
نکال لایا ہوں ایک پنجرہ سے اک پرندہ
اتوار 27 اکتوبر 2019

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
میرا ان سب سے سوال یہ ہے کہ دنیا اور پاکستان کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ان راہنماؤں کو کسی محلاتی یا عوامی سازشوں کا ایسے شکار کر کے جان لے لی گئی کہ سال ہا سال گزرنے کے باوجود ان سازشوں کا کوئی سراغ نہ مل سکا اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو تاریخ پاکستان کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ زیارت سے کراچی واپس تشریف لا رہے ہیں کہ ان کی ایمبولینس کا تیل ختم ہو جاتا ہے،مختصر یہ کہ بر لب سڑک جناح صاحب پاکستان خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی جان اس ملک پر نچھاور کر جاتے ہیں،تیل کیوں کم تھا،دوسری ایمبولینس کیوں تاخیر سے آئی،ان معاملات میں کون ملوث تھا آج تک ایک راز کے سوا کچھ نہیں،مولوی تمیزالدین کا واقعہ بھی تاریخ کے صفحات پر منقش ہے۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوب زادہ لیاقت علی خان کو ایک بھرے جلسے میں ایک پارک میں جسے اب لیاقت باغ کہا جاتا ہے گولی مار کر شہید کر دیا گیا،تاریخ کا ماتم تو یہ ہے کہ سید اکبر کو بھی جو کہ لیاقت علی کا قاتل تھا اسی وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس قتل کے کمشن کی رپورٹ لے کر آنے والے جہاز کو بھی رسول کے قریب دھماکہ سے اڑا دیا گیا۔کیسے ہوا اکس نے کیا ؟آج تک تاریخ پاکستان خاموش ہے۔مس فاطمہ جناح ایک صبح اپنے کمرے میں بستر مرگ پر مردہ حالت میں پائی گئی،کیا ہوا کچھ خبر نہیں۔پاکستان کے بین الاقوامی شہرت کے حامل وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور آج تک پاکستان پیپلز پارٹی اسے عدالتی قتل قرار دے رہی ہے ،جس سیاسی وعسکری راہنما نے انہیں تختہ دار پر چڑھایا تھا آج اسی کی سیاسی باقیات سے پی پی کے راہنما حالیہ حکومت کے خلاف مل کر صدائے احتجاج بلند کر رہی کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہوا تو حکومت ذمہ دار ہے،واہ رے قدرت سیاست کیا کیا رنگ بدلتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مرکزی کردار کے ساتھ کیا ہوا کہ ان کا طیارہ یونہی بہاولپور بیس سے اڑا تو چند ہی سیکنڈ بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا اور ایک جنرل اپنے تیس سے زائد افسران کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر گیا،تاریخ کے صفحات یہاں خاموش نہیں ہو جاتے بلکہ بی بی بے نظیر بھٹو کو بھی ایک جلسہ عام سے واپسی پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور گولیوں کا وار کرنے والے کو بھی موقع واردات پر بالکل اسی طرح قتل کر دیا گیا جسیے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے قاتل کے ساتھ ہوا تھا۔جان ایف کینیڈی کا قتل کسے بھولا ہوا ہے،سب جانتے ہیں کہ انہیں 1963 میں عین اس وقت جب وہ صدارتی اسکوارڈ کے ساتھ صدارتی پروٹوکول والی گاڑی میں آرہے تھے تو ان کے سر پر گولی مار کر انہیں قتل کر دیا گیا،ایک گھنٹے کے اندر ہی پولیس اہلکار جے ڈی ٹپٹ کو بھی قتل کر دیا گیا۔جلد ہی قاتل لی ہاروی اوسوالڈ کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔
ان تمام واقعات کے پس پردہ کیا راز تھے،کون ملوث تھے،سازشیں کہاں تیار ہوئیں،نتائج کیا نکلے،صیغہ راز کے سوا کچھ نہیں۔اگر ایسی ایسی بااثر شخصیات کے قتل آج تک معمہ ہیں تو کیا،خدانخواستہ ملکی موجودہ سیاسی صورت حال میں میاں صاحب کو کچھ ہو جاتا تو کچھ پتہ چلتا یا تاریخ ماضی کی طرح اسے بھی ایک حادثہ ،سانحہ یا واقعہ سمجھ کر بھلا دیا جاتا۔مقام افسوس یہ ہے کہ گذشتہ دو روز سے عوام بھی سڑکوں،ہسپتال اورجیل کے گرد جمع ہو کر نعرہ بازیوں میں مشغول ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ غلام ذہن کے مالک پرندہ کو پنجرہ کو نکال کر بھی ان کے ذہن سے غلامی کی زنجیروں سے کیسے رہائی اور نجات دلائی جا سکتی ہے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.