ہفتہ 6 مارچ کی شام ٹویٹرپر دو انتہائی بے ہودہ قسم کے ٹرنیڈ نظروں کے سامنے گزرے جن میں ایک ”پٹواری کھوتی کے بچے“ اور دوسرا ”یوتھیے کُتے کے بچے“۔ اور ان ہیش ٹیش ٹرینڈز کے اوپر ہزاروں کی تعداد میں سوشل استعمال کرنے والے پاکستانی افراد نے ہزاروں کی تعداد میں ٹویٹ، ریٹویٹ کئے اور ہزاروں کی تعداد میں ان ٹویٹس کو لائک بھی کیا گیا۔
یہ گھٹیا ترین ہیش ٹیش جنکو یہاں دوبارہ لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے اوراللہ کی پناہ ان ہیش ٹیگ والے ٹویٹس میں دنیا جہاں کی غلاظت کی باتیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔معلوم نہیں کہ راقم کی اس تحریر کے ٹائٹل کو ایڈیٹوریل صفحہ پر ایڈیٹر صاحب اجاز ت بھی دیتے ہیں یا نہیں۔ان گھٹیا ترین ٹرینڈز کا پس منظر یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں پاکستان تحریک انصاف کے حفیظ شیخ کی شکست کی شرمندگی کو ختم کرنے اور پارلیمنٹ میں عددی برتری کو ثابت کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان نے 6 مارچ کی دوپہر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاص کرلیا۔
(جاری ہے)
یہ اک جمہوری اور آئینی طریقہ کار ہے کہ جسے کرنے پر کوئی تنقید کی ضرورت نہیں ہے۔ عمران خان نے اپنی عددی برتری ثابت کردی، اب کسی کا کوئی اعتراض نہیں بنتا، یہ عمران خان کا خود سے لیا گیا فیصلہ تھا جسکی بناء پر انہوں نے اپنی عددی برتری کو ثابت کردیا۔ اب نہ تو اس جمہوری عمل کی تکمیل پر فاتحانہ شورشرابہ کرنی ضرورت ہے اور نہ ہی تنقید۔
مگر کیا ہے کہ ہماری جمہوری روایات و اقدار جو کہ پہلے ہی اتنی مضبوط نہیں ہیں اوپر سے دور حاضر کی سیاسی قیادت کے اندر عدم برداشت، رواداری کی کمی نے جلتے پر تیل کا کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے فاتحانہ اور سلطان راہی سٹائل میں اک مرتبہ پھرمخالفین کو جارحانہ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ فضل الرحمان ہمیشہ سے دو نمبر آدمی ہے‘ آصف علی زرداری دنیا بھرمیں 10 پرسنٹ سے مشہورہے‘کہا جاتا ہے ایک زرداری سب پر بھاری‘ وہ رشوت دیتا ہے اس لیے وہ بھاری ہے. یوسف رضاگیلانی کرپٹ ترین آدمی ہے‘گیلانی کے وزیراعظم بننے سے پہلے اور بعد کے اثاثے چیک کریں سب پتہ چل جائے گا‘نوازشریف ایک ڈاکو ہے جو 30سال ملک کو لوٹ کر باہر بھاگ گیا‘ الیکشن کمیشن کے بیان پر حیرت ہوئی کہ ہم نے بہت اچھا الیکشن کرایا، اگر یہ سینیٹ انتخاب اچھاتھاتو برا کیا ہوتاہے۔
جہاں پارلیمنٹ کے اندر منگول سردار NOYANٓ والی بھڑکیں چل رہی تھیں وہی پر پارلیمنٹ کے باہرڈی چوک پر تحریک انصاف کے کارکنوں اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں میں گالیوں، تھپڑوں کا تبادلہ ہوا،احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا، سینٹر ڈاکٹر مصدق ملک پر تھپڑ مارا گیا، مریم اورنگزیب اور سابقہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کیساتھ بدتمیزی کی گئی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احسن اقبال پر جوتا پھینکا جبکہ مریم اورنگزیب سے بھی بدتمیزی کی، اس تمام صورتحال کے دوران مصدق ملک اور شاہدخاقان عباسی مقابلہ کرتے رہے، شاہدخاقان عباسی پی ٹی آئی کارکنوں کو للکارتے رہے کہ میرے سامنے آؤ اسٹریچر پر نہ بھیجا تو میرا نام بدل دینا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال دیگر پارٹی قائدین کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے اراکین جمع ہو گئے اور انہوں نے حکومت کے حق اور اپوزیشن کی مخالفت میں نعرے بازی شروع کر دی۔اپوزیشن جماعت کے رہنماوں کی پریس کانفرنس کے بعد جب لیگی رہنما واپس جانے لگے تو پی ٹی آئی کارکنوں نے ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کو ٹھڈاماردیا، جس کے بعد معاملہ ہاتھا پائی تک جا پہنچا۔
اس واقعے کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان دھکم پیل بھی شروع ہوئی اور لیگی رہنما دوبارہ ایک اونچی جگہ پر جمع ہو گئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔پولیس شاہدخاقان عباسی اور مصدق ملک کو حصار میں لیکر چلی گئی جبکہ اسلام آبادپولیس کے اہلکار کارکنوں کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔اسی طرح سوش میڈیا پر اک ویڈیو میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایم این اے شیخ روحیل اصغر کو ننگی گالیاں نکالتے ہوئے دیکھا گیا۔
مردان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر پارلیمانی آفیئر علی محمد خان جو اپنی ہر بات اور تقریر کا آغاز درود شریف سے کرتے ہیں انکا ٹوئٹر پر ٹیوٹ ملاحظہ فرمائیں اور سپورٹر سمیت لیڈران کی سوچ ملاحظہ فرمائیں:”بھائی پورے اسلام آباد میں یہی جگہ ملی تھی پریس کانفرنس کرنے جب آپ کو پتہ تھا کہ ڈی چوک پہ PTI کے کارکن جشن منا نے اکھٹے ہو رہے ہیں تولیگی رہنماؤں کا اسی مقام پہ عین اُسی وقت پریس کانفرنس کرنا مصیبت کو خود ہی دعوت دینے کے مترادف ہے، ذمہ داری ن لیگ لیڈرشپ پہ عائد ہوتی ہے۔
“ ان وزیر موصوف نے بجائے اپنے پارلمینٹ کے اپوزیشن کے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی مذمت کرتے الٹا اپنے اسمبلی کے پیٹی بھائیوں کی سرزنش کررہے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل بھی ڈی چوک میں آئے ہوئے پارٹی ورکرز کیساتھ سیلفیاں لیتے ہوئے دیکھائی دیئے، انہوں نے اپنے ٹیویٹر پر ٹیوٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارٹی ورکرز کو وزیراعظم کا پیغام پہنچایا (وہ پیغام کیا تھا اللہ ہی بہتر جانتے ہیں) اور انکا شکریہ ادا کیا، ہمارا ورکر ہی ہماری اصل میں ہماری طاقت ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سنیٹرکیساتھ بھی ایسا سلوک ہوا جب پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مشتعل کارکنوں نے انکے خلاف شدید ترین نعرہ بازی کی اور انکو بھی مجبورا پولیس کے حصار میں باہر نکالنا پڑا۔جہاں پر بہت سے صحافی حضرات نے پارلیمنٹرین کے ساتھ ہونے والے سلوک پر نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ تحریک انصاف کی قیاد ت کی طرف سے انتہائی شرمناک ردعمل کو بھی حرف تنقید بنایا ہے وہی پر الیکٹرانک میڈیا پر پیراشوٹ صحافی صرف اپوزیشن کے بغض میں اپوزیشن قائدین کیساتھ ہونے والی بدسلوکی کی کھلے نہیں تو دبے لفظوں میں تعریف کرتے ہوئے بھی دیکھائی ضرور دیئے۔
اک غیر جانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تو پارٹی کارکنان کی اس طرح کی حرکات کرنے کی جرات تب ہی ہوسکتی ہے کہ جب انکے قائدین خود عدم برداشت کے رستے پر گامزن ہوں، جب سیاسی لیڈران اپنے ورکرز کی طرف سے ہونے والی غلط حرکات پر خود معذرت نہ کریں اور نہ ہی مذمت کریں اور نہ ہی پارٹی کارکنان کی سرزنش کریں۔کل کے واقعہ کے بعدہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کرتی بلکہ اپنے پارٹی کارکنان کی سرزنش بھی کرتی، مگر کیاہے عدم براشت اور سیاسی رواداری کے کوسوں دور ہماری آج کی سیاسی قیادت ہفتہ کے روز ہونے والے واقعہ کو justify کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے۔
سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ استعمال نوجوان نسل کررہی ہے،مگر جس بے حودگی اور لچڑپن کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کے کسی اقدام پر اگر تھوڑی سی بھی تنقید کردی جائے تو مخالف سیاسی پارٹی کا ورکر اور چاہنے والا اپنے تن من دھن سے اپنے سیاسی لیڈر کے دفاع میں گالی گلوچ پر اترآتا ہے۔ ماں بہن کی گالیاں تو عام سی بات ہوچکی ہے۔
ہماری نوجوان نسل کس راہ پر چل پڑی ہے؟ کوئی اخلاق، کوئی تہذیب، کوئی رواداری، کوئی ادب و احترام نام کی چیز ہی دیکھنے سننے کو نہیں مل رہی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم نے اپنے اپنے سیاسی لیڈران کی پوجا کرنی شروع کردی ہے۔شائد ہم نے اپنے سیاسی قائدین کواپنے ماں باپ سے بھی اوپر کا درجہ دے دیا ہے۔ یاد رہے ہمارے بجلی کے بل، ہمار ی ضروریات زندگی کی تمام اشیاء، ہمارے سکول کالجز اور یونیورسٹیز کے بل ہم خود اپنی جیب سے ادا کررہے ہوتے ہیں نہ کہ ہماری سیاسی قائدین۔
اسلئے اپنے اپنے سیاسی قائدین سے محبت ضرور کریں مگر انکی پوجا مت کریں۔ہمیں ماضی قریب سے بھی بہت سے سبق سیکھنے کی اشدضرورت ہے کہ یہی ہمارے سیاسی قائدین ہیں جو اک دوسرے کو چور ڈاکو بھی کہتے ہیں، غدار وطن بھی کہتے ہیں، سیکورٹی رسک بھی کہتے ہیں، مودی کے یار بھی کہتے ہیں، مگر اپنے اپنے مفادات اور حصول اقتدار کے لئے اپنی تمام پچھلی باتوں کو بھول کر ایک دوسرے کے جگری یار بن جاتے ہیں۔
کیا ہمیں یہ سب کچھ بھول جانا چاہئے کہ جس زرداری کو شہباز شریف نے لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنا تھا آج وہی شہباز شریف سگے بھائیوں سے بھی زیادہ اک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تھا اور آج خود اپنی حکومت میں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا اسپیکر بنا دیا۔
مریم نواز کچھ عرصہ پہلے زرداری عمران بھائی بھائی کا نعرہ لگایا تھا، اور آج وہی مریم نواز عمران خان کے بھائی زرداری کے ساتھ مل کر زرداری کے بھائی عمران خان کی حکومت کے خلاف صف آراء ہیں۔کل ہی کی بات ہے جب یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہٹانے کے لئے نواز شریف نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور جسکے نتیجہ میں یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کے ہاتھ دھونے پڑگئے، اور آج اُسی یوسف رضا گیلانی کو اپنے ہاتھوں سے سینٹر منتخب کروانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ ن کے تمام ایم این ایز سے ووٹ ڈلوایا۔
لہذا تمام نوجوانان پاکستان سے التماس ہے کہ اپنے اپنے سیاسی لیڈر سے محبت ضرور کریں مگر انکی پوجا کرنی شروع نہ کردیں۔ ہم میں سے بہت سے نوجوانوں نے اپنے اپنے سیاسی لیڈران کے پیچھے اپنے بہت سے دوستوں، کزنوں، محلے داروں اور دفاتر، سکول فیلوز کے ساتھ دشمنیاں پال رکھی ہیں، ان سیاسی لیڈران نے اپنے اپنے مفاد میں پھر اک دوجے سے گلے مل لینا ہے مگر اس وقت تک ہم نے اپنے بہت سے دوستوں رشتہ داروں کو اپنے سے بہت دور کرلینا ہے۔یاد رہے جب ہم کسی کو گالی نکالتے ہیں تو وہ گالی گھوم پھر کر خود ہمارے پاس واپس آجاتی ہے۔آپکی گالیوں سے کسی کو کوئی نقصان تو نہیں ہوگا مگر آپ اپنے نامہ اعمال میں گناہ لکھوا رہے ہوتے ہیں۔اللہ کریم ہم سبکو ہدایت نصیب فرمائے،آمین ثم آمین۔