کمپنیز کے مالکان بھی شامل ہیں‘بریچت نے پیٹرو براس کے ساتھ مل کر برازیل کے400سیاست دانوں، 26سیاسی جماعتوں، بیورو کریسی، بینکاروں اور ممتاز وکلاء کو”پرکشش“ٹھیکے دیے مقدمے کی کارروائی کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ بریچت سے ایک تہائی سینیٹرز اور نصف ریاستوں کے گورنرز نے رشوت بھی لی.

اس کی کمپنی نے 60کروڑ ڈالرز رشوت کے طور پر ادا کیے تھے‘ بریچت کو 19جون2015 کو گرفتار کیا گیا اور 19سال قید کی سزا سنائی گئی بعد میں” پلی بارگین“ کے تحت اس کی سزا کم کر کے 7برس کر دی گئی اور اس کی کمپنی نے 2.6ارب ڈالرز جرمانہ ادا کیا‘ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بریچت اور پیٹرو براس کک بیکس کے ذریعے سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرتے رہے، جس کی مدد سے وہ انتخابات جیت کر اقتدار میں آتے اور بد عنوان سرمایہ داروں کے مفادات کو تحفّظ فراہم کرتے.

یہ ایک چھوٹا سانمونہ ہے پوری دنیا ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے جن میں دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کی کہانیاں ان کی معاشی حجم کی طرح ہی بڑی‘بڑی ہیں. معاشی دہشت گردی کے اس دور میں عالمی کارپوریشنزکے لیے کسی ملک کا کم زور و ناقص ریگولیٹری سسٹم سازگار ہوتا ہے کہ جس میں ملی بھگت سے غیر قانونی لین دین بہ آسانی ہوتا ہے اور کئی بار یہ کمپنیاں حکومتوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اپنی مرضی کے قوانین بنواتی ہیں آج ہم صرف پاکستان کی مثال لیں تو کیا کوئی کاروبار ایسا بچا ہے جس میں بڑا سرمایہ کار نہیں کودا؟”پولٹری پروٹین“یا مرغیوں کی الائشیں اٹھانا دودہائیاں قبل گندہ ترین کام سمجھا جاتا تھا جو کہ خانہ بندوش کرتے تھے آج صرف لاہور شہر میں یہ کاروبار اربوں کی سرمایہ کاری تک پہنچ چکا ہے.

حالات وواقعات سے اشارے مل رہے ہیں کہ شاید عالمی معاشی دہشت گرد دنیا بھر میں اپنا آخری راؤنڈ کھیلنے جارہے ہیں کہ آج امریکا جیسی اقتصادی طاقت لرزرہی ہے‘برطانیہ سمیت یورپ کی بڑی بڑی معاشی طاقتیں تباہی کے دہانے پر ہیں شہزادہ طلال بن ولید سعودی عرب کی معاشی حالت کے بارے میں حال میں ایک انٹرویو میں بتاچکے ہیں کہ دوسال قبل نہ صرف سعودیہ بنک کرپٹ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا بلکہ مملکت کا استحکام اور بقاء بھی خطرے میں پڑگئی تھی.

آج دنیا کی معاشی طاقتیں بدترین بیروزگاری‘افراط زر‘مہنگائی اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں مگر ان وجوہات کو ختم نہیں کیا جارہا جن کی وجہ سے آج کے انسان کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کیونکہ معاشی درندے اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ اب حکومتیں انہیں نہیں بلکہ وہ حکومتوں کو کنٹرول کررہے ہیں. پاکستان میں61فی صد نوجوان بے روزگار ہیں‘ اگر ہم ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں موجود کروڑوں بے روزگاروں کو شامل نہ بھی کریں، تو ان سطور کی اشاعت تک او ای سی ڈی کے 36رکن ممالک میں 3کروڑ 20لاکھ بے روزگار موجود ہیں.

یاد رہے کہ یہ ماضی کی طرح عارضی بے روزگاری نہیں ہے اور یہ وبا کی طرح معاشرے کے ان حصوں کو بھی اپنی زد میں لے رہی ہے جو ماضی میں خود کو محفوظ خیال کرتے تھے. ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کارپوریٹ سیکٹر کی ہوس ختم نہ ہوئی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ہیبت ناک اثرات کا تدارک نہ کیا گیا، تو یہ صدی کرہ ارض کی آخری صدی ثابت ہوسکتی ہے. سائنس اور ٹیکنالوجی کی تمام تر پیش رفت کے باوجود آج معاشرہ خود کو ایسی قوتوں کے رحم و کرم پر پاتا ہے، جو اس کے قابو سے باہر ہیں.

انقلاب کے پرانے یقین کی جگہ بے یقینی نے لے لی ہے‘ اب معاشی عوارض سب سے پہلے حکمران طبقے اور حکمت عملی تیار کرنے والوں کو متاثر کرتے ہیں جو اپنے نظام کو درپیش شدید مشکلات سے آگاہ ہیں. سرمایہ دارانہ نظام کی تمام تر تباہ کاریوں کو کارل مارکس نے چند سطور میں سمیٹا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”اگر آزاد تجارت کے حامی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح ایک قوم کی قیمت پر دوسری قوم امیر ہو سکتی ہے، تو ہمیں حیران ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ لوگ یہ سمجھنے سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ایک ہی ملک میں ایک طبقہ دوسرے طبقے سے کس طرح زیادہ امیر ہو جاتا ہے “.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :