
سو سنار کی ایک لوہار کی
جمعہ 25 ستمبر 2020

محمد کامران کھاکھی
(جاری ہے)
نواز شریف ملک کے تین دفعہ کے وزیر اعظم رہے ، ان کو نا اہل کر کے پہلے جیل کی ہو ا کھانی پڑی پھر بیمار ہوئے تو ملک سے باہر علاج کے لیے بھیج دیامگر اب حکومت کے نمائندے کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ بیمار ہی نہیں بلکہ صحت مند ہیں اس کی وجہ وہ خوف ہے جو انہیں مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف سےہے کہ اگر کوئی ہمارے راستے میں مزاہم ہو سکتا ہے تو وہ صرف نواز شریف ہے اور ان کا یہ خوف اپوزیشن کی ایک اے ۔پی۔سی نے ثابت کر دیا۔ جس میں نواز شریف نے خصوصی خطاب کیا اور حکومت کی اہلیت پر سوالات اٹھا دیے۔پچھلے دس سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کے چور چور کے نعروں کے باوجود بھی نواز شریف کی ایک تقریر نے ان کے بیانیے کو ریت کی دیوار ثابت کر دیا ۔
نواز شریف ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور موقع پہ چوکہ مارنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔اگر ہم ان کی سیاسی جدوجہد پہ نظر کریں تو انہوں نے ہمیشہ بہترین وقت پہ انٹری لی اور اسکا پورا پورا فائدہ اٹھایا سوائے ایک موقع کے جس سے وہ اتنا نقصان اٹھا گئے اور وہ تھا جے۔آئی۔ٹی کے سامنے پیش ہونا۔ مگر اس کے علاوہ انہوں نے ہمیشہ اس وقت انٹری کی جب انہیں یقین ہو کہ کھیل ان کے حق میں ہو گا۔ دو سال سے زیادہ عرصہ خاموش رہنے کے بعد ان کی ملکی سیاست میں انٹری حالات کے تناظر میں بہترین وقت کا انتخاب ہے۔ جیسے ملک میں عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں اور ابھی حکومت نے آئی۔ایم۔ایف سے اگلی قسط لینے کے لیے مذاکرات کرنے ہیں تو یقینا بجلی اور گیس مزید مہنگی ہو گی اور عوام کا غم و غصہ بھی۔ اسی طرح قرضوں کی قسط جو کہ جی-20 کی طرف سے کرونا کی وجہ سے ایک سال کے لیے ملتوی کی گئیں تھیں وہ بھی اب ادا کرنی ہیں جس کی وجہ سے روپیہ مزید گرنے کا امکان ہے ۔ اور سونے پہ سہاگہ حکومت عین اس وقت میں گلگت ،بلتستان کو صوبہ بنانے کا سوچ رہی ہے جو کہ کشمیر موقف سے رو گردانی ہے کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق گلگت، بلتستان ریاست کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر کے حل کے بغیر اسے پاکستان کا صوبہ بنانا ایسے ہی ہے جیسے بھارت نے اپنے آئین کی شق 370 ختم کر کے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی، اسی طرح پاکستان بھی اپنے آئین کی شق 257 ختم کرکے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کرے اور بھارت کے اس اقدام کو صحیح قرار دے دے۔اسی لیے اپوزیشن نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں اسے سقوط کشمیر قرار دیا۔ حکومت کو اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ گلگت ،بلتستان کے عوام کو حقوق دینا جتنا ضروری ہے پاکستان کے آئین کی پاسداری اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
پاکستان کی معیشت اور موجودہ صورتحال میں اپوزیشن اور حکومت تصادم ،کسی بھی صورت میں پاکستان کے حق میں بہتر نہیں بلکہ اس میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ،جو ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا۔ا س لیے ان دونو ں جماعتوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہیے اور کوئی بہتر صورتحال نکالنی چاہیے تاکہ ملک خانہ جنگی سے بچا رہے اور مسائل پر قابو پایا جا سکے۔اور اسی بات کا عندیہ گورنر پنجاب چودھری سرورصاحب نے دیا ہے،جو کہ خوش آئند ہے۔خدارا اپنی سیاست اور بقا ء کی بجائے پاکستان اور اسکی عوام کے بارے میں سوچیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد کامران کھاکھی کے کالمز
-
آدھا سچ، سیاست اور دھوکہ
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
عوامی بجٹ اور حکومتی خوشخبریاں
ہفتہ 19 جون 2021
-
ہماری کوئی غلطی نہیں
بدھ 16 جون 2021
-
بدلا ہے خیبر پختونخواہ
بدھ 9 جون 2021
-
روک سکو تو روک لو۔۔!
ہفتہ 5 جون 2021
-
کوئی بھوکا نہ سوئے
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
خدمت آپ کی دہلیز پر
جمعرات 22 اپریل 2021
محمد کامران کھاکھی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.