یوم سیاہ کی خفت مٹانے کا طریقہ

بدھ 31 جولائی 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

25 جولائی کو گذشتہ برس تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اکثریت ملی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت تشکیل پائی اور وزیراعظم کا منصب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو عطا ہوا۔ متحدہ اپوزیشن نے ایک سال کے بعد اسے یوم سیاہ قرار دیا اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں احتجاجی جلسے کیے۔ کراچی میں جلسے کی لیڈ پیپلز پارٹی کے پاس تھی، اگر چہ دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی شریک تھیں ، لیکن جلسہ گاہ میں دیگر پارٹیوں جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کے پرچم بہت نمایاں تھے۔

چیئرمین پی پی پی نے بہت جارحانہ انداز اپنایا اور بظاہر تحریک انصاف لیکن دراصل اداروں کو نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن 2018 میں پولنگ اسٹیشن پر فوج کی تعیناتی کو بھی ہدف تنقید بنایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ہر طرح سے الیکشن شفاف نہیں تھے حالانکہ سندھ میں بھی پولنگ اسٹیشن پر فوج تعینات ہوئی اور ان کی پارٹی جیتی۔

(جاری ہے)

ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق 2013کے الیکشن میں دھاندلی کی شکایت میں 600انتخابی عذر داریاں الیکشن ٹریبونل میں درج کروائی گئیں لیکن 2018 کے الیکشن میں ان کی تعداد گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں کم رہی۔
 انہوں نے اپنی تقریر میں موجودہ حالات میں جمہوریت کو خطرہ بھی قرار دیا۔ حالانکہ ان کی پارٹی ایک صوبے (سندھ) میں آزادانہ حکومت کررہی ہے۔

وہ پورے پاکستان میں جلسے کررہے ہیں۔ دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی جلسے منعقد کررہی ہیں۔ تمام پارٹیوں کے راہنما پریس کانفرنس، ٹاک شوزکرتے ہیں، لیکن ان کااشارہ احتسابی عمل کی جانب تھا۔ احتساب کا عمل اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کے لیے مشکل صورت حال پیدا کیے ہوئے ہے۔ جس میں آنے والے دنوں میں مزید تیزی آتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
گذشتہ دنوں کراچی میں بزرگ سیاستدان صاحبزادہ احمد رضا قصوری نے آل پاکستان مسلم لیگ جناح کے قیام کا اعلان کیا ۔

کراچی پریس کلب میں انہوں نے نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ کراچی ایڈیٹر ز کلب کے ساتھ خصوصی نشست میں انہوں نے ملک میں صدارتی نظام کو نافذ کرنے کی بات کی۔ پارلیمانی نظام کی خرابیوں کو ملک کے لیے بدترین قرار دیا۔ احمد رضا قصوری نے صوبہ سندھ کو کم از کم تین صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات کی جس میں کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے نئے صوبوں کی حیثیت سے نام لیا۔

ملک کے دیگر صوبوں کو بھی چھوٹے صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات کی۔ کراچی کی ایک بڑی جماعت ایم کیو ایم بھی کراچی کے حوالے سے ایسی ہی سیاسی سوچ کو آگے بڑھانے کی خواہشمند ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے 25جوالائی کو یوم سیاہ کے مقابلے میں جمہوریت کی فتح کے طور پر منایا کہ الیکشن کاکامیاب انعقاد ہوا۔ یہ ایسی ہی کیفیت تھی کہ ایک وقت میں دایاں بازو کی سیاسی جماعتیں ”ایشیا سبز ہے“ کا نعرہ لگاتی تھیں اور بایاں بازوں کی سیاسی قیادت ”ایشیاء سرخ ہے “ کا جواباً نعرہ لگاتی تھیں۔

25 جولائی سیاہ تھا یا سفید اس کا فیصلہ کیے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا سفر ایک قدم اور آگے بڑھا، رُکا نہیں۔ 
تحریک انصاف کے کارکنوں نے 25 جولائی پر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کی عفت اس طرح مٹائی کہ ان کے ایک جوشیلے کارکن اور ممبر قومی اسمبلی فکس اٹ فیم عالمگیر خان نے سندھ حکومت کے پانی کی کمی اور گندگی کے حوالے سے احتجاج کیا اور پورا دن خبروں کی زینت بنے رہے۔

ان کو پہلے ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا، بعد میں شخصی ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ جوش خطاب میں عالمگیر خان نے میئر کراچی کو بھی سنادیں ، وسیم اختر کی شکایت اور جوابی وار پر گورنر سندھ عمران اسماعیل جو سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، فوراً میدان میں آئے اور عالمگیر خان اور میئر وسیم اختر میں صلح کروادی۔ لیکن عالمگیر خان کا احتجاج اسی نوعیت کا ہوتا ہے وہ آندھی کی طرح آتے ہیں، طوفان کی طرح ٹکراتے ہیں اور بالاخر سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔

مسئلہ حل ہونے کی بجائے کوئی اور رُخ اختیار کرلیتا ہے، انہیں اپنی توانائی صحیح انداز میں صرف کرنی چاہیے ۔
کراچی میں بارش کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو شہر کا انفراسٹرکچر ایک مرتبہ پھر بیٹھ گیا ہے۔ یہ تمام حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شہر کراچی جس توجہ کا طالب ہے اس کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ یہاں کا سیاسی انتظام اور نظام تبدیل کیا جائے۔

1729ء میں یہ سمندر کے کنارے ایک گاؤں کی شکل میں آباد ہوا۔ دس برس کے بعد اس کے تین سو سال مکمل ہوجائیں گے لیکن یہ دنیا کا اہم ترین میگاسٹی ہونے کے باوجود مسائلستان بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہر سیاسی جماعت اس کی خدمت کرنے کی بجائے اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس شہر کے لوگوں کے دل جیتنے کے بجائے ان پر حکومت کرنا چاہتی ہیں۔ 
سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ادارے بھی اس شہر کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کررہے ہیں۔

ملک کے اہم ترین ادارے بھی پانی فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ کراچی میں پانی فروخت کرنے والے اداروں کی فہرست حاصل کرے ، اندازہ ہوجائے گا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ لندن کا میئر شہریوں کو مفت پانی مہیا کرنے کا اعلان کررہا ہے لیکن اس شہر کو پانی فروخت کرکے لوٹا جارہا ہے ۔
1460اسکوائر میل پر مشتمل اس شہر میں ایک بھی جنگل نہیں جو اتنی بڑی آبادی کو آکسیجن مہیا کرے۔

حبس شدید تر ہوگیا ہے، سمندر میلا نہیں گندہ ہوچکا ہے، لیکن ذمہ داران شرم و حیا سے عاری ہیں۔ گیارہ برس سے صوبہ سندھ پر حکومت کرنے والی سیاسی جماعت کے پاس اس شہر کا دس فیصد بھی مینڈیٹ نہیں، جبکہ یہ شہر صوبہ سندھ کو 97 فیصد ریونیو دے رہا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے ساتھ محض زیادتی نہیں ہورہی بلکہ منظم ظلم ہورہا ہے، اور ظلم کرنے والے زیادہ دیر اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکتے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مارچ میں ”162 ارب“ کے پیکج کا اعلان کیا تھا، انہیں چاہیے کہ فوراً اس پر عملدرآمد کروائیں۔ ایک تقریب میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ نے سیالکوٹ شہر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اپنے مسائل خود حل کررہے ہیں، ڈرائی پورٹ ، ایئرپورٹ اور اب ایئرلائن بنارہے ہیں، پورے ملک کے شہروں کو اس مثال کو اپنانا چاہیے۔ میرے خیال میں شہر کراچی کے شہریوں کو بھی اپنے مسائل حل کرنے کے لیے خود میدان میں آنا چاہیے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :