پاک بھارت جنگ ‘بھارتی فوجی افسروں کی نظرمیں(حصہ اول)

اتوار 6 ستمبر 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پاکستان اور بھارت میں جہاں ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر کشیدگی کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تیز و تند بیانات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے وہیں کشمیر کے درینہ تنازعے پر1965کی پاک بھارت جنگ میں کامیابیوں اور دوسروں کی ناکامیوں کا پرچار کیا جا تا رہا ہے.

(جاری ہے)

بلاشبہ انتہائی کم سازوسامان اور عددی لحاظ سے چھوٹی فوج نے اس جنگ میں بھارت کی عددی اور جنگی سازوسامان سے بڑی فوج کا غرور ایسا خاک میں ملایا کہ آج تک بھارت اور بھارتی فوج ان زخموں کو چاٹ رہی ہے صرف بھارت کی مغربی سرحدوں پر 17 دن تک جاری رہنے والی اس جنگ میں بھارت کی ایک لاکھ فوج کا پاکستان کے 60 ہزار افسروں اور جوانوں نے جس جوانمردی سے مقابلہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے اس مضمون میں جنگی حالات کے لیے میں کسی پاکستانی افسرکی لکھی کتاب نہیں بلکہ بھارتی فوج کے افسروں کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے جبکہ پاک فوج اور پاکستان کے انتظامی حالات کے لیے پاکستانی افسروں کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے.

بھارت کو جنگ کے 50سال بعد اس وقت ”فتح کا جشن“یاد آیااس وقت یاد آیا جب بھارت میں آرایس ایس کے سرگرم رکن نریندرمودی بھارتیہ جنتاپارٹی کی جانب سے وزیراعظم بنے تو انہوں نے جہاں بھارت کو ایک مکمل جنونی ہندوریاست بنانے کے لیے بہت سارے دوسری اقدامات کیئے وہیں2015میں 1965کی پاک بھارت جنگ کا ”جشن فتح“منانے کا آغازکیا گیا جس پر خود بھارت کے سابق فوجی افسروں نے احتجاج کیا بھارت کی ”فتح کا جشن“منانے کا خیال لال بہادر شاستری سے لے کر سردار من موہن سنگھ تک کسی کو نہیں آیا.

لال بہادر شاستری جن سے استعفی ہی جنگ میں شکست کی بنا پر لیا گیا تھا انہیں بھی یہ نہیں سوجھا کہ وہ مستعفی ہونے کی بجائے ’ ’جشن فتح“ کا اعلان کردیتے یہ خیال بھی آرایس ایس کے ”چائے والے لونڈے“کو جنگ کے50سال بعد آیا . کچھ روزقبل ایک آرٹیکل میری نظرسے گزرا جس میں پاک فوج کے ”آپریشن گرینڈ سلم “ کی بات کی گئی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں 1970کی دہائی میں لکھی گئی جنرل(ر)افضل کی 1965کی پاک بھارت جنگ پر کتاب‘کسی بھی جنگ میں ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنزکا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے تواس وقت کے ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنز جنرل گل حسن کی کتاب ”آخری کمانڈرانچیف “ پھر اس زمانے میں پاکستان کے فوجی سربراہ مملکت فیلڈمارشل ایوب خان کی اپنی کتاب”فرینڈز ناٹ ماسٹر“میں بھی ”آپریشن گرینڈ سلم“کا ذکر ملتا ہے تو فاضل مضمون نگار نے اسے ایک انکشاف کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ شاید ان کی نظر سے کوئی آرٹیکل یا کتاب اب تک نہیں گزری ہوگی.

جنرل گل حسن لکھتے ہیں کہ آپریشن گرینڈ سلم کامیاب ہوجاتا تو کشمیراور لداخ پاکستان کا حصہ ہوتے مگر اس وقت بھی اعلی کمانڈکے فیصلوں میں تاخیراور سیاسی محاذپر دفتر خارجہ کے نعرے ”اشتعال نہ دلاؤ‘جارحیت برپا نہ کرو“ 65کی پاک بھارت جنگ میں ڈی جی ایم او جیسے اہم ترین عہدے پر فائز جنرل گل حسن لکھتے ہیں کہ دفتر خارجہ کے ایجاد کردہ اس نعرے کا فارمیشنوں پر منفی اثرپڑا‘اور آپریشنزکی ممکنہ ناکامیوں کی وجہ بھی بنا‘یہ دونوں آپریشنزمیرا موضوع بحث نہ ہوتے اگر نام نہاد دانشور کا مضمون میری نظروں سے نہ گزارا ہوتاآج کے نوجوانوں میں جہاں ہمیں تربیت کی کمی نظر آتی ہے وہیں مطالعہ کا شوق ناپید ملتا ہے جن استادوں کے ساتھ ہم نے کام کیا ان کا مقولہ پلے باندھ رکھا ہے آج تک صحافی جس دن مطالعہ چھوڑ دے اس کی پیشہ ورانہ موت واقع ہوجاتی ہے.

ایک الزام اس وقت کے پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان پر ہے کہ انہوں نے بھارتی فضائی فوج کے سربراہ ایئر مارشل ارجن سنگھ کو فون کر کے پیشکش کی کہ دونوں ممالک کی فضائیہ اس جنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھیں اگرچہ اصغر خان نے اپنی سوانح عمری ”دی فرسٹ راؤنڈ“ میں اس واقعے کا ذکر نہیں کیا لیکن بعد میں یہ قیاس آرائی کی گئی کہ شاید اسی کی وجہ سے جنگ شروع ہونے سے صرف دس روز قبل ایوب خان نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا کر ایئر مارشل نور خاں کو پاکستانی ایئر فورس کا سربراہ بنا دیا تھا.

جنرل گل حسن کی کتاب ”آخری کمانڈرانچیف “میں ”آپریشن گرینڈ سلم “ کی تفصیلات پڑھیں تو وہ جہاں جنرل یحیی خان کو ایک اچھا کمانڈر قرار دیتے ہیں تو وہیں وہ ان کے اس فیصلے پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں کہ اس آپریشن کے ماسٹرمائنڈ میجر جنرل اخترحسین ملک کی کمانڈعین اس وقت تبدیل کردی گئی جب وہ یلغار کے لیے تیار بیٹھے تھے اسی طرح 1965میں پاکستانی بری فوج کے کمانڈرانچیف جنرل موسی خان بھی اپنی کتاب ”مائی ویژن“میں اعتراف کرتے ہیں کہ وقت ضائع کیا گیا جس کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ”آپریشن گرینڈ سلم “اور اس سے جڑے ”آپریشن جبرالٹر“ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا ذکر بہت ساری کتابوں اور مضامین آچکا ہے کہ 1962کی بھارت نے چین سے ذلت آمیزشکست کھانے کے بعد اپنی عوام کی آنکھوں میں دھول جونکھنے کے لیے پاکستان کے خلاف مختلف سیکٹرزمیں کاروائیاں شروع کردی تھیں بھارت نے ایک خفیہ آپریشن آزادکشمیر کے لیے شروع کیا وہ آزادکشمیر کے علاقوں پر قبضہ کرکے چین سے اپنی بدترین شکست کو چھپانا چاہتا تھا لہذا پاک فوج نے آزادکشمیر میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا شروع کیا اور ایک آپریشن کے دوران وہ سارے بھارتی فوجی مارے گئے جو آزادکشمیر میں بھارت کے ناپاک ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے داخل کیئے گئے تھے.

بھارت کی یہ حرکتیں ”آپریشن گرینڈ سلم“اور ”آپریشن جبرالٹر“کی وجہ بنیں مگر جنرل ہیڈکواٹرزمیں بیٹھی افسرشاہی نے فیلڈ کمانڈروں کے منصوبوں کو بلاجوازتاخیرکرکے مٹی میں ملادیا بہرحال یہ تو مختصر سی تفصیل تھیں ان دونوں آپریشنزکی جو اگر کامیاب ہوجاتے تو کشمیر کو مسلہ آج تک یوں سلگ نہ رہا ہوتا ہمیں اپنی غلطیوں اور کمی‘کوتاہیوں کو بھی نظراندازنہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے.

اب آتے ہیں 1965کی پاک بھارت جنگ کی طرف تو مضمون کو طویل کرنے کی بجائے میں براہ راست 1965میں بھارتی فوج کی مغربی کمانڈ کے کمانڈرجنرل ہربکش سنگھ کی کتاب ”ان دی لائن آف ڈیوٹی“میں بھارتی فوج کی حالت بیان کرتے ہیں جو لاہور کی جانب پیش قدمی کررہی تھی جنرل ہربکش سنگھ لکھتے ہیں“ لاہورکے محاذ پر بھارتی فوجیوں کو ابتدائی کامیابی تو مل گئی تھی لیکن زمین پر حالات بہت اچھے نہیں تھے میجر جنرل نرنجن پرساد کی 15 ڈویژن میں زبردست افراتفری پھیلی ہوئی تھی‘ جنرل ہربکش سنگھ لکھتے ہیں انہوں نے ڈرائیور کو جیپ کے پیچھے بیٹھنے کو کہا اور خود ڈرائیو کرنے لگے جب وہ جی ٹی روڈ پر پہنچے تو وہاں کا نظارہ دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے ہر جگہ انڈین گاڑیاں جل رہی تھیں.

سڑک پر پاکستانی جہازوں کی بمباری سے بڑے بڑے گڑھے بن گئے تھے اور پاکستانی طیارے بھی اوپر اڑ رہے تھے ‘ہم دیکھ رہے تھے کہ 15 ڈویژن کی گاڑیاں سڑک پر ادھر ادھر پڑی ہوئی تھیں ان کے ڈرائیور انہیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے بہت ٹینکوں کے تو انجن تک بند نہیں کیے گئے تھے سڑک کے بیچو بیچ ایک ہتھیار بند گاڑی کھڑی ہوئی تھی مگر اس میں کوئی نہیں تھا لیکن چابی لگی ہوئی تھی میں نے اسے سڑک سے ہٹوا کر کنارے لگوایا“ .

جنرل ہربکش سنگھ کو ڈویژنل ملٹری پولیس کی ایک گاڑی گنے کے ان کھیتوں کے پاس لے گئی جہاں 15 ڈویژن کے کور کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرساد پاکستانی بمباری سے بچنے کے لیے رو پوش تھے‘ہربکش سنگھ لکھتے ہیں جب جنرل نرنجن پرساد مجھے ریسیو کرنے آئے تو ان کے جوتے کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے ان کے سر پر ٹوپی نہیں تھی اور انہوں نے داڑھی بھی نہیں بنائی ہوئی تھی ان کی وردی پر ان کا عہدہ بتانے والے سارے نشانات غائب تھے میں نے ان کو اس حال میں دیکھ کر براہ راست سوال کیا آپ ڈویژن کے جنرل افسر کمانڈنگ ہیں یا قلی؟ آپ نے داڑھی کیوں نہیں بنائی ہے اور آپ کی رینک کے بیج کہاں ہیں؟.

ابھی یہ سوال جواب چل ہی رہے تھے کہ دو پاکستانی جنگی طیارے بہت نیچے پرواز بھرتے ہوئے ان کے سر کے اوپر سے گزرے جنرل نرنجن پرساد نے جنرل ہربکش سنگھ کو پاس کی جھاڑی میں کھینچنے کی کوشش کی ہربکش سنگھ کہتے ہیں میں نرنجن پرساد پر زور سے چلایا کہ دشمن کے جہازوں کی ہم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ویسے بھی وہ ہمیں نہیں دیکھ پا رہے ہیں وہ ان گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہیں آپ نے سڑک پر یوں ہی چھوڑ دیا ہے.

جنرل ہربکش کہتے ہیں میں نے نرنجن پرساد سے پوچھا آپ کے بریگیڈ کمانڈر کہاں ہیں؟‘ نرنجن پرساد نے آواز لگائی‘پاٹھک ، پاٹھک اورجب پاٹھک وہاں پہنچے تو ان کا منہ چادر کی طرح سفید تھا‘ پاٹھک نے کہا وہ لوگ واپس آ رہے ہیں لیکن بہت لوگوں کے ہلاک ہو جانے کی وجہ سے وہ غیر فعال ہو گئے ہیں ہربکش کہتے ہیں میں نے پوچھاکہ کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں؟ تو وربریگیڈئیرپاٹھک نے جواب دیا 30 افراد زخمی ہوئے ہیں‘جنرل ہربکش سنگھ نے کہا 4000 میں سے صرف 30 افراد زخمی ہیں اور آپ کہہ رہے ہے مکمل بریگیڈ غیر فعال ہو گئی ہے؟ بریگیڈیئرپاٹھک کے اس بیان سے لگتا ہے کہ بھارتی افواج بری طرح بوکھلاہٹ اور عدم ڈسپلن کا شکار تھی‘جنرل ہربکش سنگھ لکھتے ہیں میں نے انہیں نئے سرے سے آگے بڑھنے کا حکم دیا جس پر جنرل نرنجن پرساد سے کہا کہ وہ بریگیڈ کی پیش رفت پر نظر رکھیں اور اگلی صبح کور کمانڈر کو آپریشن کی اطلاع دیں.

وہ لکھتے ہیں کہ 7 ستمبر کو نرنجن پرساد اپنی بریگیڈ کی پوزیشن جاننے کے لیے اے ڈی سی کے ساتھ ایک جیپ پر سوار ہو کر آگے بڑھے ابھی وہ کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ ان پر پاکستانیوں نے میڈیم مشین گن سے فائر کیا نرنجن پرساد اور ان کے ڈی سی گاڑی چھوڑ کر قریب کے کھیتوں میں چھپ گئے تھوڑی دیر بعد انہوں نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے انہوں نے پیچھے آنے والی جیپ کا استعمال کیا ان جیپوں میں سوار لوگوں سے پیدل واپس آنے کے لیے کہا گیا انہوں نے اپنی جیپ کھیتوں میں چھوڑ دی جس میں ان کا ایک بریف کیس رکھا ہوا تھا اس میں کئی اہم کاغذات بھی تھے جیپ پر ڈویژن کا جھنڈا اور سٹار پلیٹ بھی لگی ہوئی تھی.

بعد میں یہ جیپ پاکستانی فوجیوں کے ہاتھ لگ گئی اور ریڈیو پاکستان نے بریف کیس میں رکھے کاغذات نشر کرنا شروع کر دیے ان کاغذات میں جنرل ہربکش سنگھ کے خلاف فوجی سربراہ سے کی گئی شکایت بھی تھی جنرل بربکش سنگھ لکھتے ہیں کہ11 ویں کور کے کمانڈر، نرنجن پرساد کی اس غلطی کے لیے ان کا کورٹ مارشل کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل چوہدری نے نرنجن پرساد سے استعفیٰ دینے کے لیے کہا ان کی جگہ میجر جنرل موہندر سنگھ کو 15 ڈویژن کا نیا کمانڈر بنایا گیاادھر بھارتی فوج کے ایک اور جرنیل جوگندر سنگھ اپنی کتاب ”بیہائنڈ دا سین“ میں جنرل نرنجن پرساد کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نرنجن کو اس لیے نہیں برطرف کر دیا گیا کہ وہ ایک بزدل کمانڈر تھے بلکہ اس لیے کہ وہ ایک ”غیرذمہ دار ماتحت “ تھے.

جنرل جوگندر سنگھ اور ہربکش سنگھ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن کچھ غیر جانبدار مبصرین جیسے میجر کیسی پرول اور میجر آغا ہمایوں امین کا خیال ہے کہ” نرنجن پرساد کی ڈویژن نے بہتر مواقع کو ہاتھ سے نکل جانے دیا اور ان کی وجہ سے انڈیا کی کافی سبکی ہوئی“. (جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :