نکال لایا ہوں ایک پنجرہ سے اک پرندہ

اتوار 27 اکتوبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی ترقی نے دنیا کو گلوبل ویلج بنا کر اس کائنات کو انسان کے ہاتھ میں لا بسایا ہے ،آپ کائنات کے سر بستہ رازوں کو جاننا چاہتے ہوں تو اپنا لیپ ٹاپ کھولیں اور اس میں سے ہر وہ معلومات سے آپ واقفیت حاصل کر لیں گے جس کے بارے میں آپ پریشان ہوں ،دنیا کے کسی بھی خطہ میں کسی سے بھی رابطہ کرنا ہو،اپنا جام جم(موبائل فون)نکالیں ایک ڈائل کریں اورآڈیو وڈیو کی سہولیات آپ کے ہاتھوں میں ہوں گی،دس بارہ اخبارات پڑھنے کی ضرورت نہیں ریموٹ آپ کے ہاتھ میں ہو تو آپ جس ملک اور جس طرح کی خبریں اور حالیہ معلومات اپنی مرضی مطابق دیکھ اور سن سکتے ہیں،لیکن پچھے ایک روز سے میں نے اپنے ریموٹ کو جس چینل کے لئے بھی بٹن دبایا ان سب میں ایک ہی خبر منہ چڑھا رہی تھی کہ میاں نواز شریف کی اس وقت کی صورت حال کیا ہے؟ابھی پلیٹ لیٹس کم ہو گئے،ابھی بڑھ گئے،ابھی مائنر ہارٹ اٹیک ہوا،ابھی سنبھل گئے،ابھی ہسپتال میں،ابھی عبوری ضمانت ہوگئی وغیرہ وغیرہ،بطور انسان اور انسانیت کے ہر اس پاکستانی کی ہمدردیاں اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں کیونکہ اس سے قطع نظر کہ وہ تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں وہ کسی کے باپ ،بھائی اوربنی نوع انسان ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن افسوس ان تمام وفادارانِ میاں فیملی پر ہو رہا ہے جو مسلسل اس بات کا واویلا مچا رہے ہیں کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہوا تو حکومت ذمہ دار ہوگی۔اگر انہیں کچھ ہو جاتا ہے تو عمران خان ذمہ دار ہوں گے۔یعنی خیر خواہی کا عالم یہ ہے کہ خدا سے عمر دراز کی دعائیں اور انہیں زندگی عطا کرنے کی التجائیں کرنے کی بجائے انہیں موت کے منہ کی طرف ہی لے جایا جا رہا ہے۔


میرا ان سب سے سوال یہ ہے کہ دنیا اور پاکستان کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ان راہنماؤں کو کسی محلاتی یا عوامی سازشوں کا ایسے شکار کر کے جان لے لی گئی کہ سال ہا سال گزرنے کے باوجود ان سازشوں کا کوئی سراغ نہ مل سکا اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو تاریخ پاکستان کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ زیارت سے کراچی واپس تشریف لا رہے ہیں کہ ان کی ایمبولینس کا تیل ختم ہو جاتا ہے،مختصر یہ کہ بر لب سڑک جناح صاحب پاکستان خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی جان اس ملک پر نچھاور کر جاتے ہیں،تیل کیوں کم تھا،دوسری ایمبولینس کیوں تاخیر سے آئی،ان معاملات میں کون ملوث تھا آج تک ایک راز کے سوا کچھ نہیں،مولوی تمیزالدین کا واقعہ بھی تاریخ کے صفحات پر منقش ہے۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوب زادہ لیاقت علی خان کو ایک بھرے جلسے میں ایک پارک میں جسے اب لیاقت باغ کہا جاتا ہے گولی مار کر شہید کر دیا گیا،تاریخ کا ماتم تو یہ ہے کہ سید اکبر کو بھی جو کہ لیاقت علی کا قاتل تھا اسی وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس قتل کے کمشن کی رپورٹ لے کر آنے والے جہاز کو بھی رسول کے قریب دھماکہ سے اڑا دیا گیا۔

کیسے ہوا اکس نے کیا ؟آج تک تاریخ پاکستان خاموش ہے۔مس فاطمہ جناح ایک صبح اپنے کمرے میں بستر مرگ پر مردہ حالت میں پائی گئی،کیا ہوا کچھ خبر نہیں۔پاکستان کے بین الاقوامی شہرت کے حامل وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور آج تک پاکستان پیپلز پارٹی اسے عدالتی قتل قرار دے رہی ہے ،جس سیاسی وعسکری راہنما نے انہیں تختہ دار پر چڑھایا تھا آج اسی کی سیاسی باقیات سے پی پی کے راہنما حالیہ حکومت کے خلاف مل کر صدائے احتجاج بلند کر رہی کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہوا تو حکومت ذمہ دار ہے،واہ رے قدرت سیاست کیا کیا رنگ بدلتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مرکزی کردار کے ساتھ کیا ہوا کہ ان کا طیارہ یونہی بہاولپور بیس سے اڑا تو چند ہی سیکنڈ بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا اور ایک جنرل اپنے تیس سے زائد افسران کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر گیا،تاریخ کے صفحات یہاں خاموش نہیں ہو جاتے بلکہ بی بی بے نظیر بھٹو کو بھی ایک جلسہ عام سے واپسی پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور گولیوں کا وار کرنے والے کو بھی موقع واردات پر بالکل اسی طرح قتل کر دیا گیا جسیے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قاتل کے ساتھ ہوا تھا۔

جان ایف کینیڈی کا قتل کسے بھولا ہوا ہے،سب جانتے ہیں کہ انہیں 1963 میں عین اس وقت جب وہ صدارتی اسکوارڈ کے ساتھ صدارتی پروٹوکول والی گاڑی میں آرہے تھے تو ان کے سر پر گولی مار کر انہیں قتل کر دیا گیا،ایک گھنٹے کے اندر ہی پولیس اہلکار جے ڈی ٹپٹ کو بھی قتل کر دیا گیا۔جلد ہی قاتل لی ہاروی اوسوالڈ کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔
ان تمام واقعات کے پس پردہ کیا راز تھے،کون ملوث تھے،سازشیں کہاں تیار ہوئیں،نتائج کیا نکلے،صیغہ راز کے سوا کچھ نہیں۔

اگر ایسی ایسی بااثر شخصیات کے قتل آج تک معمہ ہیں تو کیا،خدانخواستہ ملکی موجودہ سیاسی صورت حال میں میاں صاحب کو کچھ ہو جاتا تو کچھ پتہ چلتا یا تاریخ ماضی کی طرح اسے بھی ایک حادثہ ،سانحہ یا واقعہ سمجھ کر بھلا دیا جاتا۔مقام افسوس یہ ہے کہ گذشتہ دو روز سے عوام بھی سڑکوں،ہسپتال اورجیل کے گرد جمع ہو کر نعرہ بازیوں میں مشغول ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ غلام ذہن کے مالک پرندہ کو پنجرہ کو نکال کر بھی ان کے ذہن سے غلامی کی زنجیروں سے کیسے رہائی اور نجات دلائی جا سکتی ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :