وزیرہوابازی کا پی آئی اے پر ”خودکش حملہ“

جمعرات 2 جولائی 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

یورپی یونین ائیر سیفٹی ایجنسی (ایازا) کی جانب سے پاکستان انٹرنیشل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپین ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے اس فیصلے کے نتیجے میں جہاں پی آئی اے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے وہیں ان سینکڑوں پائلٹس کے روزگار بھی داؤ پر لگتے نظر آ رہے ہیں جنہوں نے پاکستان سے پائلٹس لائسنس حاصل کر رکھے ہیں اور پی آئی اے کے علاوہ دوسری ملکی اور بین الاقوامی ایئرلائنز کے لیے کام کرتے ہیں اسی طرح پاکستان سول ایوی ایشن اور ریاست پاکستان کی ساکھ بھی شدید متاثر بلکہ مشکوک ہو گئی ہے.

(جاری ہے)

دنیا کی 10بدترین ایئرلائنزمیں پی آئی اے کا نام تو نہیں ہے مگر ناروے ‘کوریا‘ارجنٹائن‘نیدرلینڈ‘آسٹریا اور آئرلینڈ کی ایئرلائنز ضرور اس فہرست میں موجود ہیں ‘برٹش ایئرویزجو کئی سالوں تک دنیا کی بہترین ایئرلائن رہی وہیں دنیا میں جن فضائی کمپنیوں کے سب سے زیادہ جہازکریش ہوئے ان میں برٹش ایئرویزکا نام بھی شامل ہے‘روس کی aeroflot airکو دنیا کی غیرمحفوظ ترین ایئرلائن سمجھا جاتا ہے مگر ان ملکوں میں کے پاس غلام سرورخان جیسے وزیرہیں نہ موجودہ حکمرانوں جیسے حکمران کہ جو اپنے ہی ایک قومی ادارے پر اس قسم کا ”خودکش حملہ“کرسکیں ‘افغانستان کی ایئرلائن دنیا کی بدترین ایئرلائنزکی فہرست میں پہلے نمبروں پر ہے مگر ان کے پاس بھی پاکستان جیسے ”ہونہار“وزیراور بیوروکریٹس نہیں ہیں.

واقفان حال جانتے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے پی آئی اے کو ہڑپنے کے لیے کئی مگرمچھ منہ کھولے بیٹھے ہیں مشرف کے اقتدار پر قبضے سے لے کر تحریک انصاف کی حکومت تک ان 21سالوں میں پاکستان کے تمام ڈومیسٹک روٹس اور انٹرنیشنل روٹ عرب ملکوں کی فضائی کمپنیوں کو دے دیئے گئے اور سیاسی جماعتوں نے صرف پی آئی اے ہی نہیں تقریبا تمام سرکاری اداروں کو باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ ہر ادارے میں دل کھول کر بھرتیاں کرتا ہے ریلوے ‘سٹیل ملز‘پی ٹی وی ‘ پی آئی اے‘وزارت اطلاعات کے ماتحت محکمے ‘مواصلات یعنی گنتی شروع کریں تو ملک میں فوج ہی صرف ایک ایسا ادارہ بچتی ہے جس میں ”پرچیوں“پر بھرتیاں نہیں ہوئیں.

مجھے پاکستان کے سرکاری خبررساں ادارے کے لاہور بیوروکا ایک منظرنہیں بھولتا کہ جب مشرف دور میں اس کی ”اردو“اور فوٹو سروس شروع کی گئی تو اس کے دونوں سیکشنزمیں سٹاف زیادہ اور کرسیاں کم تھیں ایک رپورٹر کے حصے میں مشکل سے ہفتے میں ایک اسائنمنٹ آتی تھی ‘یہی حال حال پی ٹی وی‘ریڈیوپاکستان ‘ریلولے اور دیگر محکموں کا ہے جب میں نجی شعبہ میں ملک کے سب سے بڑے خبررساں ادارے لاہور میں بیوروچیف تھا تو ہمارا دفتر اسمبلی ہال چوک مال روڈ پر واقع پنجاب حکومت کی ملکیت الفلاح بلڈنگ میں تھا غالبا2014میں وہاں محکمہ تعلیم کی ایک ذیلی شاخ”پرائمری ایجوکیشن“کا دفتر منتقل ہوا جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ محکمے کا آدھا عملہ آتا ہی نہیں جبکہ باقی آدھا عملہ پورا دن بیٹھ کر گپیں ہانکتا یا چائے پیتا انہیں کبھی کام کرتے نہیں دیکھا.

الفلاح بلڈنگ کے صرف سیکورٹی گارڈزاورخاکربوں کی تعداد100کے قریب تھی مگر ایک شفٹ میں کبھی 3/3سے زیادہ بندے کبھی نظرنہیں آئے یعنی اگر دونوں شعبوں میں 50/50کا عملہ بھی ہو تو تین شفٹوں میں16/16بندے دونوں شعبوں کے بنتے ہیں مگر 14سالوں میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے کسی شفٹ میں 16بندے ڈیوٹی پر نظرآئے ہوں. جہاں تک جعلی ڈگریوں یا لائسنس کا سوال ہے تو یہ مسلہ پوری دنیا میں ہے امریکا کی ریاست فلوریڈا میں ایک گورا نوجوان ڈاکٹرپکڑا گیا تھا جو دراصل ہائی سکول لیول پاس تھا مگر کئی سال تک وہ جعلی ڈگری پر ڈاکٹرکے طور پر کام کرتا رہا‘اسی طرح برطانیہ کا ایک بہت بڑا پروفیسرسرجن جسے کئی سرکاری اعزازات سے نوازا گیا تھا اور اس کے سینکڑوں شاگرد دنیا بھر میں کام کررہے ہیں اس کی جعلی ڈگریاں ریٹائرڈمنٹ کے بعد پکڑی گئیں جب اس کی پینشن کے دستاویزات بناتے ہوئے ایک کلرک کو شک گزرا تو اس نے اپنے اعلی افسران کو معاملے سے آگاہ کیا جنہوں نے انکوائری کروائی تو ڈگریوں اور لائنس میں ہیر پھیر پائی گئی مگر دونوں کیسوں میں ان افراد کی شناخت کو خفیہ رکھا گیا.

پی آئی اے کے معاملے پر بھی محکمانہ انکوائری کرواکرمشکوک ڈگریاں اور لائسنس رکھنے والوں کو فارغ کردیا جاتا اتنا ڈھونڈارا پیٹنے کے پیچھے بدنیتی نظرآتی ہے کہ ایک زمانے میں دنیا کی بہترین ایئرلائن جس کے پاس بعض لائسنس ایسے ہیں جو اس کے کل اثاثوں سے زیادہ اہمیت اور مالیت رکھتے ہیں اسے سربازار حکومت نے خود رسوا کرکے رکھ دیا ‘حکومتیں عرصے سے قومی ایئرلائن کو اونے پونے ہڑپنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں مگر ایسا ”خودکش حملہ“پی آئی اے پر پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اس کے تمام انٹرنیشنل روٹس خطرے میں پڑگئے ہیں جنہوں نے پی آئی اے سے جہاز داھار لے کر اپنی ایئرلائن اس ایک جہازپر کپڑاکا بنا اپنا بینرلگا کر شروع کی تھی آج وہ ”برادر عرب“بھی پی آئی اے پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں.

ماضی کو ان واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت اور وزیرہوابازی کا ”خودکش حملہ“بلاجوازنہیں اس کے پیچھے وہ ہاتھ ہیں جو دہائیوں سے پی آئی اے کو پی ٹی سی ایل کی طرح کوڑیوں کے بھاؤ خریدنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں جن میں مقامی معاشی دہشت گردوں کے علاوہ بین القوامی گینگ بھی شامل ہیں ‘وزیراعظم اگر واقعی ہی قومی اداروں کو بچانے کا عزم رکھتے ہیں تو سب سے پہلے وزیرہوابازی کو برطرف کرکے ان کے خلاف انکوائری کی جائے دوسرا اس معاملہ کا ہر پہلو سے سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور خاص طور پر جن عرب ملکوں نے پی آئی اے سے اس کے ڈومیسٹک روٹس تک چھین لیے ہیں انہیں منہ توڑ جواب دیا جائے کہ اگر وہ پی آئی اے کو اپنے ملکوں کی فضائی حدود میں آنے کی اجازت نہیں دیں گے تو ان کی فضائی کمپنیاں بھی پاکستان میں اپنے آپریشنزجاری نہیں رکھ سکیں گی‘پی آئی اے کی بحالی کے لیے اگر پچھلے20سالوں میں ہونے والی سیاسی بھرتیوں کو ہی ختم کردیا جائے تو قومی ایئرلائن کے خسارے میں نمایاں کمی آسکتی ہے.

اسی طرح تمام سرکاری اداروں میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کا جائزہ لیا جائے اور صرف رشوت یا سفارش سے بھرتی ہونے والوں کو ہی نہ نکالا جائے بلکہ ان ادوار میں اداروں کے سربراہان‘جن افسران نے انہیں بھرتی کیا تھا ان سب کے خلاف بھرپور قانونی کاروائی کی جائے تو ملک سے سفارش اور رشوت کے ذریعے بھرتیوں کی اس لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے.

پاکستان انٹرنیشل ایئرلائن کے ایک سابق اہلکار کے مطابق یہ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کا اپنے ہی ادارے یعنی سول ایوی ایشن پر براہِ راست اور پی آئی اے پر بالواسطہ ”خود کش حملہ“ ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے نہ صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پوری صنعت اور ریاست کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے جبکہ حکومت اور خود وزیرموصوف مستعفی ہونے سے انکاری ہیں.

یہ بات پہلے دن سے مختلف طریقوں سے کہی جا رہی ہے اور اس کا مرکز وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان کا پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان ہے جس سے انہوں نے اگلی ہی پریس کانفرنس میں بیک ٹریک کیا اور جعلی لائسنس سے شروع ہونے والا معاملہ مشکوک بن گیا ان معاملات میں شامل رہنے والے ایک سے زیادہ اہلکاروں نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس ساری صورتحال کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے کیا ااور انہوں نے وزیرہوابازی کو کہا کہ اس معاملے پر کھل کر بات کی جائے اور پائلٹس کے معاملے پر وزیراعظم کا موقف کچھ زیادہ ہمدردانہ نہیں ہے پائلٹس کی تنظیم پالپا کے بارے میں تو بالکل بھی نہیں تو کیا کراچی فضائی حادثہ میں تباہ ہونے والی طیارے کی رپورٹ کے ساتھ اس معاملے کو جوڑنا کیونکہ موزوں تھا اور بظاہر خودکش حملہ لگنے والی تقریر کہیں سرجیکل سٹرائیک تو نہیں تھی؟ .

پی آئی اے کے بارے میں عدم توجہی جس کا اظہار موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں دیگر حکومتی بحرانوں کی وجہ سے ہوا اس کی وجہ سے یہ حادثہ ہونے کو تھا حکومت کی جانب سے پوچھ گچھ ختم ہونے اور مشرف رسول سیان کے برطرف ہونے کے بعد یہ معاملہ پسِ پشت ڈال دیا گیا یہاں تک کے ابتدائی دنوں میں اس وقت کے وزیرخزانہ اسد عمر اور وزیر اعظم کے ساتھ بڑی شد و مد کے ساتھ اجلاس ہوئے، پی ائی اے کی بحالی کے لیے نئے بزنس پلان پیش کیے گئے، بڑے دعوے کیے گئے اور پھر پلٹ کر خبر ہی نہیں لی گئی حال ہی میں کراچی طیارہ حادثہ کے بعد ہونے والے اجلاسوں میں پی آئی اے کے سربراہ ایئر مارشل ارشد ملک نے وزیراعظم سے اس متعلق شکوہ بھی کیا جس پر وزیراعظم نے اگلے ہی روز اجلاس رکھنے کا فیصلہ صادر فرمایا مگر وہ اجلاس بھی دو تین دن کے بعد ممکن ہوا اس دوران ارشد ملک کا کیس بھی عدالت پہنچا جس دوران ارشد ملک کئی ہفتے غیر موثر رہے اور انتظام ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جاتا رہا.

حد تو یہ ہے کہ ایئر مارشل عاصم سلیمان کو جبری طور پر رخصت کیے جانے کے بعد موجودہ حکومت نے گذشتہ تقریباً دو برسوں سے سول ایوی ایشن کا ڈائریکٹر جنرل ہی مقرر نہیں کیا یعنی دو برسوں سے سیکرٹری ایوی ایشن ایڈ ہاک بنیادوں پر سول ایوی ایشن کو چلا رہے ہیں جبکہ ذمہ داریاں سول ایوی ایشن بورڈ کے ذمہ ہیں جس کی سربراہی ایئرمارشل احمر شہزاد کے پاس ہے جو وائس چیف آف ایئر سٹاف بھی ہیں اس کے علاوہ ایئر وائس مارشل تنویر بھٹی اور ایئر کموڈور ناصر رضا ہمدانی اس کے رکن ہیں ان کے علاوہ چند سویلین اراکین بھی ہیں یاد رہے کہ تاریخی طور پر سول ایوی ایشن ایئرفورس کے حاضر یا ریٹائرڈ افسران ہی چلاتے رہے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :