درخواست مسترد کی جاتی ہے

ہفتہ 7 اگست 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 یہ وہ پانچ الفاظ ہیں جو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لیے صدرجنرل ضیاء الحق کو دی جانے والی رحم کی اپیل پر صدر نے حتمی فیصلہ کرتے ہوئے لکھے جس کے بعد بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، آج اس وقت بھٹو کی برسی ہے اور نہ ان کا یوم پیدائش، کہ ان کی زندگی سے متعلق کسی واقعہ کو موضوع بنایا جائے تاہم سابق آرمی چیف جنرل مرزااسلم بیگ کی سوانح حیات ”اقتدار کی مجبوریاں“ کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنی ذاتی زندگی اور فوج میں ملازمت کے دوران پیش آنے والے واقعات کے علاوہ حلات حاضرہ پر بھی اپنے تجربات اور مشاہدات پر قلم اٹھایا ہے اور بھٹو کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے قبل ضیاء الحق حکومت کی اعلی سطحی مشاورت پر بھی اپنی رائے، رد عمل اور مشاہدات قلم بند کیے ہیں، ہم اسی موضوع پر ہی رہتے ہوئے کچھ گزارشات کرنا چاہتے ہیں بھٹو صاحب نے خود بھی جیل میں ایک کتاب لکھی اور اس کا مسودہ جیل سے باہر بھیجنے میں کامیاب ہوئے یہ کتاب اگر مجھے قتل کردیا گیا کے عنوان سے بھارت میں شائع ہوئی، جس میں وسیع گفتگو کی گئی ہے تاہم اپنی اس کتاب میں وہ اپنی مصیبتوں کا الزام اپنے ستاروں کے سر ڈالتے ہیں، ہماری ملکی سیاست آج بھی ان حالات کا تجزیہ کرتی رہتی ہے، بھٹو کیس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ جولائی 1977 جب مارشل لاء نافذ ہوا تو میجر جنرل شمس الرحمن کلو کی سربراہی میں ایف ایس ایف سے متعلق رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی مقصد یہ تھا کہ اس کی تنظیم نو کی جائے یا ختم کردیا جائے، ایف آئی اے کو ہدائت کی گئی کہ وہ کلو کمیٹی کی معاونت کرے، ایف آئی اے نے 1974 میں ہونے والے ایک قتل کا سراغ لگایا اور ایس ایف ایس کے دو اہل کار گرفتار کیے گئے انہوں نے تفتیش کے دوران جرم کا اقرار کیا، مسعود محمود نے اقرار جرم کیا اور کہا کہ انہوں نے یہ کام بھٹو کی ہدائت پر کیا،3 ستمبر1977 کو بھٹو صاحب اس کیس میں گرفتار کرلیے گئے،13 ستمبر کو ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا، تین روز بعد بھٹو صاحب کو دوبراہ گرفتار کرلیا گیا اور مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی،18 مارچ1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے مقدمے کا فیصلہ سنایا دیا یہ فیصلہ جسٹس آفتاب حسین نے لکھا تھا اور بنچ میں شامل دیگر ججوں جسٹس مشتاق حسین، جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس گللباز خان اور جسٹس افتاب حسین نے اس پر دستخط کیے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی اور جسٹس انوار الحق، جسٹس قیصر خان، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، جسٹس غلام صفدر شاہ، جسٹس کرم الہی چوہان اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپیل کی سماعت کی جسٹس قیصر خان مقدمے کی سماعت کے دوراہ ہی ریٹائر ہوگئے اور جسٹس وحید الدین فالج کے حملے کے باعث ڈاکٹرز کے بورڈ کی رپورٹ کی روشنی میں مقدمے کی سماعت سے الگ ہوئے، ہائی کورٹ کے برعکس بھٹو سپریم کورٹ کی کارروائی سے مطمئن تھے کہ عدالت نے انہیں بھرپور وقت اور بات کرنے کا موقع دیا،12 فروری1979 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا اور اپیل تین چار کی نسبت سے مسترد کردی گئی، بعد میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی گئی تاہم یہ اپیل بھی مسترد ہوئی، مقدمہ کی سماعت کے دوران پیپلزپارٹی کی رہنماء محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے بھائی مرتضی بھٹو کو دنیا کے علامی رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور انہیں مداخلت کرنے پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، مرتضی بھٹو سے کہا گیا کہ وہ امریکی رہنماؤں جارج بش اور دیگر سے ملاقات کریں مرتضی بھٹو کو یہ بھی ہدائت کی جاتی تھی کہ وہ کھر، طارق اور پارٹی نے دیگر لوگوں سے الگ رہ کر یہ کام کریں بہر حال مرتضی بھٹو نے انور سادات، کرنل قذافی، حافظ اسد، شیخ زید، یاسر عرفات کے علاوہ سعودی عرب کی لیڈر شپ اور چین، روس کی قیادت سے بھی رابطے کیے، بعض ممالک نے اپنے نمائندے پاکستان بھیجے اور متعدد نے رحم کی اپیل کی اور بھٹو کو رہا کرنے کی درخواست کی، اس دروان ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس سے پیپلزرٹی کو نقصان پہنچا کہ صدر فضل الہی ستمبر1978 کو اپنے منصب سے الگ ہوگئے، یوں صدر کا عہدہ بھی جنرل ضیاء الحق نے سنبھال لیا، مقدمہ کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران صدر ضیاء اپنے فوجی رفقاء کار، کابینہ کے ارکان سے مسلسل مشاورت کرتے رہے تاہم خود کوئی رائے نہیں دیا کرتے تھے، بس سنتے تھے، کابینہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں جنرل سوار خان، کو سربراہ بنایا گیا اور وزراء میں غلام اسحاق خان، محمود ہارون، چوہدری ظہور الہی، پروفیسر غفور احمد، ارشد چوہدری، حاجی فقیر محمد کمیٹی میں شامل تھے، جنرل ضیاء ایم ایل اے کانفرنس میں بھی اس موضوع پر بات کیا کرتے تھے، چاروں گورنر، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف جنرل چشتی، جنرل غلام حسن، میجر جنرن مجیب الرحمن شام تھے، ان کے ساتھ کئی کئی گھنٹے مشاورت رہتی، نظر ثانی کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد وفاقی کابینہ کے اجلاس میں رائے لی گئی اور پھر بعد میں کابینہ میں شامل جماعتوں کے وزراء سے الگ الگ بھی رائے لی گئی، مارچ کے آخری ہفتے میں ایک اور مشاورت ہوئی جس میں گورنر سندھ، کے علاوہ جنرل جہانداد، میجرجنرل عبداللہ ملک، اور میجر جنرل محمود اسلم حیات شامل تھے، جنرل اسمم بیگ نے اپنی کتاب ”اقتدار کی مجبوریاں“ میں ذکر کیا ہے کہ وہ بھی کسی سطح کی مشاورت میں شریک رہے ہیں، جنرل کے ایم عارف کی کاتب مطالعہ کریں اور اس وقت کے رہنماء جو آج حیات ہیں، سے ملاقات کریں تو کہیں بھی جنرل اسلم بیگ کے کسی اعلی سطحی فیصلہ کن مشاورت میں شریک ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی، جنرل اسلم بیگ پاک فوج کے اہم ترین جرنیل رہے ہیں اور ضیاء الحق کے حادثے کے بعد وہ آرمی چیف بنے، ضیاء الحق کے ساتھ انہیں اس وقت کام کرنے کا موقع ملا جو بھٹو کو پھانسی ہوچکی تھی آج تو ویسے بھی اب اس نسل کے لوگ بہت کم حیات ہیں جو فیصلہ کن مشاورت میں شریک رہے، ہم تاریخ کے مطالعہ کے لیے ایسی ہی گواہیوں کے رحم و کرم پر ہیں جن کا ذکر جنرل اسلم بیگ نے اپنی کتاب میں کیا ہے، کتاب لکھنا بہت آسان ہے مگر حقائق لکھنا بہت مشکل ہے اور ایسے انسان کے لیے حقائق لکھنا اور بھی مشکل ہوتا ہے جو پاکستان کے حساس ترین ادارے میں رہا ہو یا پاک فوج کا سربراہ رہا ہو، اس بات پر بہت بحث ہوتی ہے کہ ہم حقائق کیسے جان سکتے ہیں، اور خاص طور پر وہ نسل کو سی ایس ایس کرنا چاہتی ہے یا حقائق پر مبنی غیر جانب دار تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتی ہے، بہت سے سیاسی رہنماء ہیں جو نجی محفلوں میں تو بہت کچھ کہتے مگر کتاب لکھنے کی ہمت نہیں کرتے، اور بے شمار ایسے ہیں جن کی شرط یہی ہوتی ہے کہ ان کی کتاب ان کے انتقال کے بعد شائع کی جائے ایسے افراد میں جناب عارف نظامی بھی شامل ہیں، سنہوعں نے کتاب لکھی ہے مگر مسودہ ان کے کسی قریب دوست نے سنبھال رکھا ہے ان کی بھی یہی نصیحت تھی کہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع کی جائے، جنرل اسلم بیگ نے اپنی کتاب میں بھٹو کی پھانسی کے قریبی دنوں میں ہونے والی مشاورت کی مجلسوں میں اپنی رائے اب اپنی کتاب میں سامنے رکھی، لیکن ادازہ ہوتا ہے کہ وہ جس زمانے کی بات کر رہے ہیں اس وقت وہ فیصلہ کن پالیسی ساز سرکل میں داخل نہیں ہوئے لہذا ہم ان کی گواہی کو ایک فریق کی نہیں بلکہ عینی شاہد کی گواہی تو کہہ سکتے یقین کرنا اور نہ کرنا کتاب کے قاری پر چھوڑ دینا چاہیے، ان کی کتاب میں جنرل ضیاء الحق سے متعلق گفتگو اس وقت ہوئی جب انہیں دنیا سے رخصت ہوئے33 سال ہوچکے ہیں، یہ کتاب بہت قیمتی بن جاتی اگر جنرل اسلم بیگ ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کی تفتیش، تحقیقات پر کوئی ایسی گواہی پیش کرتے جو آج تک سامنے نہیں آئی تھی لیکن کتاب میں ایسی کوئی گواہی موجود نہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :