ایران اور بھارت کی دوریاں۔۔۔۔بھارت کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی۔۔۔۔

جمعہ 31 جولائی 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے مخفی نہیں۔کی عالمی طاقتیں چین کے مقابلے میں اس کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔لیکن بھارت کا جارحانہ رویہ یہ اور ہمسایہ ممالک کے معاملات میں بے جا مداخلت نے نے اس کے مصنوعی چہرے کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔بھارت خصوصی طور پر ان ممالک کے معاملات میں ضرور دلچسپی لیتا ہے جہاں پر پاکستان کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔

ماضی کی تاریخ پر نظر دوڑائیں ہیں تو بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی۔اربوں روپے بھارت میں انفراسٹرکچر تعمیر پر خرچ کر دیے۔پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا جال بچھایا۔لیکن قدرت نے اس کی بددیانتی کا خلاصہ کچھ یوں دیا فیصلہ کن مراحل پر افغانستان کے تمام سٹیک ہولڈر نے بھارت سے مشاورت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔

(جاری ہے)

البتہ پاکستان کی کوششوں سے سے تمام فریق ایک میز پر جمع ہوئے اور اپنے مسائل کا حل تلاش کر لیا۔

ابھی بھارت افغانستان میں اپنی ناکامی کے زخم چاٹ رہا تھا کہ اس کو پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران سے ایک بری خبر سننے کو ملی۔جب عالمی میڈیا میں بھارتی تجزیہ کاروں کے حوالے سے یہ خبریں سننے میں آیں ایران میں اپنے تمام ترقیاتی منصوبوں سے بھارت کا نام نکال دیا ہے۔اب وہ تمام منصوبے آپ خود اپنے وسائل سے مکمل کرے گا۔یا پھر چین کے اشتراک سے ان منصوبوں کی تکمیل کی کوشش کی جائے گی۔

لیکن لیکن یہ بات ہو چکی ہے ہے کہ ایران میں جاری منصوبوں کے میں بھارت کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا۔ایران کی بندرگاہ چابہار کے منصوبے میں بھارت اپنے انداز میں ایران کی بھرپور مالی اور تکنیکی معاونت کر رہا تھا۔
اس منصوبے میں بھارت کی دلچسپی اس وجہ سے بھی بہت زیادہ تھی کہ وہ پاکستانی بندرگاہ گوادر کے ترقیاتی کاموں سے بہت خوفزدہ تھا۔

بھارت کا یہ خیال تھا کہ مستقبل میں یہ ممکن ہے کہ چین پاکستان کی بندرگاہ کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی بحریہ کا راستہ روک لے۔اس منصوبے کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 2016 میں ایران کا دورہ کیا اور وہاں پر اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے کے ساتھ مل کر ریل پروجیکٹ کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے تھے۔اس ایم او یو کے مطابق ایک ایسا راستہ تعمیر کرنا تھا جو بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں واقع ہے کاندھلہ بندرگاہ کو کو ایران کی بندرگاہ چابہار سے جوڑ دے۔

اس پروجیکٹ کی تعمیر کے لئے لیے بات کی ایک تعمیراتی کمپنی ارکون کو اس کام کا ٹھیکہ دیا گیا۔اس کمپنی کے انجینئرز نے کئی مرتبہ سائٹ کے دورے کیے۔بات یہ خبر ہندو کی رپورٹ کے مطابق ایران میں پراجیکٹ شروع کرنے اور فنڈ میں تاخیر کرنے پر بھارت کو اس پروجیکٹ سے علیحدہ کیا ہے ہے۔ایرانی حکام کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ پورا پراجیکٹ مارچ 2022 تک مکمل ہوگا اور ایران اس ریلوے لائن کو بھارتی معاونت کے بغیر مکمل کرے گا۔

وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے۔
دوسری طرف ایران نے چین کے ساتھ ساتھ اپنے تجارتی مفتی تعلقات میں میں بہتری پیدا کی ہے۔اور چین اور ایران کے مابین 25سالہ تجارتی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔بظاہر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایران نے ایک بہتر آپشن کا انتخاب کیا ہے۔چینی حکام نے بڑی سمجھداری کے ساتھ ساتھ اس پورے خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے لئے اپنے مخصوص دینے انداز میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے راستے کتے گوادر سے لے کر کاشغربہترین سڑک تعمیر ہو چکی ہے۔اطلاعات کے مطابق کاشغر سے آگے بھی سڑکوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے جو جدید شاہراہ ریشم سے ملکر چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک چین کے سامان کی رسائی ممکن بنائے گا۔چین اپنے اس منصوبے پر عمل کر رہا ہے کہ وہ اپنی تجارتی اشیاء وسطی ایشیائی ممالک تک بذریعہ گوادر پہنچا سکے۔

بھارت نے چابار منصوبے میں اپنی شرکت اسلئے یقینی بنائی تھی تھی کہ وہ وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچنے کے لئے گوادر کے بجائے چابہار کی بندرگاہ کا استعمال یقینی بنائے۔ہالا کے حقائق یہ ہیں کہ چابہار کی بندرگاہ شاہ گورنر کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے اور اس تک پہنچنے کا فاصلہ بھی طویل ہے۔کی دیگر تکنیکی مسائل کی وجہ سے بھی چابہار بندرگاہ کی وہ اہمیت نہیں بن سکیں جو گوادر بندرگاہ کی بن چکی ہے۔

لیکن ان سب حقائق کے باوجود خود بھارت وقت اپنی سازشی تھیوری کے مطابق ان منصوبوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوشش میں مصروف تھا کسی بھی طریقہ سے پاکستان چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنائے۔اگر چین نے بھارت اور ایران دونوں کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔لیکن بھارت نے پاکستان کے بغض کی وجہ سے اس میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا لیکن ایران نے اس میں شرکت کی حامی بھرلی تھی۔

اب ایران نے چابہار بندرگاہ سے افغانستان کی سرحد سے نزدیک واقع شہر زاہدان تک ریلوے لائن خود تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہو بین الاقوامی میڈیا میں لیک ہونے والی والی معلومات کے مطابق ایران کے قومی ترقیاتی فنڈ سے 40 کروڑ ڈالر اس منصوبہ کے لیے مختص کیے گئے۔۔ایران کے وزیر مواصلات محمد اسلامی نے 628 کلومیٹرطویل چابہار زاہدان ریلوے لائن بچھانے کا افتتاح کیا۔

منصوبے کے مطابق یہ ریلوے لائن افغانستان کے علاقے ذرنج تک جائے گی۔
بین الاقوامی میڈیا میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے متعدد مرتبہ بھارت کو یہ منصوبہ شروع کرنے کے لیے خطوط تحریر کیے۔اور بھارتی کمپنی پر زور دیا یا کہ وہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کرے۔تاہم بھارت کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ امریکی دباؤ کے باعث اس وہ اس منصوبے پر کام کا آغاز نہیں کر رہے۔

حالانکہ امریکہ نے چابہار زاہدان ریلوے لائن کو پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ایران کی طرف سے بھارتی مدد کے بغیر اس منصوبے پر کام کا آغاز ایک طرف تو معاشی حوالے سے بھارت کیلئے بڑا دھچکا ہے دوسری طرف بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھنے والے سفارتی ماہرین کے مطابق اس سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔بھارت کو اس منصوبے سے نکالنے کے بعد چین کے ساتھ ایرانی حکومت نے اپنے معاملات طے کیے۔

چین ایران منصوبے کی جو ابتدائی تفصیلات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق چین میں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر،مینوفیکچرنگ،توانائی،اور ٹرانسپورٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے لیے چین ایران میں سرمایہ کاری کرے گا،اس کے ساتھ ساتھ ساتھ بندر گاہوں کی تعمیر،نء تیل ریفائنریون کی تنصیب اور کء اہم حسا نوعیت کے منصوبوں پر چین اور بھارت کے درمیان اشتراک عمل ہو گا۔

ان منصوبوں کی تکمیل کے دوران ان ایران چین کو رعایتی نرخوں پر خام تیل کی سپلائی جاری رکھے گا۔یہ اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ چابہار بندرگاہ چین کو لیز پر بھی دی جاسکتی ہے۔پاکستان پہلے ہی گوادر کی بندرگاہ چین کو لیز پر دے چکا ہے۔چین اور ایران کے مابین اس طویل المعیاد منصوبے نے بھارت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔کیونکہ حال ہی میں بھارت اور چین کے مابین لداخ کے مقام پر سرحدی تنازعہ کے بعد چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔

بیس سے زائد بھارتی فوجی چین کے ہاتھوں اپنی جان دھو بیٹھے ہیں۔جبکہ سرحدی علاقے پر بھی چین کے قبضہ نے بھارت کی صلاحیت پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔۔
ایران کی جانب سے بھارت کو اس منصوبے سے الگ کرنے کے بعد بھارت کی اندرونی سیاست میں بھی ایک بھونچال ا گیا ہے۔بھارتی میڈیا تواتر سے ایسی خبریں رپورٹ کر رہا ہے کہ جس سے بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

تمام تجزیہ کار یہ بات مسلسل کہہ رہے ہیں کہ چابہار منصوبے سے بھارت کو نکالا جانا بھارت کی ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی میں چابہار بندرگاہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی سازشوں کا مرکز رہی ہے۔پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے چابہار کو بھارتی ایجنسیوں نے اپنے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کیا ہے۔

۔حرا کا سینیئر اہلکار کمانڈر کلبھوشن یادیو دو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔اور حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام سے پاسپورٹ استعمال کر رہا تھا اس نے اپنے اعترافی بیان میں یہ بتایا تھا تھا کہ اس نے چابہار میں ایک جعلی تجارتی کمپنی قائم کی ہوئی تھی۔جہاں سے وہ بلوچستان میں داخل ہوکر پاکستان کے دشمن کارروائیوں میں مصروف رہتا تھا۔بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ہمسایہ ممالک کے معاملات میں شرمناک مداخلت میں ملوث رہتا ہے۔

اس کی انہی حرکتوں کے باعث کوئی ہمسایہ ملک بھی اس پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں۔۔پاکستان، چین،ایران،بنگلہ دیش،نیپال،بھوٹان،سمیت تمام ہمسایہ ممالک بھارت کے لئے خیر کے جذبات نہیں رکھتے۔ایران کے حالیہ اقدام نے بھارت کے ہمسایہ ممالک کے خدشات کی توثیق کی ہے۔کہ بھارت نہ صرف بداعتماد ملک ہے بلکہ حرام صاحب ملک کے خلاف سازشیں اس کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔

۔
پاکستان ایران تعلقات بھی ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں۔ماضی میں ایران پاکستان کا سب سے قریبی دوست ملک رہا ہے۔تمام مشکل حالات میں ایران نے پاکستان کی مدد کی۔لیکن ایران میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ نے پاک ایران تعلقات پر بھی اثرات مرتب کئے تھے۔لیکن اب اس بات کی امید کی جاسکتی ہے ایران پاکستان کو اپنی پرانی دوستی کے تناظر میں دیکھے گا۔

پاکستان کی طرف سے متعدد مرتبہ ایران کو یہ بات باور کرائی گئی ہے اس کی سرزمین بھارت پاکستان کے خلاف صرف استعمال کر رہا ہے۔جس کے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے گئے۔لیکن اب چابہار منصوبے سے بھارت کی علیحدگی کے بعد اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ اب ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔چین جیسی عالمی طاقت کے ساتھ ایران کی شراکت داری سے نہ صرف ہفتے کے معاشی معاملات پر مثبت اثر پڑے گا بلکہ علاقائی سیاست بھی ایک مثبت رخ اختیار کرے گی۔

پاک ایران تعلقات اپنی پرانی ڈگر پر واپس آئیں گے۔اور خطے میں باہمی اعتماد اور امن وامان کی فضا دوبارہ پیدا ہوگی۔۔بھارت کے اس منصوبے سے نکلنے کے بعد پاکستان کی بندرگاہ گوادر اور انکی چابہار بندرگاہ ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ معاون بندرگاہوں کے طور پر ابھرے گیں۔افغانستان میں قیام امن کے لیے لیے پاکستان کے مثبت کردار کے اثرات ایران میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

جس طرح کے پہلے عرض کیا ہے پاکستان اور ایران ایسے برادران سا ملک ہیں جو ہر مشکل وقت میں دوسرے کے کام آتے ہیں۔افغانستان میں امن و امان ایران کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا پاکستان کے لیے۔لہذا پاکستان کے مثبت کردار نے ایران میں پاکستان کے ایم ایچ کو مزید بہتر بنایا ہے۔افغانستان میں قیام امن کے بڑھتے ہوئے امکانات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی علاقائی و عالمی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

جب کہ مسلح افواج کی تیاری مستعدی،اور برتری کا ایک دنیا اعتراف کر رہی ہے۔پاکستان اور چین کے مابین چین اقتصادی راہداری کی حفاظت کی ذمہ داری بھی پاکستان فوج لے رکھی ہے اس لیے یہ منصوبہ بھی اس خطے کی ترقی کے لیے لیے ایک سنگ میل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ان حقائق کو بھارتی حکمران جتنا جلد قبول کر لیں گے اتنا ہی جل دونوں ممالک سمیت پورے خطے کی عوام کی خوشحالی کی راہ کھلے گی۔

اور عالمی امن کے لیے مستحکم بنیاد فراہم ہوگی۔اب ہم بجا طور پر اس بات کی توقع کرسکتے ہیں کہ اب کوئی کلبوشن چابھار میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازش نہیں کرے گا۔اور جو بھارتی عناصر مختلف لبادوں میں چھپ کر ایران میں مصروف عمل ہیں ان کو نکال باہر کیا جائے گا۔اس خطے کا امن سن ایک دوسرے کے مفادات کے احترام میں مضمر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :