طاقت ور کون؟ سعودی عرب یا ایران

ہفتہ 9 مئی 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

جنگ کا میدان ہو یا سیاسی اکھاڑہ ،سعودی عرب اور ایران ہمیشہ گتھم گتھا نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں کو امت مسلمہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔سعودی عرب مرکز اسلام ہونے، جبکہ ایران، امریکہ اسرائیل دشمنی کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں جنہوں نے وژن 2030ء کی وجہ سے شہرت پائی۔

سعودی حکام کے مطابق حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے وژن 2030ء کے منصوبوں پر عمل در آمد مشکل ہے۔
کسی بھی ریاست کی تقدیر اسکے حکمران کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ 2017ء اقتدار میں آتے ہی 31سالہ نا تجربہ کارسعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ایران کے انتہائی تجربہ کار 78 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا سامنا کرنا تھا۔

(جاری ہے)

دونوں رہنماؤں کا موازنہ کیا جائے تو عمر اور تجربہ کے لحاظ سے کسی حد تک دونوں رہنماؤں میں موازنہ بنتا ہی نہیں۔

اگر تعلیم کی بات کی جائے تو ایران کے سپریم لیڈ ر آیت اللہ خامنہ ای تقریباََ ُPHDکے برابر ایجوکیشن رکھتے ہیں جبکہ محمد بن سلمان ان کے مقابلے میں انتہائی کم تعلیم یافتہ ہیں۔ دفاعی لحاظ سے آیت اللہ خامنہ ای آٹھ سالہ(ایران عراق) جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں جبکہ محمد بن سلمان جنگی مہارتوں سے بالکل نا واقف ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای کئی سال تک ایران کے وزیر ِ دفاع رہ چکے ہیں جبکہ سعودی ولی عہد دفاعی معاملات کے متعلق بھی کچھ نہیں جانتے ۔

آیت اللہ خامنہ ای کافی عرصہ تک ایران میں صدارت کے عہدے پر فائز رہے ، اب ملک کے سپریم لیڈر ہیں اور ایک ایسے ملک کو لیڈکرتے آ رہے ہیں جس کا مقابلہ 41 سال سے دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ سے ہے جبکہ محمد بن سلمان نے پہلی بار اقتدار سنبھالا۔
محمد بن سلمان کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے سعودی عرب تاریخ کے بد ترین معاشی بحران سے دو چار ہے ۔

مثلاََابتدا میں ہی یمن پر حملہ کرنے کا فیصلہ نہ صرف غلط ثابت ہوا بلکہ اس نے سعودی عرب کی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عرب 21نیوز کے مطابق جنگِ یمن میں سعودی عرب اب تک 233ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے جبکہ نتیجہ صفر ہے ۔ کیونکہ جب سعودی عرب نے مارچ 2015ء میں یمن پر حملہ کیا تو اس وقت یمن کے دارلحکومت صنعا پرایران نواز حوثی قبائل کا قبضہ تھا اور آج بھی حوثی قبائل ہی صنعا پر قابض ہیں۔

جس سے واضح ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود سعودی عرب کو جنگ یمن میں واضح ناکامی ہوئی۔ 
پھر تیل کی جنگ کے امتحان میں بھی محمد بن سلمان نا تجربہ کاری کی وجہ سے شکست کھا گئے ۔ اگر چہ وہ روس کی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے کیے گئے اقدامات اپنے ہی گلے پڑ گئے اور تیل کی کم قیمتوں کا سب سے زیادہ نقصان سعودی عرب کو اٹھانا پڑا۔

کیونکہ روس یا ایران دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ایسے ممالک ہیں جن کی معیشت کا انحصار تیل پر نہیں ہے۔ خصوصاََ ایران نے گزشتہ چند سالوں میں اپنی معیشت کو تیل کی زنجیروں سے آزاد کرا لیا ہے جبکہ سعودی عرب کی معیشت اب بھی تیل پر کھڑی ہے۔ اور اب رہی سہی کسرکرونا نے نکال دی ہے ۔ یہاں تک کہ سعودی وزیر خزانہ کے مطابق سعودی عرب کو گزشتہ 20سالوں میں پہلی بار بد ترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور معیشت کو سہارا دینے کے لیے قرض لینا پڑے گا۔

ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جن کی وجہ سے اخراجات میں کمی ہو۔ 
اگر ایرا ن کی بات کی جائے تو معاشی و دفاعی پابندیوں اور کرونا وائرس کے باوجود ایران تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ ایران کرونا وائرس کی ٹیسٹ کٹس بنانے میں خود کفیل ہو چکا ہے ۔ حتیٰ کہ چالیس ممالک نے تو ایران سے کروناوائرس ٹیسٹ کٹس کی خریداری کے لیے رابطہ کیا ہے اور کچھ ممالک نے تو آرڈر بھی کر دیئے ہیں جن میں ترکی بھی شامل ہے ۔

امریکی حکام کے مطابق کچھ دن پہلے تکنیکی خدمات کے بدلے میں وینز ویلا نے 9ٹن سونا جہازوں کے ذریعے ایران پہنچایا ۔ 
بین الاقوامی ادارہ برائے اسٹریٹجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے مطابق مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ بڑھانے کی پالیسی میں ایران کو اپنے حریف سعودی عرب پر بر تری حاصل ہے ۔ کیونکہ افغانستان ، عراق ، شام ، یمن ،لبنان ، قطر اور عمان وغیرہ میں ایران کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے ۔

حال ہی میں نئے خلیج فارس رڈار سسٹمز کی رونمائی اور ملٹر ی سیٹلائٹ کوکامیابی سے خلا میں بھیجنا بہت بڑی کامیابیاں ہیں۔جس کے بعد ایران کے مسلح افواج کے ایک کمانڈر نے کہا تھا کہ ایران عالمی اسلامی طاقت بننے کی راہ پر گامز ن ہے ۔
2017ء میں ایران کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کے خفیہ اداراے موساد کے سربراہ یوسی کوہن نے ایران کی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے امریکہ سے مدد کے اپیل کی تھی۔

یوسی کوہن نے کہا تھا کہ ہم اکیلے ایران کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔اکتوبر 2019ء میں اسرائیلی جنرل اسحاق بریک نے ایران کے میزائلوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جو اِن کا مقابلہ کرسکے اور جنگ کی صورت میں اسرائیل کوانتہائی المناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس تمام تر بحث سے واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن یکسرتبدیل ہو چکا ہے اوریہاں ایران کی دفاعی طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :