سینئر ترین وکلا ء کا اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ

جمعرات 11 فروری 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

وکالت اک مقدس پیشہ ہے، وکیل کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے جس شخصیت کا نام آتا ہے وہ ہیں قائد اعظم محمد علی جناح جنہوں نے دلیل، قلم اور قانون کی زبان سے تاج برطانیہ کو  شکست دیتے ہوئے برصغیر پاک و ہند سے نکلنے پرناصرف مجبور کیا بلکہ کلمہ طیبہ کے نام لیوا مسلمانوں کے لئے اک عظیم مملکت کا قیام بھی ممکن بنایا۔

اس میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جاسکتا کہ انصاف کے حصول کے لئے وکلاء برادری کا کردار نا صرف قابل تحسین ہے بلکہ قابل ستائش بھی ہے۔تقریبا پاکستان کے ہر خاندان کے اندر یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ جہاں انکے بچے ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکاونٹنٹ، فوجی، پولیس، سی ایس ایس آفیسر بنیں وہی پر انکے خاندان میں اک فرد وکیل ضرور ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

ہماری روز مرہ کے قانونی مسائل جیسا کہ لڑائی جھگڑا، منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کے مسائل کے حل کے لئے ہم سب کی پہلی آس امید وکیل ہی ہوتا ہے۔

مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے وہ  وکلاء برادری جو کہ خود قانون کی نگہبان جماعت ہے اور لاقانیت کے خلاف سائل کو عدالتوں سے انصاف دلواتی ہے مگر ماضی قریب کے کچھ انتہائی تلخ واقعات نظروں سے گرزے جن میں وکلاء برادری لاقانونیت کے خلاف اسی  طرح کی لاقانونیت والی زبان میں جواب دیتی ہوئی نظر آتی رہی ہے۔ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر  سوموار 8  فروری کی صبح بہت ہی دردناک اور پریشان کن منظردیکھنے کو ملے جب اسلام آباد کچہری میں اک  عدالتی حکم پر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے  وکلاء کے دفاتر گرائے جانے کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہنچ کر توڑ پھوڑ کی اور چیف جسٹس کے چیمبر پر بھی دھاوا بول دیا، گالم گلوچ  اور چیف جسٹس کے چیمبرکے باہر  شد ید نعرے بازی بھی کی۔

  وکلاء کے احتجاج کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالتیں تا حکم ثانی بند کر دی گئیں۔اور عدالت عالیہ کی کاز لسٹ بھی منسوخ کر دی گئی ہے،  چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ اپنے چیمبر میں محصور ہوگئے۔واقعے کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد سے کی ملاقات کی اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا، چیف جسٹس پاکستان نے واقعے میں ملوث افرادکے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کردی،  چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب وکلاء ججز کی عزت نہیں کرینگے تو سائلین کی کون سنے گا۔


پاکستان میں وکلاء برادری کی طرف سے اس طرح کے احتجاج کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، آئے روز ہم دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ فلاں شہر کی کچہری میں وکلاء نے جج  کیساتھ بدتمیزی کی اور گالی گلوچ کیساتھ ساتھ جج صاحب کی پٹائی بھی کردی۔کہیں پر وکیل بھائی پولیس کے ساتھ گھتم گھتا ہوتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں تو کہیں پر جج صاحب کو کرسی سمیت زمین پر پٹخنے کی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اور کبھی کبھی تو مخالف وکیل کی پٹائی بھی جذبہ خیر سخالی کے طور پر کردی جاتی ہے۔
 سال 2019   میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال کے اندر ہونے والا پرتشدد مظاہرہ جس میں بہت سے افراد شدید زخمی ہوئے، اسکے ساتھ ہی ساتھ ہسپتال کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا، اور اک فوٹیج میں پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان صاحب کی وکلاء برادری کے ہاتھوں ٹھکائی بھی دیکھائی دی، ایک اور فوٹیج میں پنجاب پولیس کی گاڑی کو نذر آتش کرتے ہوئے نوجوان وکلاء نظرآئے اورہوائی فائرنگ کرتے ہوئے وکلاء کی تو کیا ہی بات تھی۔

اور اس واقعہ کے پیچھے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں علاج کے غرض سے آنے والے چند وکلاء انفرادی حیثیت میں ڈاکٹروں اور ہسپتال انتظامیہ کے درمیان جھگڑا تھا جوبعد میں شدید ترین احتجاج اور ہسپتال پر بدترین حملہ کی صورت اختیار کرگیا۔یاد رہے دنیا جہاں میں ہسپتال واحد ایسی جگہ ہوتی ہیں کہ جہاں پر دوران جنگ بھی دشمن حملہ آور نہیں ہوتا۔

پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلا کے خلاف تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت دو مقدمات درج کیے ہیں۔ پہلا مقدمہ ہسپتال کے عملے کے ایک رکن کی مدعیت میں 250 سے زیادہ وکلا کے خلاف قتلِ خطا، کارِ سرکار میں مداخلت، دہشت پھیلانے، ہوائی فائرنگ کرنے، زخمی اور بلوہ کرنے، لوٹ مار، عورتوں پر حملہ کرنے اور سرکاری مشینری اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

مگر ان مقدمات کے نتائج جو کہ صفر بٹہ صفر نکلے تھے وہ بھی قوم کے سامنے ہیں۔
ٓاس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ میں وکلاء برادری کی طرف سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے خلاف بھرپور احتجاج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے، اس واقعہ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہی پتا چلتا ہے کہ اک  عدالتی کارروائی کے دوران لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان چیپٹر کے صدر شیر زمان قریشی نے ملتان میں اک عدالتی کاروائی کے دوران جسٹس محمد قاسم خان کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے وکلا کی بدتمیزی کا سخت نوٹس لیا تھا اور اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔عدالت نے قریشی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے بعد وکلا ء کی ایک بڑی تعداد نے تشدد کا سہارا لیا۔ قریشی کے حامی وکلاء نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، عدالت کے اندر لوہے کے گیٹ کو توڑ دیا اور نعرے بازی کی۔

تاہم چیف جسٹس بلاک پر حملہ کرنے کی ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا جب پولیس نے عدالت کے احاطے سے زبردستی باہر آنے کے لئے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔س کے بعد وکلاء نے مال روڈ پر اپنا احتجاج جاری رکھا، جسے بعد میں ٹریفک کے لئے روک دیا گیا۔اس کے بعد وکلاء نے مال روڈ پر اپنا احتجاج جاری رکھا، جسے بعد میں ٹریفک کے لئے روک دیا گیا۔

قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں کے ساتھ وکلاء کے تصادم نے علاقے میں کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر کر دیں۔ آس پاس کی دکانیں بند کردی گئیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی عمارت کو عارضی طور پر سیل کردیا گیا۔درج بالا صرف چند نمایاں واقعات جن کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، حالانکہ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جو گاہے بگاہے سننے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔


بہرحال اسلام ہائیکورٹ واقعہ کے بعد انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ وکلاء برادری کی سب سے بڑی تنظیموں کے سربرہان کی طرف سے وکلاء کی طرف سے عدالت پر حملہ کی ناصرف پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی ہے بلکہ وکلاء کے ان اقدامات کی حمایت نہ کرنے کا اعادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ پاکستان میں وکلاء برادری کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بارکونس کے وائس چیئرمین خوشدل خان نے وکلا ء کی اسلام آباد ہائیکورٹ پرحملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا واقعہ ہونا ہی نہیں چاہئے تھا۔

اسی طری جیو نیوز پر سینئر صحافی حامد میر کے پروگرام  ”کپیٹل ٹاک“ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلاء کی توڑ پھوڑ کی مذمت کی ا انہوں نے کہا کہ وکلاء کے چیف جسٹس کے چیمبر پر حملہ اور توڑپھوڑ کی ہم کسی صورت حمایت نہیں کرسکتے، انہوں نے کہا کہ اگر وکیل اور جج ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تواک پورا ادارہ درمیان سے چلا جاتا ہے جسکی پھر کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

وکلاء کایہ کام بالکل غلط تھا، ٹھیک نہیں تھا،  اسی پروگرام میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے کہا میں شرمسار ہوں،انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ کہ ہماری تربیت میں کمی رہ گئی، ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم پتھر اُٹھائیں، ہمار ا حق صرف یہ ہے کہ ہم صرف قلم اُٹھائیں، ہمارا حق صرف یہ ہے کہ ہم دلیل سے بات کریں، ہمارا کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اس طرح سے عدالتوں کے یا کسی عام آدمی کے خلاف اس طرح کی حرکت کریں۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ وکالت کے اس مقدس پیشہ میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت والی روش کوجتنی جلدی ہوسکے ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی معاشرے میں آئین و قانون کے متعلق سب سے زیادہ آگاہی وکلاء برادری کے پاس ہی ہوتی ہے، اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کسی بھی صورت میں ملکی آئین و قوانین کسی بھی فرد یا افراد کو یا کسی بھی تنظیم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔

وکلاء برادری سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم، زیادتی اور لاقانونیت کے خلاف صرف اور صرف انصاف کے دروازے پر دستک دی جاتی ہے ناکہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔امید ہے وکلاء برادری کی اعلی تنظمیں اپنی برادری کے اچھے کام کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ہر غلط اقدام کی سرزنش بھی کریں گی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی پر مذمت بھی کرتی رہیں گی۔

یاد رہے اگر وکلاء برادری کی طرف سے عدم برداشت کو قانون کو ہاتھ میں لینے والی روش باقی رہی اور یہ سلسہ اسی طرح چلتا رہا تو پھر ملک میں جنگل کے قانون کا راج ہو جائے گا یعنی جس کی لاٹھی اسکی بھینس۔اور سب سے خطرنات پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنے والی نسلیں اس مقدس پیشہ کی طرف جانے کا سوچنا ہی بند کردیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :