سندھ میں گورنرراج کی بازگشت

جمعرات 12 دسمبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے سندھ کے حالات پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ میں محدود وقت کے لیے گورنر راج بھی لگ سکتا ہے ۔اس طرح کی گفتگو کئی مرتبہ کی گئی ہے لیکن اس میں عملاً کسی نوعیت کی پیش رفت کبھی بھی نظر نہیں آئی ۔پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کی ایک مرتبہ پھر بازگشت سنائی دی ہے لیکن ابھی تک کسی رکن اسمبلی نے کسی پرائیویٹ میٹنگ میں بھی اس نوعیت کی گفتگو نہیں کی ۔

تحریک انصاف کے دعوے اپنی جگہ لیکن ایسی کسی کوشش کو پذیرائی نہیں ملی ،اگرچہ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حکومتی تبدیلی پر کام کرنے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن دکھائی یہ دیتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی میں مائنس ون فارمولے کا شور مچایا گیا تو جواب آں غزل کے طور پر تحریک انصاف نے سندھ اسمبلی میں تبدیلی پر بات شروع کردی ۔

(جاری ہے)

سابق صدر آصف علی زرداری کی بیماری کی نوعیت میں نئی خبریہ ہے کہ ان کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے ۔اگر میڈیکل بورڈ نے ان کے لیے بھی بیرون ملک علاج تجویز کردیا تو ان کی ضمانت اور علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔یوں بیمار سیاستدانوں میں وہ دوسرے ہوں گے جو پردیس چلے جائیں گے۔
شہر کراچی میں یونیورسٹیوں میں کانووکیشن ، اردو کانفرنس اور کتب میلہ جیسی تقریبات بہت زور و شور سے جاری ہیں ۔

پرائیویٹ یونیورسٹیاں طلباء و طالبات سے کئی حیلوں بہانوں سے لاکھوں روپے بٹوررہی ہیں ۔کانووکیشن کے انتظامات کے نام پر ہزاروں روپے فی طالب علم وصول کیے گئے یوں دیکھا جائے تو یہ ادارے فیکٹریوں سے زیادہ منافع بخش بن چکے ہیں ،چند لوگ پڑھ جائیں گے لیکن عوام کی اکثریت بہتر تعلیم حاصل کرنے میں ناکام رہے گی ،ایسے معاشرے میں جمہوریت کبھی بھی پروان نہیں چڑھ سکتی جہاں پڑھے لکھے افراد کی تعداد بہت کم ہو ،پرائیویٹ ایجوکیشن سیکٹر کو سستی تعلیم کی جانب راغب کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

شہر کراچی میں اسی ہفتے کتب میلہ اور اردو کانفرنس منعقد ہوئے ۔کتب میلہ تو اپنی مثال آپ ہے لیکن آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہونے والی کانفرنس جہاں اردو کی ترقی اور ترویج کی بجائے مخصوص گروپ کے ایجنڈے کو تقویت دینے کی کوشش نظر آئی،وہاں ریاست پاکستان کے محافظ سکیورٹی اداروں کو نامعلوم افراد سے تشبیہ دے کر مذاق اڑاگیا جبکہ ملک کے تمام مسائل کا ذمہ دار سکیورٹی اداروں کو قرار دیا گیا ۔

آرٹس کونسل جیسے ادارے میں ایسی گفتگو نے منفی تاثر ظاہر کیا ۔عالمی سطح پر مختلف ممالک میں دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے اردو کے دانشور خواتین و حضرات کو اس کانفرنس کا حصہ بنایا جاتا تو بہتر تھا لیکن اس کی بجائے اپنے ہی اداروں کو نشانے پر رکھا گیا ۔اس ملک میں جتنے مسائل ہیں ان کے قصوروار یقیناً ہم سب لوگ ہیں بلکہ جو جس طرح کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے مقرر ہوا اس کے نتائج کی روشنی میں اس کے قصور کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔


ابھی ایک ہفتے پہلے کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے ایک دعامنگی نامی نوجوان طالبہ کو محض اس لیے اغوا کرلیا گیا کہ وہ لباس اور چال ڈھال سے کسی امیر خاندان کی بیٹی دکھائی دیتی تھی ۔معاشرے میں اس قدر جاہلیت کا موجود ہونا آخر کس کا قصور ہے ۔تعلیمی نظام،اساتذہ ،حکومت یا نظام عدل و انصاف سب کہیں نہ کہیں قصور وار ہیں ۔پولیس کی نااہلی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ اغوا کار مغویہ کو کراچی کے ہی ایک علاقے میں باندھ کے رکھے ہوئے تھے ۔

دعا منگی سے اب تفصیلات حاصل کی جانی چاہئیں ۔گھر والوں کے مطابق وہ تاوان کی رقم دے کر اپنی بیٹی کو گھر لائے ہیں ۔ایسی گفتگو سامنے آنے پر پولیس اور وزارت داخلہ صوبہ سندھ کے ذمہ داران کو عوام سے معافی مانگنی چاہیے ۔وہ لوگ جنہوں نے پولس میں سیاسی اثر و رسوخ کو رواج دے رکھا ہے اس ادارے کی تباہی کے ذمہ دار ہیں ۔ابھی تک پولیس چیف میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ میڈیا میں آکر اپنی بے بسی کی داستان سنائے ۔

ایسے ہی کئی واقعات موجود ہیں جن سے عوام روز بروز متاثر ہورہے ہیں ۔ جس طرح اغوا برائے تاوان کا لوگ شکار ہوتے ہیں اسی طرح شہر میں ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں ،چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں ۔افسران اور سیاستدان اپنی سکیورٹی پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کیے ہوئے ہیں ۔کسی بھی تقریب میں جائیں وہاں آنے والی سیاسی شخصیات کے ساتھ موبائل پولیس کی گاڑیاں دندناتی ہوئی نظرآتی ہیں لیکن عوام کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ۔


ایم کیو ایم کے یوم شہداء پر عزیز آباد کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ۔گزشتہ تین چار برس سے یہ مسلسل ہورہاہے کہ اس موقع پر خاص طور پر عزیز آباد کو سیل کردیا جاتا ہے تاکہ ان سے وابستہ لواحقین قبرستان کا رخ نہ کریں ۔حکومت سندھ کی جانب سے لوگوں کو قبرستان جانے سے روکنا معیوب سا دکھائی دیتا ہے بلکہ اس طرح ان کی وابستگی مزید مضبوط ہوتی جائے گی ،جو لوگ دنیا سے چلے گئے ہیں ان سے لواحقین کا تعلق سیاسی نہیں ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے جو بہت جذباتی نوعیت کا ہے لہذا اس پالیسی میں نرمی ہونی چاہیے ۔


ملک میں اقتصادی اعشاریئے بہتری کی نشاندہی کررہے ہیں خاص طور پر ڈالر کا ایکس چینج ریٹ کم ہورہا ہے جبکہ اسٹاک ایکس چینج چالیس ہزار کی نفسیاتی حد پار کرچکی ہے ۔کرنٹ اکاوٴنٹ خسارے میں کمی نے عالمی سطح پر پاکستان کی ریٹنگ بہتر کرنے میں مدد دی ہے ۔حکومت کو فی کس آمدنی میں اضافے کے لیے عوام کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی ۔

اس وقت بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔جب تک نئے پراجیکٹس شروع نہیں ہونگے، حکومت خود سرمایہ کاری نہیں کرے گی روزگار کے مواقع بڑھانے مشکل ہوں گے ۔حکومت ریٹائرمنٹ کی نئی پالیسی سے سرکاری اداروں سے لوگوں کو بے روزگار کرنے کی پالیسی پر کاربند ہوگئی تو معاشرہ مزید مسائل کا شکار ہوجائے گا ۔شہر کراچی میں بھی جرائم میں اضافے کی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کو قرار دیا جارہا ہے جس پر پرائیویٹ شعبے کی مدد سے قابو پایاجاسکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :