باغوں کا شہر لاہور بنا گندگی کا ڈھیر

منگل 12 جنوری 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

لہور لہور اے  باغوں کا شہر لاہور، پاکستان کا دل لاہور، پھولوں کا شہر لاہور۔ اک دور تھا کہ لاہور کو خوبصورت اور مثالی شہر کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا مگر نہ جانے میرے سوہنے شہر لاہور کو کس کی نظر لگ گئی۔کبھی یہاں آئے روز عوامی فلاح بہبود کے لئے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح پہ افتتاح کئے جارہے ہوتے تھے۔ پنجاب سپیڈ سے مشہور پاکستان کے تخت لاہور کا حکمران جسکو کو ناقدین  ”شوباز“  کہا کرتے تھے  وہ  ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی ایسی کیا کرتا تھا کہ مہینوں کے منصوبوں چند دنوں میں پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے تھے۔

، کبھی نئے نئے ہسپتال بن رہے تھے، لاہور شہر کی ٹریفک کے مسائل کے حل کے بہترین روڈ انفراسٹرکچر کی خاطر نت نئی سڑکیں، بہترین اور جدید طرز کے انڈر پاسز، اعلی معیار کے road bridges، عوام الناس کی سہولت کے لئے سستی ترین اور بین الاقوامی معیار کی میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کے منصوبے، لاہور شہر کے اندر بڑھتے ہوئے ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے پورے شہر کے گرد ring road جیسے شاندار منصوبے بن رہے تھے۔

(جاری ہے)


جدید دنیا کا مقابلہ کرنے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے PITB یعنی پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا قیام جس کی بدولت ناصرف لاہور کے اندر ملک کی واحد انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا قیام عمل آتا ھے۔ جس کی بدولت نہ  صرف لاہور بلکہ وطن عزیز پاکستان کے بہت سے دیگر  شہر اور بہت سے وفاقی اور صوبائی ادارے یہاں تک کہ دوسرے صوبوں کے ادارے بھی PITB  سے بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔

لاہور شہر کے مشہور ترین مقامات بشمول یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور دیگر پبلک مقامات پر عوام الناس کو مفت انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کی جارہی تھی لاہور شہر کو محفوظ بنانے کے لئے safe city بنایا جاتا ھے۔ ٹریفک کنٹرول کے لئے E-Challan کے منصوبوں پر کام شروع کردیا گیا۔ computerized ڈرائیونگ لائیسنس کا اجراء ممکن بنایا گیا۔
 شہر کی صفائی ستھرائی کے لئے بھی بین الاقوامی معیار کے پروگرامز جاری و ساری تھے جس کے لئے برادر ملک تر کی کی کمپنی کی خدمات بھی کی گئی تھیں۔

سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا اک مربوط نظام کے تحت کام چل رہا تھا، عوام الناس کے لئے اپنے گلی محلہ اور مارکیٹوں کی صفائی ستھرائی کے مسائل تقریبا نہ ہونے کے برابر ہو چکے تھے۔
 لاہور جہاں پر کبھی Vertical Horticulture   کے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جا رہا تھا۔مگر افسوس آج باغوں کا شہر لاہور گندگی کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر اک بہت ہی تکلیف دہ فوٹو وائرل ہورہی ہے، جس میں پرانے اور نئے لاہور شہر  کی بالکل ٹھیک انداز میں عکاسی ہو رہی ہے۔


”لاہور کی اک سڑک پر اوپر چور اور ڈاکوؤوں کی بنی ہوئی اورنج میٹرو ٹرین کا ٹریک نظر آرہا ہے اور اسی ٹریک کے نیچے کوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا ہوا نظر آرہا ہے“
نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا کہ جب میرے سوہنے لاہور کو کسی کی نظر بد لگ گئی۔ آج سوشل میڈیا ہو یا پھر الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا، لاہور کا سب سے بڑا مسئلہ صفائی ستھرائی کے معمالات ہیں۔

پھولوں اور باغوں کے شہر سے منسوب میرا شہر لاہور آج اک گندگی کے ڈھیر میں بدل چکا ھے۔ گندگی اور گندگی ہر طرف گندگی ہی نظر آرہی ھے۔
کم و بیش ایک کروڑ کی آبادی کا یہ وہی شہر ھے جس کو دیکھ کر وطن عزیز کے ہر شہر کا فرد رشک کیا کرتا تھا اور کچھ کم عقل لوگ حسد بھی کیا کرتے تھے اور اس شہر میں متحرک انتظامیہ اور تخت لاہور پر براجمان شخص  شہباز شریف کی قابلیت اور انتظامی امور پر گرفت کو دیکھ کر پاکستانی رشک کیا کرتے تھے اور  دوسرے صوبوں کے افراد بھی یہ دعا کیا کرتے تھے کہ کاش انکے صوبے میں بھی اک شہباز شریف جیسا بندہ حکمران ہوتا تاکہ انکے مسائلِ بھی ترجیحی بنیادوں پر حل ہوسکیں۔


کچھ ناقدین یہ کہا کرتے تھے کہ شہباز شریف پورے صوبہ پنجاب کی بجائے صرف شہر لاہور کا ہی وزیر اعلی ھے۔ شہباز شریف تو لاہور شہر کے ساتھ ساتھ پورے صوبہ پنجاب کو دیکھ رہا تھا اور یہ بات ان ریکارڈ ھے کہ آٹھارویں ائینی ترمیم کے بعد جتنی ترقی پنجاب میں ہوئی ھے اسکی مثال نہیں ملتی۔ پرانے پاکستان کے وقت کے ناقدین سے میرا آج اک سوال ھے کہ چلو مان لیا کہ شہباز شریف صرف لاہور شہر ہی دیکھتا تھا اور اسکی ترجیحات صرف لاہور شہر تک محدود تھیں۔

مگر آج تو نئے پاکستان میں وسیم اکرم پلس  کے زیر سایہ لاہور شہر کی جو حالت زار ہوئی ھے اسکا ذمہ دار کون ھے؟  لاہور شہر گندی کے ڈھیر میں بدل چکا ھے۔ شہر کے مشہور و معروف علاقوں، سڑکوں، کاروباری مارکیٹیں کے سامنے ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ انکا ذمہ دار کون ھے؟
وسیم اکرم پلس جناب عثمان بزدار صاحب کو صوبہ پنجاب کے تخت پر بٹھانے کا مقصد تو شاید یہ تھا کہ لاہور کی طرح پنجاب کے دوسرے شہروں کے تمام شہریوں کو مساوی سہولیات میسر آئیں۔

  اور دوسرے پسماندہ شہروں کو لاہور کے برابر لایا جائے لیکن یہاں تو تمام تدبیریں ہی الٹ ہورہی ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ھے کہ پاکستان کے دل شہر لاہور کو پنجاب کے دوسرے پسماندہ شہروں کے برابر لاکر کھڑا کردیا گیا ھے۔
لاہور شہر کی موجودہ حالت اس دن سے شروع ہوگئی تھی جب صوبہ پنجاب کے تمام بلدیاتی اداروں کو معطل کردیا گیا اور اگلے انتخابات کب ہونگے یہ تو اللہ کریم کی ذات ہی بہتر جانتی ھے۔

اور دوسری طرف ترکی کی کمپنی کو غیر فعال کردیا گیا۔
پچھلے دنوں اورنج لائن میٹرو ٹرین پر سفر کرنے کا موقع ملا۔ جہاں پر دل خوشی سے لڈیاں بھی ڈال رہا تھا کہ بین الاقوامی معیار کی انتہائی سستی سواری پر سفر کرنے کا موقع مل رہا ھے،  وہی پر صفائی ستھرائی کے انتہائی ناقص انتظامات پر دل انتہائی رنجیدہ بھی تھا۔ حالت تو یہ تھی کہ پلیٹ فارم پر مٹی کی تہ جمعی ہوئی تھی، اور پلیٹ فارم پر مسافر اور گاڑی کے درمیان لگے گلاس کے barrier پر لگتا تھا کہ کبھی dedusting ہوئی ہی نہیں۔

پلیٹ فارم کی بیرونی دیواروں پر لگی مٹی اور ناپسندیدہ  نشانات سے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے چیچوں کی ملیاں کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ہیں اور حیرانگی کی بات یہ بھی تھی کہ کوئی صفائی ستھرائی والے ورکر بھی نظر نہیں آرہے تھے۔
آہ میرے سوہنے شہر لاہور کو کسی کی نظر بد لگ گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :