پاکستانی سینٹ کی تاریخ ، کردار اور الیکشن 2021ء

جمعہ 19 فروری 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا قیام دسمبر 1947ءکو عمل میں آیا جس  نے 12 مارچ 1949ء کو قرار داد مقاصد تیار کی جس پر آئین کی بنیاد رکھی گئی مگر اس قانون  ساز اسمبلی  کوآئین بنانے سے پہلے اکتوبر 1954ء میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے تحلیل کر دیا اور ملک میں ایمرجینسی نافذ کر دی۔اس کے بعد گورنر جنرل نے مئی 1955 ءمیں دوسری دستور ساز اسمبلی کا اجلاس بلایا ، جس نے 29 فروری 1956ءکو پاکستان کا پہلا آئین تشکیل دیا اور منظور کیا۔

  اس آئین کو 23 مارچ 1956 ءکو نافذ کیا گیا ۔
7 اکتوبر 1958 ءکو مارشل لاء نافذ کیا گیا اور آئین کو منسوخ کردیا گیا۔ فوجی حکومت نے فروری    1960 ءمیں ایک کمیشن تشکیل دیا جس نے 1962 ءکا آئین تشکیل دیا۔ اس آئین کے تحت صدارتی نظام  کے لئے قانون سازی کی گئی تھی۔

(جاری ہے)

1962 ءکے آئین کو 25 مارچ 1969 ءکو منسوخ کردیا گیا۔ 1970 ءکے انتخابات کے بعد دسمبر 1971 ءمیں اقتدار میں آنے والی سول حکومت نے  1972ء میں قوم کو ایک عبوری آئین دیا۔

1970 ءکی اسمبلی نے 1973 ءکا آئین تشکیل دیا جو 12 اپریل کو منظور ہوااور 14 اگست 1973ء کو اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ 1973 ءکا آئین قومی اسمبلی اور ایوان بالا (سینٹ)پر مشتمل دو عدلی مقننہ کے ساتھ حکومت کی پارلیمانی شکل فراہم کرتا ہے۔
سینیٹ کی رکنیت ، جو شروع میں 45  ارکان پر مشتمل تھی ، 1977 ءمیں بڑھ کر 63 ہوگئی  اور 1985 ءمیں یہ 87 ہوگئی۔ 2002 ءمیں جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ۔

ایف۔او)  کے تحت سینیٹ کی رکنیت  87 سے بڑھا کر 100 کردی  اور 2011ء میں آصف علی زرداری صاحب نےاٹھارویں ترمیم کے ذریعے چار اقلیتی ارکان کی ہر صوبے سے نمائندگی شامل کر کے اس تعداد کو 104 کر دیا۔
سینیٹ کا کردار قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دینا اور قومی اسمبلی میں اکثریت کی وجہ سے کسی بھی صوبے کے تسلط سے متعلق چھوٹے صوبوں کے خوف کو ختم کرنا ہے۔

اسی مقصد کے لیے ہر صوبے سے 23 ارکان منتخب ہوتے ہیں جبکہ آٹھ ارکان فاٹا اور چار مرکز سے منتخب ہوتے ہیں۔

 ان ارکان کی مدت چھ سال پر مشتمل ہوتی ہے مگر ہر تین سال بعد آدھے ارکان ریٹائر ہو جاتے ہیں اس لیے ہر تین سال بعد الیکشن ہوتے ہیں۔مارچ 2021 میں 52 سیٹیں خالی ہوں گی ، جن میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی 12 ، پنجاب اور سندھ کی 11 ، نئے ضم ہونے والے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے چار اور اسلام آباد کی دو نشستیں شامل ہیں۔


مارچ 2021 ءکو ریٹائر ہونے والے 52 سینیٹرز میں  سے 17 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے ، سات پاکستان پیپلز پارٹی سے ، سات پاکستان تحریک انصاف سے ، پانچ آزاد ، تین بلوچستان عوامی پارٹی  سے، دو پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے، دو نیشنل پارٹی سے ، دو جمعیت علمائے اسلام (ف) ، ایک جماعت اسلامی سے ، ایک عوامی نیشنل پارٹی اور ایک بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے ہے۔


پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ کے ایوان بالا کے الیکشن میں حصہ لینے کے اصولی فیصلے سے حکومتی پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ حکومت کو ایوان بالا میں  اکثریتی نمائندگی حاصل کرنی بہت ضروری ہے تاکہ وہ صدارتی آرڈینس سے کام چلانے کی بجائے ٹھوس قانون سازی کر سکیں اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ایوان بالا ہے کیونکہ اب تک ایوان بالا میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے  مگر اس الیکشن میں ہو سکتا ہے کہ حکومتی پارٹی اپنے ارکان کی تعداد بڑھانے میں کامیاب ہو جائے اور دونوں ایوانوں میں اکثریت قائم کر لےکیونکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ٹوٹل 24 نشستوں پر حکومتی پارٹی واضح برتری لے سکتی ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ ق سے مل کے چند سیٹیں جیت سکتی ہے اسی طرح سندھ میں ایم۔

کیو۔ایم سے اشتراک سے کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے جبکہ فاٹا میں زیادہ امید آزاد امیدواروں کی ہے مگر مرکز میں حکومت کو سیٹیں ملنے کی امید ہے۔مگر حکومت سے ناراض ارکان اسمبلی اگر اپوزیشن کو سپورٹ کرتے ہیں تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں کیوں کہ ابھی تک حکومت اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ ووٹوں کی خریدوفروخت بھی عروج پر ہے جیسے کہ 2018ء کے الیکشن میں تھی مگر اس کو منظر عام پر آنے میں تین سال کا وقت لگا۔

کہیں یہ صرف عدالتوں کو گمراہ کرنے کے لیے تو نہیں شائع ہوئی کیونکہ تحریک انصاف سینٹ انتخابات اصلاحات کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ جن لوگوں کو پیسے لیتے دکھایا گیا ہے وہ حکومت کا حصہ بھی رہے، وزیر بھی بنے اور اب تک پارٹی کا حصہ بھی ہیں۔ جبکہ 2018ء میں سینٹ الیکشن قومی اسمبلی الیکشن سے پہلے ہوئے۔بہر حال یہ ایک علیحدہ بحث ہے میر اس بلاگ کا مقصد سینٹ معلومات فراہم کرنا ہے تو حکومت اور اپوزیشن نے اپنے نمائندوں کو ٹکٹس جاری کرنے شروع کر دیے ہیں اور یہ انتخابی دنگل 3مارچ کو ہوگا اب دیکھنا یہ ہے کہ کون زیادہ سیٹیں لینے میں کامیاب ہوتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :