کرونا وائرس۔۔۔ وبا اور فطرت کا انتقام

منگل 17 مارچ 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

فطرت انسان کے قریب ہے۔اللہ تعالیٰ نے کچھ اصول اور قوانین دئیے ہوئے ہیں جن کو وہ بدلتا نہیں ہے ہم اپنی محدود قوت وعقل کے پیمانے پر اس کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ درست عمل نہیں ھے۔ھم ایک اور ظلم کا حصہ بنے ہوئے ہیں وہ ہے جہالت،ناشکری،اور ذہنی عیاشی، جس نے ہر معاملے میں شکوک وشبہات کا شکار کر دیا ہے۔ہم سائنس کو قرآن میں اور قرآن کو سائنس میں ڈھونڈ رہے ہیں اسی وجہ سے تنہا،کمزور اور مایوسی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔


ابھی کرونا وائرس کا شور اور وبا پھیلی تو سب علماء،مشائخ کی زبانیں خاموش اور باغیوں کی دراز ہو گئیں۔نسخے محدود اور خوف غالب آگیا۔ دنیا بھر کی نظریں سائنس دانوں کی لیبارٹریز کی طرف جم گئی ہیں کہ کب وہاں سے کوئی ویکسین نکلے گئی اور ہم بچ پائیں گے۔

(جاری ہے)

دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خوف،معاشرتی تعطل کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔کئی لوگ مذہب پر سوال کرنے لگے اور دعائیں، وظائف اور علاج وحفاظت کے لیے متوجہ ہیں مگر کوئی بندہ اپنے گریبان میں جھانکنے کا فیصلہ نہیں کر سکتا حالانکہ ناشکری،جہالت اور فطرت سے بغاوت ہی وہ وجوہات ہیں جو وبائیں جنم دیتی ہیں جس کو عذاب کہہ لیں یا خطرے سے آگاہی مگر اس میں دین اسلام کا عمل دخل نہیں ہے۔

اس نے ہر چیز کے اصول وضع کر رکھے ہیں جن پر تدبر سے ہم نے کبھی غور وفکر نہیں کیا۔ہم تو ثواب کے لئے قرآن پڑھتے اور ادب کرتے ہیں۔سب علوم انسانی ترقی کے معیار مقرر کرتے ہیں اور اللہ نے فطرت کے عین مطابق ان کو اتار رکھا ہے مگر انسان انہیں تلاش نہ کرے یا تلاش کر کے فطرت کے خلاف استعمال کرے تو پھر ایٹم تباہی ہی پھیلائے گا ۔
اب قرآن کا علم ابدی اور اس پر عمل روح کی بالیدگی،غرور وتکبر اور روحانی امراض کو مٹانے کے لیے ہے۔

یہ راستہ بھی بتاتا ہے اور منزل بھی ہے، جو درست راستے کے لئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اس کا موضوع انسان اور اس کی فلاح ہے۔مگر ہم اس میں سائنس تو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں مگر اللہ کے احکامات اور رہنما اصول بھول جاتے ہیں۔ہم درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر سیلاب آئے تو دعا کے لیے ہاتھ بلند کر دیتے ہیں،ناپ تول میں کمی کر کے دکان کی حفاظت اللہ سے مانگتے ہیں۔

معصوم بچوں سے زیادتی کر کے دربار کی طرف دوڑتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کر کے حج اور عمرہ کی سعادت نصیب ہو جائے کی دعائیں اور تیاریاں کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔وبا کے عروج پر بھی ہم ماسک تک غبن کرنے سے گریز نہیں کرتے تو توقع ہے کہ ہم اللہ کی جنت کے حق دار ہوں گے؟۔گندگی سے اپنا ملک آٹا ہوا ہے اور ہم اپنے گھر کی صفائی سے خوش ہیں۔

یہ تو ہماری حالت ہے پھر فطرت ہم سے انتقام کیوں نہ لے جہاں اچھے برے کی تمیز ختم ہو جائے اور سب وبا کی نذر ہو جائیں، کرونا وائرس کی وبا ہماری انہیں ناشکریوں، اخلاقی بد حالی اور جہالت کا نتیجہ ہے ۔اب اس کا مقابلہ فطری طریقہ سے ہو گا تب تک ہمیں بے موت مرنا ہو گا۔ہم اپنے ضمیر کو جہالت سے آزاد نہیں کریں گے،انہیں جنجھوڑ کر پوچھیں گے نہیں تو آج یہ وبا ہے کل کوئی اور ا جائے گی اس میں مذہب کا کیا قصور ہے؟ یہ تو فطرت کا وہ انتقام ہے جن کا تعلق ہمارے غیر فطری اعمال سے ہے۔

جس دن آپ کا ضمیر بیدار،جہالت کے اندھیرے دور ہو جائیں دعا بھی کام آئے گی اور دوا بھی کام کرے گی۔نفسا نفسی اور خوف بھی ختم ہو جائے گا۔ظلم کے اندھیرے میں کوئی تو چراغ جلا کر کھڑا ہو گا۔کوئی تو آواز دے گا کہ اے میرے رب،ہم اپنے نفسوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :