کاش چوہدری رحمت علی کی بات مان لی جاتی
پیر 23 ستمبر 2019
(جاری ہے)
16 ،نومبر 1897 ء ہوشیار پور کے ایک گاؤں موہر کے رہائش پزیر چوہدری شاہ محمد کے گھر ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جو برصغیر کی مسلم سیاست کا ایسا چمکدار ستارہ ثابت ہوا جس کی ضو فشانی سے پاکستان آج دنیا کے نقشہ پر چمکتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ راستے ہندو بچوں سے ہی جدا نہیں ہوئے بلکہ انکی ساری عمر حقیقت بیانی کی وجہ سے انہیں اپنوں سے الگ ہی کئے رکھنے کی سزا دیتی رہی۔ایچی سن میں وہ اپنی اسی حقیقت پسندی اور حق بیانی کی وجہ سے مستعفی ہوئے،1940 میں قرارداد لاہور میں شمولیت کے لئے واپس آنا چاہتے تھے مگر اس وقت کے وزیر اعلی سکندر حیات نے صورت حال ایسی پیدا کر دی کہ وہ واپس ملک نہ آسکے، کیونکہ چند روز قبل ہی خاکساروں کی فائرنگ سے کچھ لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے تھے اس لئے وزیر اعلی پنجاب سکندر حیات نے ان کی پنجاب میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی تھی ۔انہوں نے 1947 میں اقوام متحدہ میں کشمیر کے بارے میں اپنے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا،پاکستان بننے کے بعدوہ 6اپریل1948میں پاکستان تشریف لائے مگر پاکستان کی بیوروکریسی نے اکتوبر1948 میں ان کو خالی ہاتھ واپس جانے پر مجبور کردیا۔
اگر ہم ان کے پیش کردہ نقشہ پر غور کریں تو ہمیں یہ بات مان لینی چاہئے کہ چوہدری رحمت علی نے مسلمانان برصغیر کے لئے جونقشے پیش کئے وہ ایک نہیں بلکہ تین تھے،یعنی ایک پاکستان جو کہ کشمیر،پنجاب،دہلی سمیت سرحد،بلوچستان اور سندھ پر مشتمل تھا جبکہ دوسرا بنگلستان جن میں بنگال،بہار اور آسام کو شامل کیا گیا تھا جبکہ تیسری ریاست حیدر آباد دکن کو عثمانستان کا نام دیا تھا ،یہ وہ سب علاقے تھے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔اب ذرا انکی سیاسی بصیرت کا اندازہ لگاتے ہوئے موجودہ انڈیا کا نقشہ دیکھیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ باقی ریاستیں بالکل ہندوستان کے دل میں واقع ہیں یعنی ایک لحاظ سے انڈیا کے مرکز اور جنوب میں واقع ہیں ،انکے جدا ہونے یا آزاد مملکتیں بننے سے پورا ہندوستان دریدہ وبریدہ ہوجانا تھا۔یعنی مشرقی پاکستان،مغربی پاکستان،عثمانستان،بنگلستان ہندوستان کے وجود سے کٹ کر الگ ہوجاتے تو آج ہندوستان کبھی بھی اتنا بڑا ملک یا طاقتور نہ ہوتا۔گویا رحمت علی سیاسی بصیرت نے اس وقت ہی جانچ لیا تھا کہ اگر یہ سب مسلمان ریاستیں وجود میں آجاتی ہیں تو ہندو کبھی بھی اتنے مضبوط نہیں ہوں گے۔کیونکہ ہندوستان کے چہاراطراف مسلمان ریاستیں ہوتیں اور انڈیا کو ان ریاستوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے ایک بار نہیں سوبار سوچنا پڑتا جو کہ اب نہیں سوچتا۔یہ بھی ممکن تھا کہ کشمیر بھی آج اتنا مجبور ومحکوم نہ ہوتا جتنا آج دکھائی دے رہا ہے کہ وادی شاداب کو کرفیو نے وادی مرگ میں بدلا ہوا ہے اور ہم ابھی تک اس مسئلہ کا سفارتی حل تلاش کرتے پھر رہے ہیں،اسی لئے میری تحقیق یہ ہے کہ اگر چوہدری رحمت علی کی تقسیم ہندوستان کا ساتھ دیا جاتا تو آج ان کا پرچم ترنگا کی جگہ تار تارہوتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.