
ماحولیات وزراعت کی تباہی اور قبضہ مافیا
بدھ 18 اگست 2021

میاں محمد ندیم
(جاری ہے)
سال بھر پہلے دس صفحات پر مشتمل ایک دستاویزانہیں ارسال کیا تھا جس میں لاہور کے ایکوسسٹم کی بحالی کے لیے تجاویزپیش کی تھیں اس کے چند نکات پھر سے دہرا ئے دیتا ہوں ‘سب سے پہلے تو اعلان کیا جائے کہ دریائے روای کے کناروں پر کوئی شہر نہیں بسایا جائے گا بلکہ چوہنگ سے لے کر محمود بوٹی تک مجوزہ ریوورسٹی کے منصوبے کی بجائے یہ علاقہ اربن گارڈننگ اور فارسٹ کا ایریا ڈکلیئرکردیا جائے اور اس کو تحفظ دینے کے لیے پنجاب اسمبلی سے قانون سازی کروائی جائے تاکہ مستقبل میں بھی کسی کے دماغ میں یہاں نیا شہربسانے کابھوت سوار نہ ہو‘پنجاب یونیورسٹی کے پاس ہزاروں ایکٹررقبہ موجود ہے اربن فارسٹ اور گارڈن کے لیے اس سے زیادہ موزوں جگہ لاہور میں کسی اور جگہ نہیں ہوسکتی لہذا یونیورسٹی سے یہ جگہ لمبے عرصے کے لیے لیز پر لے کر اس پر اربن فارسٹ اور گارڈن کے منصوبے بنائے جائیں ۔
یہ منصوبہ چند ماہ میں مکمل ہوسکتا ہے اگر نیت نیک ہوتو کیونکہ نہری ہانی سمیت ہر چیزیہاں موجود ہے ‘پنجاب یونیورسٹی کی یہ زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ لیزپر دی گئی ہیں یونیورسٹی انتظامیہ یا پنجاب حکومت قانون سازی کے ذریعے یہ زمینیں چند ہفتوں میں خالی واگزارکرواسکتی ہے اسی طرح نہر کے پار بچے ہوئے زرعی رقبوں کے تحفظ کے لیے فوری طور پر آباد زرعی زمینوں کی خریدوفروخت پر کم ازکم بیس سے پچیس سال پر پابندی لگائی جائی اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور کنکریٹ کے جنگل اتنی تیزی سے بڑھتے رہے تو ہماری آنے والی نسلیں اناج کے دانے ‘دانے کو ترسیں گے یہ بات میں بار بار یاد کروارہا ہوں کیونکہ حکمرانوں کے اقدامات سے اندازہ ہورہا ہے ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف حکومت کا ”وژن“ بھی صرف ”کاسمیٹکس“اقدامات تک محدود ہے ۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردارکیا ہے کہ اگر ماحول دشمن گیسوں کے روکنے کے لیے اقدامات نہ کیئے گئے تو آنے والے دہائی میں دنیا کے درجہ حرارت میں ناقابل برداشت اضافہ ہوجائے گا عالمی ادارے کے تحت سائنسدانوں کے ایک گروپ نے جامع تحقیق کے بعد یہ رپورٹ مرتب کی ہے رپورٹ میں دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے وقوع پذیرہونے والے واقعات اورمختلف ملکوں اور اداروں کے فراہم کردہ اعدادوشمار پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انسان دنیا کے ماحول پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ جس حساب سے گیسز کا اخراج جاری ہے، ایک دہائی میں درجہ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک سمندر کی سطح میں دو میٹر تک اضافے کے خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتالیکن ایک نئی امید بھی پیدا ہوئی ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر بڑی حد تک قابو پانے سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل کی جانب سے جاری کردہ یہ اندازہ 42 صفحات پر مشتمل دستاویز میں شامل ہے جسے پالیسی سازوں کے لیے سمری کا نام دیا گیا ہے یہ رپورٹوں کی اس سیریز کا پہلا حصہ ہے جو آنے والے مہینوں میں شائع کی جائیں گی اور یہ 2013 کے بعد سے اب تک موسمیاتی تبدیلی کی سائنس کا پہلا بڑا جائزہ ہے جسے گلاسگو میں ماحولیاتی اجلاس COP26 سے تین ماہ قبل جاری کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیریز کے مطابق رپورٹ انسانیت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم اب ہی سر جوڑیں تو ہی ہم بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی سے نمٹ سکتے ہیں لیکن جیسے آج کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے اس معاملے میں نہ تاخیر کی گنجائش ہے نہ غلطی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمین کی سطح کا درجہ ہرارت 1850 سے 1900 تک اتنا گرم نہیں تھا جتنا2011 سے 2020 کے درمیان رہا دونوں ادوار کے درمیان ایک عشاریہ صفر نو سینٹی گریڈ کا فرق ہے جبکہ گذشتہ پانچ برس 1850 کے بعد تاریخ کے سب سے گرم ترین سال تھے حالیہ برسوں میں سطح سمندر میں اضافہ 1901 سے 1971 میں ریکارڈ ہونے والے اضافے سے بھی زیادہ ہے دنیا بھر میں گلیشیئر اور قطب شمالی میں موجود برف پگھلنے کی سب سے بڑی وجہ (90 فیصد) انسانی عوامل ہیں یہ بات طے ہے کہ شدید گرمی پڑنا اب اور عام ہوتا جائے گا جبکہ شدید سردی کی لہروں میں کمی آتی جائے گی۔ تازہ ترین رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ہم نے آج تک جس گرمی کا تجربہ کیا ہے اس نے ہمارے بہت سے سیاروں کے سپورٹ سسٹم میں تبدیلیاں کی ہیں جو ناقابل واپسی ہیں رپورٹ کے مطابق سمندر گرم ہوتے رہیں گے اور مزید تیزابیت کا شکار ہوجائیں گے پہاڑی اور قطبی گلیشیر کئی دہائیوں یا صدیوں تک پگھلتے رہیں گے رپورٹ کے شریک مصنف پروفیسر ہاکنس کا کہنا ہے کہ گرمی کی ہر لہر کے نتائج بدتر ہوتے رہیں گے ا ان میں سے بہت سے نتائج تبدیلیوں ناقابل واپسی ہیں یعنی دوبارہ پہلے والی حالت پر واپس جانا ممکن نہیں ان کا کہنا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک خود کو موسمیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سائنس میگزین کے لیے موحولیات اور زراعت کو پیش خطرات پر راقم بھی کئی رپورٹس کے لیے تحقیق کرچکا ہے ہمارے ہاں سرے سے اعدادوشمار ہی دستیاب نہیں لہذا محققین کو اپنے طور پر اعدادوشمار جمع کرنا پڑتے ہیں پاکستان سمیت کم آمدنی والے ممالک خود کو موسمیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ‘پاکستان میں رہائشی کالونیوں سے پیسے کمانے کے رجحان سب سے بڑا خطرہ ہے ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہماری زراعت متاثرہورہی ہے تو دوسری جانب جنگلات اور زرعی زمینیں رہائشی سکیمو ں کی نظرہورہی ہیں۔ یہ تباہی چند سالوں میں نہیں آئی بلکہ اس کا آغازسترکی دہائی میں ہوگیا تھا جب ملک میں زمینوں کی بندربانٹ شروع کی گئی اور 1980کی دہائی میں اس میں غیرمعمولی تیزی آئی جبکہ جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ اپنے عروج تک پہنچ گئی عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کا 25فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے مگر پاکستان میں 2فیصد سے بھی کم پر جنگلات بچے ہیں جبکہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے ہاں جنگلات کا رقبہ20فیصد سے زیادہ تھا حکمرانوں کو زمینی حقائق بالکل ادراک نہیں جبکہ عوام میں شعور کی کمی ہے اگر ہم نے اپنی آباد زرعی زمینیں بھی تاجرانہ سوچ رکھنے والوں کے سپرد کردیں تو ہمارے پاس کھانے کے لیے اناج نہیں ہوگا اور مستقبل قریب میں ہم خوفناک قحط کا شکار ہوسکتے ہیں ‘دوسری جانب ہمارے توانائی کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوسکتے حکومتیں ہر سال بجلی کی پیدوار میں اضافہ کرتی ہیں مگر اگلے سال اس سے دوگنا طلب بڑھ جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم درختوں کی بجائے کنکریٹ کے ”جنگلات“کو بڑھاتے جارہے ہیں اسی طرح ہر سال لاکھوں گاڑیوں کا اضافہ ہورہا ہے جو گرمی میں شدت کا سبب بن رہی ہیں جبکہ سردی کا موسم سکڑتا جارہا ہے ۔ محکمہ احولیات کی ایک رپورٹ میں کہا گیاکہ کراچی یا لاہور کی ایک شاہراہ پر چلنے والی گاڑیاں ایک بڑے کارخانے سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں پیداکررہی ہیں اگرہم پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے ایئرکوالٹی انڈکس کا جائزہ لیں تو یہ خوفناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی بھی شہر کی ہوا انسانی صحت کے لیے موزوں نہیں۔حکومت شجرکاری کی مہموں پر اربوں روپے ضائع کررہی ہے کیا بڑوں شہروں کے اندر یا کے قرب وجوار میں درخت لگانے کے لیے کہاں جگہ بچی ہے؟کچھ سال پہلے میری نظرسے لاہور کا 1940کا ایک نقشہ گزرا تھا جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ 1950کی دہائی میں ہی لاہورشہر کے اندر ہزاروں ایکٹرسرکاری زمینیں قبضہ مافیاکی نذرہوئیں اسی طرح لاہور کی 1970کی دہائی کے بعد وجود میں آنے والی آبادیاں لاہور کے نواحی دیہات پر بنیں ا ن دیہات میں بھی محکمہ اوقاف‘متروکہ وقف املاک بورڈ کی زمینوں سمیت لاکھوں ایکٹرشاملات زمینوں پر حکومتوں اور سرکاری اہلاروں کی ملی بھگت سے قبضے کرکے رہائشی کالونیاں بنائی گئیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ عمران خان حکومت اگر واقعی ہی سنجیدہ ہے اور کچھ کرنا چاہتی ہے تو ہمت کرئے اور پنجاب بورڈ آف ریونیو سے ریکارڈ لے کر قبضہ گروپوں سے زمینوں کو واگزار کرواکر ان پر اربن فارسٹ قائم کیئے جائیں ان قبضہ گروپوں کی ہوس زرکا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اندرون شہر میں سڑکوں کے نیچے کھود کھود کر پوری پوری مارکٹیں قائم بنی ہوئی ہیں جہاں ایک ایک دوکان کا کرایہ لاکھوں میں ہے ۔ حکومت اگرلاہور جیسے بڑے شہر کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خوفناک اثرات سے بچانا چاہتی ہے تو روای ریوور سٹی‘ ایل ڈی اے سٹی اور ڈی ایچ اے سٹی منصوبوں کو بھی فوری ختم کرنے کا اعلان کرئے کیونکہ شہر کا ایکو سسٹم پہلے ہی تباہ ہوچکا ہے شہر کے گر د بچی ان ہزاروں ایکٹرزمینوں کو بھی رہائشی کالونیوں کی نذرکردیا گیا تو موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے اٹھائے جانے حکومتی اقدامات سے کوئی فائدہ پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اسی طرح کراچی اور دیگر بڑے شہروں کے گرد تیزی سے ختم ہوتے زرعی اور جنگلات کے رقبے پر بننے والی کالونیوں پر پابندی عائدکردی جائے‘شہروں میں ٹریفک کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیئے جائیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دیتے ہوئے ذاتی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے ادھر90 ممالک کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نقصانات کو روکنے والے ان کے منصوبے پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی آفات سے متاثر ہو چکے ہیں اور ان میں دن بدن شدت آتی جا رہی ہے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی موافقت کے منصوبوں پر کام کرنے والے ترقی پذیر ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق اس بات کے محض محدود شواہد موجود ہیں کہ ان منصوبوں نے کسی خطرے کو کم کیا ہو۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے کم ترقی یافتہ ممالک گروپ کی چیئرپرسن سونم وانگڈی کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے منصوبوں کو موسم کے بدترین بحران کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ہمارے موجودہ منصوبے لوگوں کی حفاظت کے لیے کافی نہیں ہیں یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کا موسمیاتی سائنس کا ادارہ گلوبل وارمنگ کی صورتحال کے بارے میں اپنا تازہ جائزہ شائع کر چکا ہے۔ صنعتی دور شروع ہونے کے بعد سے دنیا پہلے ہی تقریباً 1.2 سینٹی گریڈ تک گرم ہوچکی ہے اور یہ درجہ حرارت تب تک بڑھتا رہے گا جب تک کہ دنیا بھر کی حکومتیں گیسوں کے اخراج پر قابو نہیں پا لیتیں‘پچھلے سال کیریبیئن میں 30 بڑے طوفان آئے تھے جن میں چھ بڑے سمندری طوفان بھی شامل تھے اور عالمی موسمیاتی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ خطہ ابھی تک بحالی کے دور سے گزر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹیگا اور باربوڈا جیسے جزیروں پر بہت سی عمارتیں ان طوفانوں کی وجہ سے آنے والی تیز ہواؤں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں‘الائنس آف سمال آئی لینڈ سٹیٹس کے ماحولیات سے متعلق چیف ثالث ڈیان بلیک لینر کا کہنا ہے کہ ہم کیٹیگری فور کے سمندری طوفان دیکھ رہے ہیں، لہذا ہم نے اپنے موافقت کے منصوبے اسی حساب سے تیار کیے ہیں لیکن اب ہم کیٹیگری فائیو کے سمندری طوفانوں کی زد میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کیٹگری فائیو کے سمندری طوفان اپنے ساتھ 180 میل فی گھنٹہ کی رفتار کی ہوائیں بھی لاتے ہیں جو ہمارے گھروں کے اندر دباوٴ پیدا کرتی ہیں اور ان سے گھروں کی چھتیں نہیں سہہ سکتیں اکثر پیسیفک جزائر پر موجود ممالک 2020 کے وسط اور جنوری 2021 کے درمیان تین سمندری طوفانوں کا نشانہ بنے تھے۔ فجی میں حادثات سے نمٹنے والے ادارے فجی کونسل برائے سوشل سروسز کے سربراہ وانی کاٹاناسیگا کا کہنا ہے کہ ان تین سمندری طوفانوں کے بعد ملک کے شمالی حصے میں موجود برادریوں نے موافقت سے منسلک منصوبوں اور سمندری دیواروں کو ٹوٹتے دیکھا ہے پانی اور تیز ہوائیں متعدد مرتبہ ان آبادیوں کی تباہی کا باعث بنی اور ان کے باعث مقامی افراد کو مقامی منتقلی کا شکار ہونا پڑا اتنے کم عرصے میں اتنے زیادہ سمندری طوفان اس سے پہلے نہیں دیکھے گیے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ سمندری طوفان گذشتہ 40 سالوں کے دوران مزید شدید ہو گئے ہیں لیکن ان کی مجموعی تعداد میں اضافے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا‘دوسری جانب افریقی ملک یوگانڈا میں روینزوری خطے کی برادریاں اپنے آپ کو لینڈ سلائیڈز اور سیلاب سے بچانے کے کوشش میں مصروف ہیں اس کام کے لیے وہ درخت لگا رہے ہیں، خندقیں کھود رہیں ہیں تاکہ زمین کے کٹاوٴ سے بچا جا سکے تاہم یہ اقدامات ہمیشہ کامیاب بھی نہیں رہتے ۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میاں محمد ندیم کے کالمز
-
لاہور میں صحافیوں کا تاریخی میلہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
الوداع۔(پہلا حصہ)
جمعرات 10 فروری 2022
-
عمران خان ناموس رسالت ﷺ اورکشمیر کے وکیل
پیر 31 جنوری 2022
-
آلودگی میں لاہور کا ”اعزاز“
بدھ 3 نومبر 2021
-
ریاست مدینہ :پاکستان‘نظام اور حکمران۔ قسط نمبر2
ہفتہ 23 اکتوبر 2021
-
ریاست مدینہ:پاکستان‘نظام اور حکمران۔قسط نمبر1
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
وزیراعظم عمران خان کے نام کھلا خط
منگل 12 اکتوبر 2021
-
معاشی بدحالی کا شکار پاکستان
جمعہ 8 اکتوبر 2021
میاں محمد ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.